اسلام آباد(جیوڈیسک)اسلام آباد سپریم کورٹ میں سانحہ جوزف کالونی بادامی باغ پرازخود کوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کر رہا ہے ،دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اشتراوصاف نے سانحہ گوجرہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات بند کمرے میں ہوئی،رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے ،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عام آدمی کو پتہ نہ چلے کہ واقعہ کی وجوہات کیا ہیں تو جوڈیشل کمیشن کا مقصد پورا نہیں ہوتا،انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ عوامی دستاویز ہے،کیا اسے پبلک کیا گیا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ بند کمرے میں تحقیقات ہوئی تھیں، رپورٹ ویب سائٹ پر موجود ہے ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی بند کمرے میں ہوتی ہے مگرسفارشات عوام کے لیے ہوتی ہیں،عام آدمی کو معلوم ہونا چاہیئے کہ واقعہ کی کیا وجوہات تھیں،عام آدمی کو پتہ نہ چلے تو جوڈیشل کمیشن کا مقصد پورا نہیں ہوتا،جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ لوگوں کے مفاد میں ہے،طاق میں رکھنے کے لیے نہیں، جسٹس شیخ عظمت سعید نے اس موقع پر کہا کہ پنجاب پولیس کی تاریخ ہی خراب ہے ، شانتی نگر واقعہ کا کیا ہوا۔
ایڈوکیٹ جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ گوجرہ واقعہ کے بعد جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں پولیس آرڈر میں ترمیم کی تجویز دی گئی تھی،یہ ترامیم متعلقہ حکام کو بجھوا دی ہیں، سانحہ گوجرہ کے بعد ضلعی امن کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں۔اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے سوال کیا کہ بادامی باغ واقعہ کے وقت ضلعی امن کمیٹیوں نے کیا کردار ادا کیا ،لاہور کی ضلعی امن کمیٹی اور اس کا سربراہ ڈی پی او سانحہ کے وقت کیا کر رہا تھا۔
اشتر اوصاف نے موقف اختیار کیا کہ پولیس آرڈر میں ترمیم کے معاملے پر ہوم ڈیپارٹمنٹ اور پولیس میں کچھ اختلافات ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپس کے جھگڑا میں کیا حکومت اتنی بے بس ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر عمل ہی نہ کر سکی،حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے ،حکومت اس معاملے میں ناکام کیوں ہوئی ، اس پر ہمیں ایکشن لینا پڑا۔