اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کیخلاف نظرثانی درخواست بھی خارج کر دی، جسٹس آصف سعید کھوسہ کہتے ہیں اخباری تراشوں سے توہین رسالت ثابت نہیں ہوتی، فوجداری مقدمے میں شواہد دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ممتاز قادری کی سزا کے معاملے پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں لارجر بینچ بنایا جائے جو توہین رسالت کے معاملے کی تشریح کرے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ممتاز قادری کے مقدمے میں توہین رسالت ثابت نہیں ہوئی، اگر توہین رسالت ثابت ہوتی تو اس پر لارجر بینچ بنانے کا سوال متعلقہ ہوتا انہوں نے کہا کہ آپکی نظرثانی کی درخواست میں کئی غلط فہمیاں ہیں، نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا کہ عدالت نے مختصر فیصلہ دیا، جو مختصر نہیں زبانی فیصلہ تھا، عدالت نے کوئی قانونی نقطہ نہیں چھوڑا، تفصیل سے فیصلہ دیا ، اپیل کی سماعت 3 رکنی بینچ نے کی تو نظرثانی درخواست بھی تین رکنی بینچ سن سکتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ممتاز قادری نے اپنا جرم تسلیم کیا اور اسے موقعہ واردات سے ہتھیار سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ ممتاز قادری کے وکیل نے کہا کہ یہ کسی شخص کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے ہم نے قانونی راستہ اختیار کیا ہے۔
جسٹس آصف سعید نے کہا کہ ہم اپنے حلف پر نہ چلیں تو آپ ہمیں ظالموں میں شمار کریں گے، اخباری تراشوں سے توہین رسالت ثابت نہیں ہوتی، عدالت نے فوجداری مقدمے میں شواہد کو دیکھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ممتاز قادری کی سزائے موت پر نظرثانی درخواست بھی خارج کر دی۔