٢٨ جولائی ٢٠١٧ کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے میاں محمد نواز شریف کو تا حیات ناا ہلی کا سامنا کرنا پڑا ور اس فیصلہ کی پاداش میں اقتدار سے محروم ہونا پرا۔انھیں اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینا بھاری پڑ گیا۔وہ مقدمہ جو کرپشن سے شروع ہوا تھا وہ اقامہ پر جا کر اختتام پذیر ہوا۔پارلیمنٹ کو ایک نئے انداز سے زیر کیا گیااور حکومت کی برخاسگی کیلئے ٨٥ ٹوبی کی ضرورت عدالتی فیصلوں سے پوری کر لی گئی۔ یہ طریقہ ٥٨ ٹو بی سے زیادہ آسان اور مفید ثابت ہوا کیونکہ اس میں سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ۔ اس طریقہ کار سے نہ تو کوئی جوابد ہ بنتا ہے اور نہ ہی کسی پر تنقید ہو تی ہے۔الٹا گھر بھیجے جانے والے منتخب وزیرِ اعظم پر خائن اور بد دیانت ہونے کا لیبل لگا کر اس کی تذلیل کی جاتی ہے ۔بہر حال سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم کو نا اہل قرار دے کراس مقدمہ کو مزید ٹرائل کیلئے نیب کو بھیج دیا اور پھر نیب عدالت نے میاں محمد نواز شریف کو دس سال سزا کا حکم سنا کر نا اہلی کی سزاکو برقرار رکھا ۔میراپہلے دن سے یہ موقف تھا کہ نیب نے ایون فیلڈ ریفرنس کا جو فیصلہ صادر کیا وہ انتہائی کمزور تھا لہذا یہ فیصلہ جب بھی ہائی کورٹ میں جائیگا اسے برقرار رکھنا محال ہو جائیگا ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بالکل ایسا ہی ہوا اور میاں محمد نواز شریف،مریم نواز اورکیپٹن صفدر کی سزائوں کو معطل کر کے انھیں رہاکرنے کا حکم صادر کر دیا۔
نیب نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو ١٢ جنوری ٢٠١٩ کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ پنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو برقرار رکھا تو کرپشن پر تعمیر کردہ ساری عمارت دھڑام سے نیچے گر گئی ۔اپنے ہاتھوں سے دی گئی سزا سے انحراف کیا ۔کیا پسِ پردہ قوتوں کی مہارت پر اب بھی کوئی شک باقی رہ گیاہے؟ میرے بہت سے جوشیلے دوست نیب فیصلہ کو قانون و انصاف کی فتح قرار دیتے نہیں تھکتے تھے لیکن قانونی ماہرین اسے اس وقت بھی انتقام کا شاخسانہ قرار دے کر رد کر رہے تھے۔وہ اسے ایک ایسا فیصلہ قرار دیتے تھے جو انصاف کی عدالت میں قائم نہیں رہ سکے گا ۔
میزانِ عدل جب کھڑی کی جاتی ہے تو پھر وہاں جذبات نہیں بلکہ قانون،دلیل اور شہادتیں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔محض الزامات کی گردان سزا سنانے کیلئے کافی نہیں ہوتی ۔الزامات تو ہمارے کلچر کا شروع سے خاصہ ہیں اور ہم نے اپنے قائدین کو مطلوبہ نتائج کی خاطر الزامات کی شمشیر سے اکثرو بیشتر قتل کیاہے۔عوام بھی الزامات کو سچ سمجھ کر اس کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں۔ نیب عدالت میاں محمد نواز شریف پر کرپشن کا الزام ثابت کرنے میں ناکام ہو گئی تھی لیکن پھر بھی انھیں کرپشن پر سزا سنا ئی گئی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے معطل کر دیا ۔ نیب نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ کیا اس کا واحد مقصد کسی نئے سیٹ اپ کو آزمانا تھا؟کسی کونیچا دکھانا تھا؟کیا نیب نے فیصلہ کن قوتوں کیلئے ایک ایسی فضا کو تخلیق کر دیا تھا جس میں اپنی مرضی کے رنگ بھرے جا سکتے تھے؟ الیکشن سے چند روز قبل نیب کے فیصلہ نے سارا سیاسی منظر نامہ ہی بدل دیا تھا۔ایک نئی جماعت اقتدار سنبھالنے کیلئے میدان میں اتر چکی تھی اور موقعہ پرست گھرانوں کے کئی اہم رہنما اس نئی جماعت میں شمولیت کیلئے بے تحاشہ بھاگ رہے تھے ۔ پاکستان کی مقبول قیادت کو احتساب کے نام پر زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا اور ان کا ٹھکانہ جیل کی اونچی اونچی دیواریں تھیں ۔
مسلم لیگ (ن) کی شکست نوشتہ دیوار تھی کیونکہ وہ مقتدر حلقوں کا اعتماد کھو چکی تھی۔جو اقتدار کی ضمانت تھے وہ میاں محمد نواز شریف سے شاکی تھے اور انھیں ہٹانا چاہتے تھے ۔ عمران خان کی جیت ان کا ہدف تھا جس کیلئے بڑے پاپڑ بیلے گے ۔کئی ہاتھوں کی یکجائی سے مقتدر حلقوں کا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو گیااور یوں اقتدار پی ٹی آئی کا مقدر بنا۔،۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ میرے چند قریبی رفقائے کار نیب عدالت کے فیصلہ پر سر دھنتے تھے اور میاں محمد نواز شریف کو چور،ڈاکو اور لٹیرا کہہ کرپکارتے تھے ۔وہ اس فیصلہ کو تاریخ ساز فیصلوں میں شمار کرتے تھے لہذافیصلہ میں قانونی کمزوریوں کے خلا ف دلائل سننے کیلئے تیار نہیں تھے ۔وہ جوشِ انتقام میں اتنے دور جا چکے تھے کہ وہ کسی بھی دلیل کو سننے کیلئے تیار نہیں تھے ۔وہ میرے نقطہ نظر سے بھی ناراض اور شاکی تھے ۔ نفرت جب اپنی انتہائوں کو چھو لیتی ہے تو پھر ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔میڈیا نے جس طرح کاماحول تخلیق کر رکھا تھا اس میں نوجوانوں کے احساسات کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہو نا چائیے تھا۔ نوجوان نیب کے فیصلہ پر سر دھن رہے تھے کیونکہ ان کے اذہان کوپروپیگنڈہ کے زہر سے بری طرح متاثر کیا گیا تھا۔انھیں نفرت کا جو چورن دیا گیا تھا اس سے اسی طرح کے نتائج بر آمد ہونے تھے ۔
گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے ان کی زبان پر تھا ۔انھیں میاں محمد نواز شریف کی شکست اور سزا میں ایک ایسی فتح نظر آرہی تھی جس میں قانون کی حکمرانی ہو گی اور ظالموں سے حساب لیا جائیگا۔ ان کا خواب اجلا،سچا اور کھرا تھا ۔ان کا خواب غلط نہیں تھا اور مجھ جیسے جمہوریت پسند لوگ اس طرح کے خواب آج بھی اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں کہ انصاف اپنی پوری روح کے ساتھ جلوہ افروز ہو تا کہ دولت کی لوٹ کھسوٹ کا راستہ روکا جا سکے۔ہم عمران خان کے مشکور ہیں کہ انھوں نے احتساب کا نعرہ بلند کیا اور قومی سیاست میں شفافیت کو نافذ کرنے کا عہد کیا لیکن صرف اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانا اور سزائیں سنانا احتساب نہیں ہوتا کیونکہ اس میں عصبیت کا رنگ اغلب ہو جاتا ہے ۔ اپنے دائیں بائیں بیٹھے کرپٹ افراد کو جب فرشتہ بنا لیا جائے لیکن اپوزیشن کے سرکردہ افراد کودبوچ کر جیلوں میں ٹھونس دیا جائے تو تحفظات سر اٹھاتے ہیں اور احتساب انقتام میں ڈھل جاتا ہے ۔احتساب اس وقت معتبر ٹھہرتا ہے جب اپنوں اور غیروں کی تمیز مٹ جاتی ہے ۔
عمران خان کو اسی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اسی سے ان کا قد کاٹھ بڑجائیگا ۔اسلام بھی بلا امتیاز احتساب کا داعی ہے اور دشمنوں سے بھی انصاف کرنے کا درس دیتا ہے ۔پی پی پی کی قیادت بھی اپنے دیرینہ حریف مسلم لیگ (ن) سے بدلہ چکانے کیلئے اس لمحے کو غنیمت سمجھ رہی تھی لہذا وہ بھی میاں محمد نواز شریف کے خلاف مقتدر حلقوں کی وکٹ پر کھیل رہی تھی۔وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی زوال سے اس کی سیاست کی راہیں کشادہ ہو جائیں گی ۔وہ مسلم لیگ(ن) کے تابوت پر اپنی سیاست چمکانا چا ہ رہی تھی۔وہ اسے پنجاب میں اپنے گرتی ہوئی مقبولیت کا احیاء سمجھ کر مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو خائن اور بد دیانت ثابت کرنے پر مقتدر حلقوں کے شانہ بشانہ کھڑی تھی اور متنازعہ فیصلہ پر تالیاں پیٹ رہی تھی۔ یہ وہی غلطی تھی جو مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس وقت کی تھی جب میاں محمد نواز شریف میمو گیٹ میں کا لا کوٹ پہن کر آصف علی زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے ۔
اس وقت وہ مقتدر حلقوں کو خوش کرنا چاہتے تھے۔سپریم کورٹ نے ١٢ جنوری ٢٠١٩کے فیصلہ میںاسلام آبادہائی کورٹ کی سزا معطلی کے فیصلہ کو برقرار رکھا ہے جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ کرپشن کا جو کیس میاں محمد نواز شریف کے خلاف قائم کیا گیا تھا وہ بدنیتی پر مبنی تھا۔میاں محمد نواز شریف جس ایون فیلڈ ریفرنس میں تا حیات نا اہل ہوئے تھے سپریم کورٹ نے انھیں سی مقدمہ میں ضمانت کا حقدار قرار دے کر ان کی بے گناہی پر مہر ِ تصدیق ثبت کر دی ہے ۔
میں میاں محمد نواز شریف کی دیانتداری کی وکالت نہیں کر رہا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ مفروضوں،قیاسوں اور شکوک و شبہات کی بنیاد وں پر کسی کو ناا ہل نہیں کیا جا سکتا۔٢٨ جولائی ٢٠١٧ کا وہ فیصلہ جس میں سپریم کورٹ نے انھیں تا حیات نا اہل قرار دیا تھا اگر اسے اس وقت ٹرائل کورٹ کے حوالے کر دیا جاتا تو پھر ٹکرائو اور غیر یقینی صورتِ حال سے بچا جا سکتا تھا لیکن شائد اس وقت کسی کو سبق سکھانا ضروری تھا ۔حیران کن امر یہ ہے کہ جسے سبق سکھانا اور جھکانامقصود تھا وہ تو پہلے سے بھی زیادہ اعتماد کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔وہ جیل میں ہے لیکن پر عزم ہے اور اسے یہ عزم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے عطا کیا ہے۔ زنجیریں پگھلتی جا رہی ہیں، دیرینہ منظر بدلتاجا رہا ہے کیونکہ حکمران وعدہ ایفائی سے معذور دکھائی دے رہے ہیں ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال