اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے سینئر بیورو کریٹس کی ترقی اور تبادلوں کے حوالے سے مقدمہ میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ گر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ افسروں کی ترقی اور تبادلوں میں انیتا تراب کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی ہو ئی ہے تو وہ مناسب فورم سے رجوع کر سکتا ہے، بادی النظر میں معاملے میں قوائد و ضوابد کی خلاف ورزی ثابت نہیں ہو رہی۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سرکاری ملازم بلال احمد کی جانب سے درخواست کی سماعت کی تو جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ بلال احمد کا نام ترقی کیلئے آگے کیوں نہیں بھیجا؟ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب رزاق مرزا نے موقف اپنایا۔
کہ گریڈ 22 کے ڈائیریکٹر پبلک انسٹرکٹر سیکنڈری ایجوکیشن کے عہدے پر کسی کی تعیناتی یا تقرری وزیراعلیٰ کا اختیار ہے تاہم یہ عہدہ تقرری کا نہیں بلکہ پوسٹنگ کا ہے جس میں وزیراعلیٰ نے اپنے اختیارات کو استعمال کر کے ممتاز حسین کو تعنیات کیا ہے۔
بلال احمد 2006 میں گریڈ 20پوسٹ ہوا اور بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن کے گریڈ 21 میںکام کر رہا ہے ان کے خلاف بدعنوانی کا کیس چل رہا ہے جبکہ ایک انکوائری کا فیصلہ بھی ابھی ہونا باقی ہے۔
بلال احمد کے وکیل ملک عرفان نے کہا عدالت کو غلط بتایا جا رہا ہے مگر وہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے جبکہ وہ اس بات کی بھی وضاحت نہ کر سکے کہ کہاں قوائدو ضوابط کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
عدالت نے ان کے دلائل سے اتفاق نہ کرتے ہوے مسترد کر دیا۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت اس کیس میں ڈائریکٹ ریلیف نہیں دے سکتی اگر درخواست گزاربراہ راست ریلیف چاہتا ہے تویہ اس کی غلط فہمی ہے۔