نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ سرکاری اشتہارات میں حکمراں جماعت کے رہنمائوں یا سرکردہ شخصیات کی تصاویر شائع نہیں کی جا سکتیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس دینے والوں کے پیسوں کو شخصیت پرستی یاشخصیت نوازی کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا عدالت عظمی نے کہا کہ ایسی تصاویر سے حکومت کی پالیسی کے بجائے غیر ضروری طور پر توجہ کسی فرد کی جانب منتقل ہو جاتی ہے اور اسی سے شخصیت پرستی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
بہرحال سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے تین لوگوں کو مستشنی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وزیر اعظم، صدر اور چیف جسٹس کی تصاویر سرکاری اشتہارات میں استعمال ہو سکتا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ان کی تصاویر شائع کرنے سے قبل ان کی رضا مندی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارت کے پہلے وزیر اعظم جوہر لعل نہرو اور بھارت کے فادر آف نیشن کہے جانیوالے رہنما گاندھی کی تصاویر کی اشاعت کی جازت بھی دی ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس رنجن گوگوئی اور این وی رمن کی ایک بنچ نے دیا ہے فیصلے کی بنیاد سپریم کورٹ کی ایک کمیٹی کی تجاویزات ہیں ماہر تعلیم این ایس مادھو مینن کی قیادت میں حکومت کے مالی تعاون سے دیئے جانے والے اشتہارات پر غور خوض کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی اس کمیٹی کا قیام اپریل 2014ء میں ایک مفاد عامہ کیذیل میں داخل کی جانے والی اپیل کے بعد عمل میں آیا تھا این جی او کامن کازنے یہ اپیل داخل کی تھی کہ برسر اقتدار حکومت کے رہنما اور وزراء عوام کے پیسے کا غیر ضروری فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
مینن کی سربراہی والی ٹیم نے تصاویر کی اشاعت پر مکمل پابندی کی تجویز پیش کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات سے قبل والی شام سے اشتہار کی اشاعت کی اجازت نہ دی جائے لیکن سپریم کورٹ کی بنچ نے ان میں بعض ترامیم اور مکمل پابندی کی تجویز کو قبول نہ کرتے ہوئے تین لوگوں کی تصاویر ان کے مرضی کے بعد اشاعت کی بات کہی۔ اس طرح اس نے انتخابات سے قبل پابندی کی تجویز بھی قبول نہیں کیا اور ان سرکاری اشتہارات کی کارکردگی یا اثرات کا جائزہ لینے والے پینل قائم کرنے کی تجویز بھی قبول نہ کی۔