اسلام آباد (جیوڈیسک)سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو متعلق ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست خارج کردی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 3 دن تک درخواست کی سماعت کی۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہرالقادری اپنا حق دعوی ثابت کرنے میں ناکام رہے ،حقائق کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری نے جوزبان استعمال کی اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
عدالت توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار بنیادی حقوق اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ، دہری شہریت کے باعث طاہر القادری رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے نااہل ہیں،آئین کا آرٹیکل 63 ون طاہر القادری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری بطور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوشخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران طاہرالقادری کی جانب سے جارحانہ رویہ بھی دیکھنے میں آیا۔ طاہرالقادری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہرالقادری نے سماعت کے دوران کہا کہ 3 دن سے میرا ہی ٹرائل کیا جا رہا ہے، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات تو پوچھنے پڑتے ہیں۔
چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو ہدایت کی کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطر رکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں، آپ نے یہ حرکت کر کے عدالت کونیچادکھانے کی کوشش کی، آپ عدالتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، آپ عدلیہ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو واپس نشست پر بٹھا دیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری کا حق دعوی بنتا ہے۔
عدالت نے 184 تھری کے تحت درخواستیں سننے کا دائرہ خود وسیع کر دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے طاہر القادری سے بنیادی حقوق، نیک نیت اور قانونی جواز پوچھے، چیف جسٹس اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل ان سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، درخواست گزار2005 سے دہری شہریت کی وجہ سے رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری رائے کے مطابق 31 جولائی2009 کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، اس کیس میں نیک نیت کا تعین کرنے کے لیے بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔
جب تک بدنیتی کے شواہد نہ ہوں کسی کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جمہوری حکومت مدت پوری کررہی ہے، انتخابات ہونے والے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں بد نیتی بھی نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سسٹم کو چلنے نہ دینا نیک نیتی ہے یا بد نیتی۔