اسلام آباد (جیوڈیسک) ایف ایٹ کچہری کیس میں شہید جج رفاقت اعوان کے ریڈر نے سپریم کورٹ میں بیان دیا ہے کہ انہوں نے خود حملہ اور کو کمرہ عدالت میں داخل ہوتے اور جج کو گولیاں مارتے دیکھا ہے لیکن پولیس دباوٴ ڈال رہی ہے کہ وہ یہ بیان نہ دیں ، عدالت نے آئی جی اور چیف کمشنر کی رپورٹس پر عدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے اثر سے آزاد تحقیقاتی کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی ہے ایف ایٹ کچہری حملہ کے ازخود نوٹس کیس میں اسلام آبادکے آئی جی اور چیف کمشنر نے اپنی اپنی رپورٹس پیش کیں ،آئی جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور دو تھے
انہوں نے فائرنگ کرنے کے بعد خود کو بھی دھماکے سے اڑا لیا، جبکہ چیف کمشنر کی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آور دو سے زائد تھے، چیف جسٹس نے دونوں رپورٹس پرعدم اطمینان کا اظہار کیا ،چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہاکہ آئی جی اور چیف کمشنر دونوں حملہ آوروں کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر ہیں، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا واقعہ کے بعد حملہ آوروں کا پیچھا کیا گیا، کیا پولیس نے حملہ آوروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوئی کوشش کی، کیا واقعہ کے بعد اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے بلاک کیے گئے، چیف جسٹس نے ان سوالات پر عدالت سے دو دن میں جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وفاقی دارلحکومت میں یہ حالت ہے تو باقی شہروں میں کیا ہوگا ، ایف ایٹ حملے میں شہید جج رفاقت اعوان کیریڈر ملک خالد نون نے عدالت میں بیان دیا کہ پولیس اپنی مرضی کا بیان لینا چاہتی ہے، اور بائیس بائیس گھنٹے تھانے میں بٹھا کر ہراساں کیا جارہا ہے۔
پولیس کہتی ہے یہ بیان دو کہ باہر سے کوئی بندہ کمرہ عدالت میں نہیں آیا ، جبکہ انہوں نے خود حملہ آور کو اندر داخل ہوکر جج کومارتے ہوئے دیکھا، تاہم عدالت میں پیش جج کے بھائی کرنل صفدر حسین کا کہنا تھاکہ ریڈر جھوٹ بول رہاہے، کمرہ عدالت میں کسی گولی یاتباہی کا نشان نہیں ہے، حملہ آور نے فائرنگ ہی کرناتھی تو جج کے علاوہ کوئی دوسرا فرد نشانہ کیوں نہیں بنا، ایڈووکیٹ شیخ احسن الدین نے بیان دیا کہ چودھری نثار کیبیان نے سارا معاملہ الٹا کر دیا۔
جسٹس رفاقت اعوان کے ریڈر پر مرضی کابیان لینے کے لیے دباوٴ ڈالا جارہاہے ، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جب تک تحقیقات چل رہی ہے کوئی عوامی نمائندہ بیان نہ دے ، بیان بازی تفتیش کو متاثر کرسکتی ہے۔
عدالت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی کمیٹی کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ کوبھی مشترکا تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا حکم دیا ، اس کمیٹی کا سربراہ ڈی آئی جی کی سطح کا ہو اور اسلام آباد پولیس کے اثر سے آزاد ہو اوریہ کمیٹی دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ مکمل کرے۔