تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 14 جولائی کو اپوزیشن جماعتوں کا میاں نواز شریف کے خلاف ہنگامہ خیز” اکٹھ” ہوا ۔ یہ اکٹھ ہنگامہ خیز اِس لیے تھا کہ اجلاس میں شامل ہر جماعت اپنی اپنی بات کرتی نظر آئی ۔ حتیٰ کہ اجلاس کے اختتام پر میڈیا کے سامنے روسٹرم پر پہلے آنے کے لیے سبھی ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے نظر آئے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ اجلاس میاں نوازشریف کی طاقت میں کچھ اضافے کا سبب ہی بنا ہو گا کیونکہ اِس اجلاس میں اپوزیشن کے اختلافات کھُل کر سامنے آ گئے۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں اپنے ہر خطاب میں سڑکوں پر آنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں لیکن اپوزیشن نے، جس میں تحریکِ انصاف کی بھی بھرپور نمائندگی تھی نہ صرف یہ کہ سڑکوں پر آنے کا آپشن یکسر مسترد کر دیا گیا بلکہ سیّد خورشید شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ چونکہ کیس سپریم کورٹ میں ہے اِس لیے جلاؤ گھیراؤ نہیں ہونا چاہیے ۔ اِسی اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر 2018ء ہی میں ہونے چاہییںالبتہ وزیرِاعظم کو مستعفی ہو کر ملکی قیادت اپنی جماعت کے کسی دوسرے رُکن کے سپرد کر دینی چاہیے ۔ وزیرِاعظم کے استعفے پر اختلاف بھی کھُل کر سامنے آگیا۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب خاں شیرپاؤ نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ اُن کی جماعت اور اے این پی وزیرِاعظم کے استعفے کا مطالبہ کرنے کی بجائے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کوئی رائے دیں گی ۔اُنہوں نے وزیرِاعظم کے استعفے کے مطالبے سے صاف انکار کر دیا۔ آفتاب شیرپاؤ کی گفتگو کے دَوران ہی شاہ محمود قریشی نے اُنہیں پیچھے دھکیل کر یہ اعلان کیا کہ تحریکِ انصاف وزیرِاعظم کے استعفے کا پُرزور مطالبہ کرتی ہے ۔جب اُنہوں نے کہا کہ نئے انتخابات تحریکِ انصاف کا مطالبہ نہیں تو فاروق ستّار بولے کہ صرف دو دِن پہلے بابر اعوان نے یہ مطالبہ کیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ بابر اعوان کا ذاتی مؤقف ہے ۔اِس پر فاروق ستّار نے سیّد خورشید شاہ کو مخاطب کرکے کہا کہ بابر اعوان آپ کا بندہ ہے جو نیا نیا پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہوا ہے تو کیا یہ پیپلزپارٹی کا مطالبہ ہے؟۔ خورشید شاہ بولے کہ بابر اعوان کسی کا نہیں ”خود” کا بندہ ہے۔
یہ ڈاکٹر بابراعوان بھی بڑی خاصے کی شے ہے ۔اُس نے جس یونیورسٹی سے وکالت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ،وہ یونیورسٹی ابھی تک معرضِ وجود ہی میں نہیں آئی ۔شنید ہے کہ بابر اعوان ڈاکٹریٹ کی دو ڈگریاں لائے تھے ، ایک اپنے لیے اور ایک رحمٰن ملک کے لیے لیکن رحمٰن ملک نے وہ ڈگری لینے سے انکار کر دیا۔ یہ وہی شخص ہے جو ضیاء الحق کے دَورِ آمریت میں آمر کے تَلوے چاٹتا اور بھٹو خاندان کو غلیظ گالیاں بکتا رہتا تھا۔جب ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں موت واقع ہوئی اور پیپلزپارٹی کو ایک دفعہ پھر حکومت بنانے کا موقع مِل گیا تو یہ ” جعلی ڈاکٹر ” پیپلزپارٹی میں شامل ہو گیا ۔بینظیر کی شہادت کے بعد جب حادثاتی طور پر عنانِ حکومت آصف علی زرداری نے سنبھالی تو یہ سینیٹر بنا اور وزارتِ قانون کا قلم دان سنبھالا ۔ 2013ء کے انتخابات میں جب پیپلزپارٹی دیہی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تو بابر اعوان تحریکِ انصاف میں جانے کے لیے پَر تولنے لگا اور بالآخر اِس میں شامل ہو گیا۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین کو گمراہ کرنے کے لیے شیخ رشید ہی کافی تھا ،اب بابر اعوان اور فوادچودھری بھی کپتان کے مشیرانِ خصوصی کی صف میں شامل ہو گئے ہیں ۔ بابر اعوان نے پارٹی میں شامل ہوتے ہی یہ کہتے ہوئے پہلا کھڑاک کر دیا ”اب تحریکِ انصاف کا مطالبہ بڑھ گیا ہے ۔نوازشریف کے ساتھ اسحاق ڈار اور شہباز شریف بھی استعفیٰ دیں ۔ تحریکِ انصاف کا مطالبہ ہے کہ اب صرف استعفوں سے بات نہیں بنے گی ،نواز لیگ کا کوئی وزیرِاعظم قبول نہیں ، نئے الیکشن کروائے جائیں ”۔ یہی وہ مطالبہ تھا جس کی بازگشت اپوزیشن جماعتوںکے اجلاس میں سنائی دی اور شاہ محمود قریشی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ اِسی اجلاس میں وہ کہہ چکے تھے کہ نئے انتخابات پیپلزپارٹی کی پالیسی کا حصّہ نہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے فاروق ستّار نے کہا کہ آئینی اور قانونی طور پر نہیں ،وزیرِاعظم کو اخلاقی طور پر استعفےٰ دے دینا چاہیے۔ فاروق ستّار نے یہ بھی کہا کہ احتساب کا یہ سلسلہ رُکنا نہیں چاہیے بلکہ احتساب کے لیے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے ۔ فاروق ستّار کی اِس تجویز کا کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔ وجہ شاید یہ ہو کہ” اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں”۔البتہ اعتزاز احسن نے یہ ضرور کہا کہ ایسی باتوں کا موقع نہیں۔قائدِحزبِ اختلاف سیّدخورشید شاہ نے کہا کہ مستعفی ہو جانا ہی وزیرِاعظم کے حق میں بہتر ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اُنہیں اِس کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔گویا یہ خورشید شاہ کا وزیرِاعظم کو مشورہ تھا ،مطالبہ نہیں۔ امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ”مریض کا الٹراساؤنڈ ہو چکا ہے۔ رزلٹ سو فیصد مثبت ہے ۔نسخہ اور دوائی سپریم کورٹ نے تجویز کرنی ہے ۔مریض کی حالت یہی ہے کہ اُسے استعفےٰ دے دینا چاہیے” ۔عرض ہے کہ تشخیص کے بعد ہی علاج کیا جاتا ہے اوربعض اوقات تشخیص بھی غلط ثابت ہو جاتی ہے۔
امیرِجماعت نے خود کہا کہ جے آئی ٹی نامی الٹراساؤنڈ کا علاج صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مریض کا علاج کیے بغیر اُسے گھر بھیج دیا جائے۔ ایسی صورت میں تو مارشل لاء نامی بڑا ڈاکٹر سامنے آ کر بی بی جمہوریت کو زہر کا ٹیکہ لگا کر سارا معاملہ ہی ٹائیں ٹائیں فِش کر دے گا۔ ہم نے مرض کا علاج کرنا ہے نہ کہ اُسے موت کے حوالے کرنا۔ ایک طرف تو امیرِجماعت کے اتحادی عمران خاں یہ پیشین گوئی کر رہے ہیں ”اگلے ہفتے نیا پاکستان بنتے دیکھ رہا ہوں”۔ جبکہ دوسری طرف اپوزیشن 2018ء ہی میں وقتِ مقررہ پر عام انتخابات کی بات کر رہی ہے ۔ نیا پاکستان تو عام انتخابات کے بعد صرف اُسی صورت میں ہی تشکیل پا سکتا ہے جب عمران خاں نیا مینڈیٹ لے کر وزیرِاعظم بن جائے جبکہ کپتان اگلے ہی ہفتے نیا پاکستان بنانے کے لیے بضد ہیں۔ یہ تو اُسی صورت میں ممکن ہے کہ امپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے، یہ صورت کپتان کو بہت مرغوب بھی ہے ۔ کپتان کی یہ رغبت اور بیقراری ہم دھرنے کے دنوں میں دیکھ چکے ہیں۔
مارشل لاء کے گہرے ہوتے سایوں کی بات اے این پی اور قومی وطن پارٹی نے بھی کی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں مِل کر وزیرِاعظم کے استعفے پر دباؤ نہ ڈالیں کیونکہ ایسی صورت میں حالات پی این اے تحریک جیسے بھی ہو سکتے ہیں ۔اِن دونوں جماعتوں کا صائب مشورہ شاید اور کسی کی سمجھ میں نہ آیا ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ حالات جب کنٹرول سے باہر ہونے لگتے ہیں تو پھر مارشل لاء ہی لگتا ہے ۔ ایسے مارشل لاء ہم ایوبی اور ضیائی دَور میں دیکھ چکے ہیں ۔اگر کسی کو زعم ہے کہ اب فوج کو نہیں آنے دیا جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں بستا ہے کیونکہ مارشل لاء کی حمایت میں ہزاروں چوہے اپنے بِلّوں سے باہر نکل آتے ہیں۔اُن میں وہ بھی ہوتے ہیں جو آمر کو دَس بار وردی میں منتخب کروانے کے داعی اور وہ بھی جو اُس کا جھنڈا اُٹھائے گلی گلی میں اُس کے حق میں کمپین کرتے پھرتے ہیں ۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے حصولِ اقتدار کے خواب عوامی مینڈیٹ سے کبھی پورے نہیں ہوتے ۔اِسی لیے وہ مارشل لاء کی کشتی میں سوار ہو کر اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈتے ہیں دوسری طرف عین اُس وقت جب اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہو رہا تھا ،وزیرِاعظم ہاؤس میں نوازشریف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی جاری تھا ۔جس میں اراکین کی بھرپور نمائندگی لال حویلی والے کے مُنہ پر زور دار تھپڑ کی مانند تھی ،جو کہتا پھرتا تھا کہ نون لیگ کے پاس تو صرف چالیس اراکینِ پارلیمنٹ باقی رہ گئے ہیں۔
اِس اجلاس میں ڈیسک بجا کر وزیرِاعظم کا استقبال کیا گیا اور اُن پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے اُنہیں مستعفی ہونے سے منع کیا ۔وزیرِاعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں ۔اُن کا ضمیر اور دامن صاف ہے ۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں جو زبان استعمال کی گئی ،اُس میںجھوٹ ، بہتان اور بدنیتی نظر آتی ہے۔ سیاست میں کمایا کچھ نہیں ،گنوایا بہت ہے۔ سازشی ٹولے کے کہنے پر وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیرِاعظم سے استعفے کا مطالبہ انتہائی لغو،بے بنیاد اور قبل اَز وقت ہے کیونکہ کیس سپریم کورٹ میں ہے اور فیصلہ کرنے کے لیے سب سے بہتر فورم وہی ہے۔ اگر سپریم کورٹ وزیرِاعظم کو مجرم قرار دیتی ہے تو پھر کسی کے پاس بھی اُن کے حق میں کچھ کہنے یا لکھنے کو باقی نہیں بچے گا۔