سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے ٹیکس نہ لگائے جانے والے شعبوں کی تفصیل مانگ لی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ اسٹاک ایکسچنج پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جہاں اربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے رپورٹ کیلئے مہلت مانگ لی۔
سپریم کورٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے معاملہ سنا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیکھنا ہے کہ کیا ٹیکس کا نفاذ ماضی کی تاریخوں سے ہوسکتا ہے۔ حکومت گیس انفرا اسٹرکچر پر بھی سیلز ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا سیس ایک ٹیکس ہے اس پر مزید ٹیکس کا کیا جواز ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کرے۔ ویلیو ایڈٹ ٹیکس صرف حقیقی قیمت پر لگتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے درخواست کی مقدمے کو ایف بی آر کی نظر ثانی درخواست کیساتھ سنا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔ اسے پندرہ جولائی تک اعدا د و شمار جمع کرانے تھے۔ اٹارنی جنرل بتائیں کن شعبوں پر ٹیکس نہیں لگا جن سے بھاری ریونیو مل سکتا تھا۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ٹیکس کے نفاذ کے خلاف کی سماعت بھی ساتھ ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسٹاک ایکسچنج پر کوئی ٹیکس نہیں جہاں اربوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ مقدے کی سماعت یکم اگست کو ہوگی۔