تحریر: سید توقیر زیدی وزیراعظم محمد نواز شریف کی ہدایت اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سفارشات کے مطابق پاناما لیکس کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس میں اب پاکستان کے ہر اْس فرد کو شامل کر لیا جائے گا جس کا بھی نام پانامہ لیکس کے مطابق آف شور کمپنیوں کے حوالے سے آیا ہے۔سپریم کورٹ بار کی سفارشات اور حکومتی فیصلے سے کوئی کنفیوڑن دور نہیں ہوا، کہ حکومت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں یہ فیصلہ کر لیا کہ جسٹس(ر) سرمد جلال عثمانی کو تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں پارلیمانی لیڈروں سے مشاورت کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
تاہم واضح طور پر تحریک انصاف اور اس کے ساتھ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے یہ نام مسترد کر دیا کہ جسٹس عثمانی کی اہلیہ مسلم لیگ(ن) کی رکن ہیں جسٹس عثمانی کی رضا مندی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ان کی اہلیہ مسلم لیگ(ن) کی رکنیت سے مستعفی ہو گئی ہیں، تاہم مسئلہ پھر سیاسی جماعتوں کا ہو گا اور یہ بہتر فیصلہ ہے کہ پارلیمانی لیڈروں سے رابطے کر کے شرائط پر مفاہمت کی جائے اور بہتر نتیجہ نکالا جائے۔ اگرچہ تحریک انصاف اور دوسری دونوں جماعتیں بھی چیف جسٹس کی سربراہی پر رضا مند ہیں، لیکن تحریک انصاف تو بضد ہے اس لئے جسٹس سرمد جلال عثمانی کی ذات پر اتفاق میں دانتوں پسینہ لانے والی بات اور پھر یہ اسحاق ڈار کی مفاہمتی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہو گا۔
Leaks Panama
تحریک انصاف پاناما لیکس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور وزیر داخلہ کا یہ فرمان کوئی نہیں مانے گا کہ وزیراعظم کا تو نام ہی نہیں، صاحبزادوں کے نام ہیں، وہ خود جواب دیں گے یہ تجاہل عارفانہ ہے کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ23سال قبل بیٹوں نے کام شروع کر کے اتنے وسیع صنعتی اور تجارتی ادارے کی بنیاد رکھ دی، پھر یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ان کمپنیوں نے مْلک کے اندر کتنی سرمایہ کاری کی؟ کیا شریف فیملی یہاں اپنی سرمایہ کاری غیر محفوظ سمجھتی ہے کہ بھٹو دور کی ”قومی ملکیت” اور صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لئے جانے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بہتر تھا کہ شریف خاندان کی طرف سے یہ پیشکش کی جاتی کہ جب سرکاری تحویل میں لی گئی تو اتفاق فاؤنڈری میں کیا تھا اور جب ضیاء دور میں واپسی ہوئی تو کیا واپس ہوا تھا؟ بہرحال معاملہ تحقیقات سے صاف ہو گا اور یہ شفاف ہونا ہو گی۔
پاناما لیکس نے بحران تو بہرحال پیدا کیا اور اپوزیشن اس سے فائدہ بھی اْٹھا رہی ہے۔ تحریک انصاف باقاعدہ کیش کروانے کی کوشش کر رہی ہے حتیٰ کہ عمران خان پتھر پر لکیر کی طرح اپنے مطالبے پر ڈٹے رہنے کا تاثر دے رہے ہیں، لیکن باخبر ذرائع فرزندِ راولپنڈی شیخ رشید کی باتوں کا برا نہیں مانتے کہ وہ تو دن رات ایک ہی مشن پر ہیں، حکمران جماعت کے لئے بہرحال اس بحران میں سبق ہے اور اس سے یہ تہیہ کر لینا چاہئے کہ پارلیمانی سطح پر بگاڑ پیدا نہیں کیا جائے گا۔ تحمل اور تدبر سے امور باہمی مفاہمت سے طے ہوں گے، جہاں تک وزیراعظم کی علالت کا مسئلہ ہے تو اس کو ایشو بنانے والوں کو اللہ کا خوف کرنا چاہئے کہ بیماری تو کسی کو بھی کسی وقت لگ سکتی ہے۔
Siraj ul Haq
وزیراعظم کو بھی سیاسی مصلحتوں کو طاق پر رکھ کر ڈاکٹروں کے مشورے پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر وہ آرام کے لئے کہتے ہیں تو عملی سیاست سے دور رہ کر عمل کرنا ہو گا، اللہ صحت دے!مْلک میں بحران چل رہا، اس میں محترم سراج الحق کے خطاب بھی جاری ہیں اور اب تو انہوں نے حد کر دی اور کئی منازل ایک چھلانگ میں طے کر گئے۔ انہوں نے نام لئے بغیر وزیراعظم محمد نواز شریف کو مخاطب کیا، کہا لبرل اپنے صاحبزادوں کے پاس لندن چلے جائیں۔یہ مْلک ہمارا ہے۔ جوش خطابت میں بھول گئے کہ وہ ختم ہوئی تقسیم کو کسی اور حوالے سے زندہ کر رہے ہیں اور پوری قوم کو دو حصوں میں بانٹ رہے ہیں۔
ان کو یاد رکھنا ہو گا کہ یہاں ان کا نظریہ بھی نہیں چل سکتا۔ جماعت اسلامی تو انتخابی سیاست کے لئے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ پر مجبور رہی اور اسی کی بدولت ایک دو نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔ بہتر ہے کہ تقسیم کرنے کی بجائے جوڑنے کی بات کریں، اپنا پروگرام پیش کریں، عوام کو قبول ہو گا تو وہی سرفراز بھی کریں گے۔ پہلے ہی قوم اْلجھنوں کا شکار ہے۔ مزید نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہو گا۔