اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے ویڈٰیو لیکس سے متعلق حسین نواز شریف کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ حسین نواز شریف نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد الزام عائد کیا تھا کہ ان کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر ان کی بغیر اجازت تصویر لیک کی گئی جس سے عوام میں انکی ساکھ متاثر ہوئی۔
دوسری جانب عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کی درستگی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال بارے قانون میں کوئی ممانعت نہیں ، عدالت نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کو بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جاسکتا اور اس حوالے سے درخواست گزار کے خدشات بے بنیاد ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ٹرانسکرپٹ کی تیاری کیلئے ہے ، تصویر لیک کے حوالے سے جے آئی ٹٰی رپورٹ پبلک کرنے پر اٹارنی جنرل جواب دیں ، ہمیں رپورٹ پبلک کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آئی بی کے معاملے پر عدالت کو تحریری جواب دیا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس اہم کیس کی کارروائی کو عوام سے خفیہ رکھا جائے ، جس نے اخبار میں اس کیس کے حوالے سے لکھنا ہے وہ لکھ سکتا ہے ، عدالت اس سے خوفزدہ نہیں ،
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم نابالغ نہیں کہ ہمیں کیس کے حوالے سے کچھ سمجھ نہ آئے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ حکومتی ادارے عدالت کی بجائے میڈیا کو جواب دے رہے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ کیس کو میڈٰیا ٹرائل یا میڈیا سرکس نہ بنایا جائے ، یہ مقدمہ عام نہیں بہت بھاری ہے ، اس لئے حکومتی ترجمان کو کہا جائے کہ وہ ناپ تول کر بات کریں ، ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہمیں کوئی ڈی ریل نہیں کرسکتا ، ہمیں معلوم ہے ہمیں کب اور کیا کرنا ہے ،
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ حکومت خود اخبارات میں اپنے حق میں آرٹیکل شائع کرواتی ہے ۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ میرے اوپر بڑی ذمہ داریاں ہیں لیکن میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ عدالتی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ۔ ہمیں ایک ہفتے کا وقت دیا جائے تو آئی بی کے معاملے پر ایک ہفتے میں جواب دے سکتے ہیں۔