تحریر : محمد اشفاق راجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مسٹر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک ”مسٹر شاہ” رہیں گے سندھ کے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ چیف جسٹس نے کہا عدالتی احکامات کو الجھا دیا جاتا ہے، انہوں نے پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی لینڈ کمپیوٹرائزیشن پر اطمینان کا اظہار کیا تاہم سندھ میں لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا 5 برس میں ایک ضلع کا ریکارڈ بھی کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا جاسکا، نیت ہوتی تو کرلیا جاتا۔ سپریم کورٹ نے سندھ کے حالات درست نہ ہونے کی ایک وجہ تو بتا دی تاہم تاریخی طور پر بھی اس کی وجوہ موجود رہی ہیں، جس کا ذکر اقبال اخوند نے اپنی کتاب ”بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت” میں تفصیل سے کیا ہے۔ اقبال اخوند اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہے اور بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں ان کے قومی سلامتی کے مشیر تھے۔
اقبال اخوند کے بیان کردہ اس واقعہ کو اگر جناب جسٹس مسلم کے ریمارکس کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو نہ صرف سندھ کے سارے دکھوں کی سمجھ آ جاتی ہے بلکہ یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ مسٹر شاہ اب تک اپنے عہدے پر موجود کیوں ہیں؟ ان کی جگہ اگر کسی نسبتاً کم عمر رکن سندھ اسمبلی کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے تو عین ممکن ہے وہ بالائی احکامات کو اس طرح قبول نہ کرے جس طرح مسٹر شاہ بلاچون و چرا مان لیتے ہیں، ان کی عمر اگرچہ اسی برس سے تجاوز کرچکی ہے اور اپنی عمر کے تقاضے کے مطابق وہ کبھی کبھار تقریبات میں نیند کی جھپکی لے لیتے ہیں، لیکن ان کے بارے میں یہ رائے بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ نوجوانوں سے زیادہ چاق و چوبند اور متحرک ہیں۔ حقیقت ان دو انتہاؤں کے درمیان کہیں ہے۔
Qaim Ali Shah
اقبال اخوند لکھتے ہیں کہ ایک دن ان کی کراچی میں وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات جاری تھی، دوران گفتگو کراچی کے حالات زیر بحث آگئے کہ ان میں بہتری کیسے آسکتی ہے؟ پھر محترمہ نے خوشگوار موڈ میں خود ہی اس کا جواب بھی دے دیا کہ سندھ کے حالات ٹھیک ہوں تو کیسے ہوں؟ یہاں پانچ تو وزیراعلیٰ ہیں، پھر انہوں نے بتایا کہ ایک تو میری والدہ محترمہ نصرت بھٹو وزیراعلیٰ ہیں، دوسرے میرے شوہر نامدار آصف علی زرداری ہیں۔ اقبال اخوند نے دو اور نام بھی لکھے اور پانچواں نام سید قائم علی شاہ کا تھا جو فی الواقع وزیراعلیٰ تھے (اور اب بھی ہیں)۔ اقبال اخوند کا کہنا ہے کہ میں نے کہا ان پر تو وزیراعلیٰ کی تہمت ہی ہے، اور یوں سندھ کے حالات پر یہ گفتگو ختم ہوئی۔محترمہ نصرت بھٹو اس وقت دنیا میں موجود نہیں، البتہ اب آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کو عملاً سندھ کی وزیراعلیٰ کہا جاسکتا ہے۔
ان کے پروٹوکول کو دیکھا جائے تو وہ وزیراعلیٰ سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ سندھ میں اعلیٰ سطح پر تقرر و تبادلے ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتے، پارٹی پر بھی ان کا نقش قائم ہے۔ پارٹی کا کوئی سینئر رہنما بھی ان کی حکم عدولی کی جر?ت نہیں کرسکتا اور جو کرے گا اس کا حال ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے مختلف نہیں ہوگا، جو ایک زمانے میں آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی دوست تھے اور ایک پریس کانفرنس میں ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا نے اپنی ذات پر آصف علی زرداری کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے جسم پر جو کپڑے ہیں، وہ بھی آصف علی زرداری کی مہربانی کا نتیجہ ہیں۔ یہ ان کی عظمت تھی کہ وہ آصف علی زرداری کے احسانات کا برملا اعتراف کرتے رہے، لیکن پھر نہ جانے کیا کھنڈت آن پڑی کہ دونوں کے تعلقات میں خرابی آگئی اور پھر ذوالفقار مرزا نے ایک سو اسی درجے کا یو ٹرن لے لیا اور آصف علی زرداری کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات کئے کہ زرداری کے مخالفین نے بھی انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ اس کی وجہ ایک شوگر مل بتائی جاتی ہے، جس کا کنٹرول ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے پاس تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ فریال تالپور فورس لے کر آئیں اور مل کا انتظام سنبھال کر مرزا صاحب کو اس سے بے دخل کردیا۔
Asif Ali Zardari
جہاں تک آصف علی زرداری کا تعلق ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں تو ان کا سیاست سے براہ راست کوئی تعلق نہ تھا، پارٹی امور میں بھی ان کی وہی بات مانی جاتی تھی جو بے نظیر بھٹو کی اپنی پالیسی سے مطابقت رکھتی تھی۔ ان کی زندگی میں یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اپنے کسی قریبی دوست کو، محض دوستی کی وجہ سے پارٹی میں کوئی اونچا مقام دے سکیں یا کوئی سیاسی و سرکاری عہدہ دلا سکیں، لیکن ان کے بعد تو پارٹی میں آصف علی زرداری کا ہی سکہ چلتا ہے۔ اس وقت سندھ میں کوئی بڑا کام آصف علی زرداری کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران ڈاکٹر عاصم کو وفاقی وزیر پٹرولیم بنوایا اب ان کی وزارت کے کارنامے ان کے گلے پڑے ہوئے ہیں اور وہ سیاست سے توبہ تلہ کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سندھ کی سترہ شوگر ملیں زرداری کی ملکیت ہیں، اسی لیے کاشتکاروں کو گنے کا سرکاری نرخ بھی نہیں ملتا۔ جو کاشتکار اپنا گنا لے کر ان کی شوگر ملوں کو فروخت کیلئے لاتے ہیں، انہیں کہا جاتا ہے کہ سرکاری نرخ نہیں دیئے جاسکتے۔
اگر وہ کم قیمت پر فروخت کیلئے تیار ہوں تو بہتر ورنہ کسی دوسری مل میں لے جائیں، اس خجل خواری میں کاشتکار مجبوراً جو بھی نرخ ملے اس پر گنا فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ سندھ حکومت کاشتکاروں کی ہمدردی کا دم بھرتی ہے اس کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ کاشتکاروں کو مقررہ سرکاری نرخ پر ادائیگی کروائے مگر ایسے میں کس کی مجال ہے کہ وہ سرکاری نرخ پر گنے کی فروخت پر اصرار کرے؟ زمینوں کی زبردستی خرید و فروخت کی بھی ایک الگ کہانی ہے جو اتنی طویل ہے کہ اس مختصر سے تجزیئے کے دامن میں نہیں سما سکتی۔ زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر ٹپی بھی وزیراعلیٰ سے کم نہیں۔ اب پارٹی کے امور بلاول بھٹو زرداری نے سنبھال لئے ہیں، وہ بھی کوشش کر رہے ہیں پارٹی کو اپنے نظریات کے مطابق چلائیں، ان حالات میں یہ سوال تو پیدا ہوگا کہ سندھ کے حالات کیسے درست ہوسکتے ہیں۔ سید قائم علی شاہ اپنی جماعت کے ”چیئرمینوں” کا حکم تو نہیں ٹال سکتے، ایسے میں اگر وہ عدالتی احکامات کو انتظامی معاملات میں الجھا دیتے ہیں تو یہ ان کی مجبوری ہے۔