جس طرح آج کل غیرپارلیمانی الفاظ کے استعمال کے بغیر ہماری سیاست بے مزہ لگتی ہے اور بڑھکیوں کے بغیر ہمارے سیاستدانوں کونہ صرف بدہضمی ہو جاتی ہے بلکہ کھٹی ڈکاریں بھی آنے لگتی ہیں، اُسی طرح جب تک ہمارے اکثر لکھاری بھائی اپنے آپ کو حقیر، فقیر، درویش، خاکسار اور خاک نشیں نہ لکھیں اُنہیں مزہ نہیں آتا حالانکہ حقیقت یہ کہ اہلِ صحافت اپنے آپ کو وزیرِاعظم سے بھی بڑی ”توپ”شے سمجھتے ہیں۔ طبع اتنی نازک کہ اِدھر کسی کی زبان پر غیرپارلیمانی لفظ آیا، اُدھر بائیکاٹ اور معافی کا تقاضہ۔ ہمارے تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدان چونکہ ”مُنہ چھُٹ” واقع ہوئے ہیں اِس لیے لاکھ احتیاط کے باوجود اُن کی کسی نہ کسی صحافی سے ”مُنہ ماری” ہو ہی جاتی ہے۔ چند روز پہلے پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض چوہان سے ایسی ہی ”گستاخی” سرزد ہوئی تو صحافیوں نے اُس کی پریس کانفرنس کا نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ گاڑی کا گھیراؤ کرکے معافی کا تقاضہ بھی کر دیا۔ فیاض چوہان معافی تلافی کے بغیر ہی وہاں سے کھسک لیے جس پر صحافیوں کا غصّہ دوچند ہو گیا۔ اگلے روز جب وزیرِموصوف نے میڈیا سے بات کرنا چاہی تو صحافیوں نے ڈائس سے مائیک ہٹا دیئے اور نعرے بازی شروع کر دی۔ بیچارے فیاض چوہان کو ایک بار پھر بات کیے بغیر ہی کھسکنا پڑا۔ بعد میں پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خاں نے نہ صرف فیاض چوہان بلکہ پوری پنجاب حکومت کی طرف سے معافی مانگی لیکن صحافیوں کا مطالبہ تھا کہ صرف فیاض چوہان کا معافی نامہ ہی درکار ہے۔ بالآخر وزیرِموصوف کو اپنی گردن کا ”سَریا” ٹیڑھا کرکے معافی مانگتے ہی بَن پڑی۔ ہمیں یقین کہ اب وہ اہلِ صحافت کے ساتھ ”زبان سنبھال کے” ہی بات کریں گے۔
ویسے صرف چوہان ہی کیا، حکومت کے کئی وزراء بھی معافی مانگ چکے۔ اِس لیے ہمارا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ ایک ”وزارتِ معافیات” بھی بنا دے تاکہ معافی تلافی کے عمل میں دیر نہ لگے۔ تفصیل بتانے کا مقصد یہ تھا کہ کوئی اِس غلط فہمی میں نہ رہے کہ جولکھاری اپنے آپ کو درویش یا خاک نشیں لکھتا ہے، ہوتا بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے ذہن میںبھی یہ ”خیالِ فاسد” آیا کہ ہم اپنے لیے بھی کوئی ایسا ہی ”پھڑکتا”لفظ منتخب کر لیں۔ پہلے سوچاکہ ہم فقیرنی لکھنا شروع کر دیتے ہیں لیکن ہم نے خود ہی اِسے مسترد کر دیا۔ قوم کے لیے ایک ہی ”پیرنی” کافی ہے جو ہر روز نہار مُنہ خان صاحب کو یاد دہانی کرواتی کہ اب وہ ”الیکٹڈ” وزیرِاعظم ہیں۔ باقی بچی ”درویشنی”، ہو سکتا ہے کہ کسی وقت ترقی کے زینے طے کرتے کرتے ہم بھی اپنے آپ کو ”درویشنی” لکھنا شروع کر دیں۔ اِس لیے مشتری ہوشیارباش، یہ نام ہم اپنے لیے رجسٹرڈ کر چکے۔
یہ سب کچھ تو ہم نے بَس ”ایویں ای” لکھ دیا حالانکہ اِس لکھے کی ہمیں خود بھی ”کَکھ” سمجھ نہیں آئی اِس لیے اب پلٹتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کوئی شخص بھی اپنے جھوٹا ہونے کا اقرار نہیں کرسکتا حالانکہ جھوٹ سَرِعام بولا جاتا ہے اور وہ بھی تھوک کے حساب سے۔ اللہ بھلا کرے وزیرِاعظم صاحب کا جنہوں نے یہ کہہ کر جھوٹ کو قانونی حیثیت دے دی کہ ”یوٹرن” کے بغیر کوئی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ مولانا فضل الرحمٰن کہا کرتے تھے کہ سڑک پر جہاں یوٹرن ہو، عمران خاں کی تصویر لگا دی جائے، لوگ خود ہی سمجھ جایا کریں گے ۔ اب مولانا صاحب کیا کہتے ہیں بیچ اِس مسٔلے کے؟۔۔۔۔۔ ویسے ہلکے پھلکے یوٹرن تو مولانا صاحب خود بھی لیتے رہتے ہیں اور جہاں زیادہ فائدہ نظر آئے، وہاں بڑا یوٹرن لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں سمجھتے لیکن وہ مانتے ہرگز نہیں۔
مولانا صاحب تو خیر اپوزیشن میں ہیں، جسے سات خون معاف ہوتے ہیں لیکن جب کپتان نے خود ہی جھوٹ کو یوٹرن کا جامہ پہنا دیا تو اُن کے حواریوں پر کون اعتبار کرے گا؟۔ ایک پریس بریفنگ میں خسروبختیار نے سابقہ حکومتوں اور تحریکِ انصاف کی حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے دَور کے پہلے پانچ ماہ میں افراطِ زَر 11 فیصد، نوازلیگ کے دَور میں 4 فیصد جبکہ تحریکِ انصاف کے دَور میں صرف 0.4 فیصد۔ حیرت ہے کہ ڈالر 142 روپے تک پہنچ گیا، روپیہ ”ٹَکے ٹوکری” ہوگیا، بجلی، گیس، پٹرول، سب کچھ مہنگا ہوگیالیکن افراطِ زَر صرف 0.4 فیصد۔ اب مفلسوں کے غم میں سوکھ کر کانٹا ہونے والی حکومت نے ادویات بھی 15 فیصد تک مہنگی کر دی ہیں لیکن پھر بھی دعویٰ اُس ریاستِ مدینہ کا جس کے امیر اپنے کندھے پر اناج کی بوری اٹھا کر بیوہ کے گھر گئے، جس کے امیر نے فرمایا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو روزِقیامت عمر سے ضرور پرسش ہو گی، جہاں عدل کی ایسی حکمرانی کہ امیر غریب میں کوئی تمیز نہ تفریق۔ حضرت عمر نے فرمایا ” اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھک جائے تو اسلامی ریاست اور قیصروکسریٰ کی حکومتوں میں کیا فرق ہوا”۔ لیکن ہماری ریاستِ مدینہ کے عدل کی یہ صورتِ حال کہ ایک ہی قسم کے 2 کیسز میں فیصلے مختلف۔
پاکستان کی تحریکِ عدل میں پاناما جے آئی ٹی اور جعلی اکاؤنٹس جے آئی ٹی رپورٹس ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ دونوں رپورٹس پر فیصلے اعلیٰ ترین عدلیہ نے کیے لیکن مختلف۔پانامہ جے آئی ٹی رپورٹ شریف خاندان کے خلاف تحقیقات پر مبنی تھی جس کی بنیاد پر پہلے میاں نوازشریف سے وزارتِ عظمیٰ چھینی گئی اور پھر کیس اِس حکم کے ساتھ نَیب کو بھجوایاگیاکہ وہ ایک ماہ کے اندر احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرے اور عدالت چھ ماہ میں ریفرنس پر فیصلہ دے۔ گویا نیب کو پابند کر دیا گیا کہ اُس نے بہرصورت ریفرنس دائر کرنا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ایک جسٹس نگران جج بھی مقرر کیے گئے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ شریف خاندان پانامہ جے آئی ٹی کی جانبداری پر متواتر الزام لگاتا رہا لیکن سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اِس پر کان نہ دھرے۔ میاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ چونکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے پانچ رکنی بنچ نے کیا تھا اِس لیے اُن سے کسی دوسری عدالت میں نظرِثانی کا حق بھی چھین لیا گیا۔
دوسری طرف سپریم کورٹ ہی کے حکم پر جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔ اِس جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں بظاہر ٹھوس شواہد بھی موجود تھے لیکن چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بننے والے بنچ نے اُس تحقیقاتی رپورٹ کی توثیق کرنے کی بجائے انتہائی مستحسن فیصلہ کرتے ہوئے معاملہ نیب میں بھیج دیا۔ بنچ نے کسی کو نکالا نہ نیب کو پابند کیا۔ یہی نہیں بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ اگر کیس بنتا ہے تو نیب احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرے۔
حکمرانوں کی اپوزیشن سے نفرت کا یہ عالم کہ اُنہوں نے چوبیس گھنٹوں کے اندر جعلی اکاؤنٹس جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بہانہ بنا کر 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے جن میںسابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، سندھ کے موجودہ وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ، آصف زرداری کی بہن فریال تالپور اور بلاول زرداری بھی شامل تھے۔ جب یہ معاملہ چیف جسٹس صاحب کے نوٹس میں آیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ بنچ نے تو جے آئی ٹی رپورٹ کی توثیق ہی نہیں کی پھر بھی سندھ کے چیف ایگزیکٹو کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔
بعد ازاں اُنہوں نے بلاول زرداری اور مرادعلی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم جاری کرتے ہوئے 172 افراد کی فہرست پر کابینہ میں نظرِثانی کا حکم صادر فرمایا۔لیکن ہوا یہ کہ ”خوئے بَد را بہانہ بسیار” کے مصداق 10 روز گزرنے کے بعد کابینہ نے کسی ایک شخص کا نام بھی ای سی ایل سے نہیں نکالا۔ حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی نظرِثانی کمیٹی نے جن 22 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی سفارش کی تھی، اُسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ بلاول زرداری اورمرادعلی شاہ کے نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم نامے پر کہا گیا کہ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آئے گا تو پھر طے کیا جائے گا کہ نام ای سی ایل سے نکالنے ہیں یا نظرِثانی کی اپیل دائر کرنی ہے۔ حکمرانوں کی دوغلی پالیسی کا یہ عالم کہ عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود بلاول اور مرادعلی شاہ کا نام تفصیلی فیصلے سے مشروط کر دیا گیا۔اگر حکمرانوں کا ایساہی طرزِعمل جاری رہا جس سے انتقام کی بو آتی ہو تو پھر وہ دن دور نہیں جب حکمران خود مکافاتِ عمل کا شکار ہو جائیں گے۔