اسلام آباد (جیوڈیسک) توہین مذہب کے الزام میں سزا پانے والی غیر مسلم خاتون آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی سماعت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مجرمہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے دائیں جانب بیٹھے ہوئے جج اقبال حمید الرحمن کی ایما پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘چونکہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور یہ مقدمہ بھی اس سے کسی حد تک منسلک ہے اس لیے وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتے۔’
عدالت کا کہنا تھا کہ اب نظرثانی کی اس درخواست کو واپس چیف جسٹس کو بھجوا دیا جائے گا اور وہی اس کی دوبارہ سماعت کرنے سے متعلق احکامات دیں گے۔
آسیہ بی بی پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی غیر مسلم خاتون ہیں۔ وکلا کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب سپریم کورٹ نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت کسی مقدمے کی سماعت کی ہو۔ اس دفعہ کے تحت پیغمبرِ اسلام کی توہین پر پابندی عائد ہے۔
آسیہ بی بی کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے اپنے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے تھے۔ اگلے برس 2010 میں انھیں اس مقدمے میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
آسیہ بی بی کے خاوند عاشق کا کہنا تھا کہ انھیں بڑی امید تھی کہ اس کی بیوی کی نظرثانی کی اس درخواست پر کوئی فیصلہ آ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انھوں نے امید کا اظہار کیا کہ اُنھیں انصاف ملے گا۔
آسیہ بی بی کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کے مدعی کے وکیل غلام مصطفی چوہدری نے کہا کہ وہ نظرثانی کی اس درخواست کو خارج کروانے کے لیے آج پورری تیاری کرکے آئے ہوئے تھے۔
آسیہ بی بی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مذہبی تنظیموں کی طرف سے کسی ممکنہ درعمل سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر پولیس اہلکاروں کی خاصی بڑی نفری تعینات کی گئی تھی۔
تاہم کمرہ عدالت میں لال مسجد فاونڈیشن کے عہدیداروں اور ایسے افراد کی قابل ذکر تعداد موجود تھی جو سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری کی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت پر سپریم کورٹ میں آیا کرتے تھے۔
آسیہ بی بی نے گذشتہ برس جنوری میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں موت کی سزا کو چیلنج کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزا کے خلاف درخواست پر ابتدائی سماعت گذشتہ برس جولائی میں کی تھی اور ان کی اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے اپیل پر حتمی فیصلہ تک سزا پر عمل درآمد روک دیا تھا۔
ان کے وکیل سیف الملوک ایڈووکیٹ نے کہا تھا آسیہ بی بی کے خلاف توہین مذہب کا فیصلہ سناتے ہوئے حقائق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔
پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی نے ہائی کورٹ میں اپنی اپیل میں موقف اختیار کیا تھا کہ مقامی عدالت نے توہین رسالت کے جرم میں سزا سناتے وقت حقائق کو نظر انداز کیا اور بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے انھیں سزا سنا دی تھی جو قانون کی نظر میں قابل پذیرائی نہیں ہے۔
2014 میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی اور ماتحت عدالت کی جانب سے انھیں دینے جانے والی سزا کو برقرار رکھا۔ آسیہ بی بی کو 2010 میں صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ کی عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں موت کی سزا سنائی تھی۔
اس مقدمے کے مدعی ننکانہ صاحب کی مسجد کے امام محمد سالم تھے۔ ملزمہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کروا دیا گیا۔
آسیہ بی بی کو سزا سنائے جانے کے بعد عیسائیوں کے سابق مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ نے بھی اپیل کی تھی کہ آسیہ بی بی کو رہا کردیا جائے۔