ڈاکٹر عافیہ کو غدار ملت ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں امریکا کے حوالے کیا تھا کیونکہ اُس نے پاکستان میں امریکی اور مغربی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کو کھلی چھٹی دی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عافیہ اپنے تین معصوم بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد جاری تھی کہ راستہ میں ہی اسے اغوا کر کے امریکی درندوں نے اُچک لیا۔ڈاکٹر عافیہ دنیا کے سامنے بظاہر اپنے تین بچوں کے ساتھ پانچ سال تک گم رہی۔ مگر وہ افغانستان میں امریکی قید میں تھی۔برطانوی انگریز خاتون صحافی مریم ریڈلے غیر قانونی طورپر افغانستان میں داخل ہوئی تھی،اُسے افغان طالبان کے خلاف مغرب کی مرضی کی رپورٹنگ پر لگایا گیا تھا۔مریم ریڈلے کو افغان طالبان نے گرفتار کر لیا۔ وہ کچھ مدت افغان طالبان کی قید میں رہی۔وہ بتاتی ہیں کہ وہ ایک خوبصورت نوجوان عورت ہے۔
جبکہ افغان طالبان کی قید میں طالبان نے کبھی بھی اُسے بھری نظروں سے نہیں دیکھا ۔جب بھی میرے کمرے میں داخل ہوئے آنکھیں نیچی رکھیں۔ مجھے سسٹر کہہ کر مخاطب ہوتے۔ خود سخت گرمی میں رہتے اور مجھے ایئر کانڈیشن کمرہ میں رکھا ہوا تھا۔ میں افغانوں اور خصوصی طور پر طالبان کو اوجھڈ،وحشی اور نہ جانے کیا کیا سمجھتی تھی۔ مگر میں نے قید کے دروان دنیا کے کسی بھی مہذب لوگوں سے، انہیں بہترین انسان پایا ۔ انہوں نے مجھے کسی بھی لالچ اور ڈیل کے بغیر رہا کر دیا۔ میں برطانیہ واپس آگئی۔ مجھ میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ میں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور چند سال بعد مسلمان ہو گئی۔ میں جب افغانستان میں رپورٹنگ کے لیے گی تو میں نے بلگرام افغانستان کی جیل میں ایک عورت کے چیخنے چلانے کی آواز سنی ۔ تحقیق کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ظلومہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی قیدی نمبر ٦٥٠ ہے۔ میں اس مظلوم قیدی کی روداد کو پریس میں عام کیاتو دنیا کو پانچ سال سے لاپتہ رہنے والی ڈاکٹر عافیہ اور اس کے بچوں کے متعلق معلومات ملیں۔ امریکیوں نے جب دیکھا کی اس قیدی کی متعلق خبریں عام ہو گئیں ہیں تو اُسے قانونی کاروائی کے لیے امریکا منتقل کر دیا گیا۔جہاں امریکی میں انسانی حقوق کی تاریخ کا بدترین مقدمہ چلا اور یہودی امریکی جج نے ڈاکٹر عافیہ کو ٨٦ سال کی قید کی سزا سنائی۔
جہاں تک ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کے لیے جدو جہد کا تعلق ہے تو اس کی بہادر بہن ڈاکٹر فوزیہ نے اس کام کے لیے عافیہ موومنٹ بنائی ہے۔اس موومنٹ کے ذریعے ڈاکٹر فوزیہ نے ملک اور بیرون ملک ہر دروازہ کھٹکٹایا۔ڈاکٹر فوزیہ نے بین لاالقوامی طور پر دنیا کے ساٹھ ملکوں میں رابطے کیے۔ کہیں جلسوں اور کہیں ریلیوں میں عوام نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات کی۔ امریکا کی وکیلوں کی تنظیموں کے نمائندے ڈاکٹر فوزیہ سے اظہار یکجیتی کے لیے پاکستان تشرف لائے۔ اور پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر پاکستان کی حکومت ایک خط امریکی حکومت کو لکھ دے تو امریکی قانون کے تحت امریکاضرور غور کرے گا۔ مگر کسی بھی حکومت نے امریکا کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے خط نہیں لکھا۔ اس کے علاوہ امریکا کا قانون ہے کہ اگر ایک لاکھ لوگ امریکی صدر سے درخواست کریں کہ فلاں قیدی کو رہا کردو تو امریکا کا صدر اکژر اس قیدی کو جاتے جاتے اپنی آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے رہا کر دیتا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ نے اس مہم کو کامیابی سے چلایا ۔ ایک لاکھ لوگوں کی پیٹیشن صدر اوباما کو امریکا ای میل کیں۔مگر نہ جانے امریکی صدر جاتے جاتے ڈاکٹر عافیہ کی رحم کی اپیل پر کان نہیں دھرے۔ عافیہ مودمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ نے ملک کے سارے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں سے رابطے کیے۔ملک کی سول سوسائٹی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا،وکیلوں، کاروباری حلقوں، دانشوروں، کالم نگاروں،مذہبی لوگوں اور مذہبی اداروں ،یعنی کسی کو بھی نہیں چھوڑا سب سے رابطے کیے۔ان حضرات نے اپنے اپنے طور پر ڈاکٹر عافیہ موومنٹ کی مدد بھی کی۔اپنی تقریروں، جلسوں ،سیمیناروں میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے آواز اُٹھائی۔ ڈاکٹر فوزیہ نے کراچی پریس کلب کے سامنے ٨٦ دن کا احتجاجی کیمپ بھی لگایا۔ اس کیمپ میں عافیہ موومنٹ اور شہر کی سیکڑوں خواتین نے ٨٦دن احتجاج ریکارڈ کرایا۔ عافیہ موومنٹ نے کراچی میںقائد اعظم کے مزار کے سامنے قومی جرگہ منعقدا کیا۔ جس میں پاکستان اور کراچی شہر کے ہر حلقہ کے لوگوں نے شرکت کی۔ اس میںیونیورسٹیوں کے پروفیسرز سمیت سوسائٹی، وکلاتنظیمیں،صحافی، دانشور، سیاست دان،مذہبی رہنما اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی خطاب کیا۔ راقم بھی اس قومی جرگہ میں شریک ہوا تھا۔ اس جرگہ نے متفقہ طور پر ڈاکٹر عافیہ کہ رہائی کی قرارداد پاس کی تھی۔ عافیہ موومنٹ کے عوام نے خیبر پختونخواہ کے شہر کرک سے اسلام تک پیدل مارچ کیا گیا۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور پبلک میںانسانی حقوق کے متعلق آگاہی کے لیے ایسے سیکڑوں پروگرام عافیہ موومنٹ کے تحت کیے گئے۔
پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ قوم کی بیٹی ہے اسے ضرور واپس پاکستان لائیں گے ۔پیپلز پارٹی کے امریکا میں پاکستان کے سفیر جو اب عدالتوں کے مفرور ہیں۔حسین حقانی نے مقدمہ میں ڈاکٹر عافیہ کی کوئی قابل قدر مدد نہیں کی۔ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ ایک موقعہ پر قیدیوں کی واپسی کا معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے مجھے پیپلز پارٹی دور کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے کچھ کاغذ ات دئیے۔ وہ میری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے فارم پر دستخط کرانا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس معاہدے کے حوالے سے میں نے اپنے دوست اور محب وطن وکلاء سے مشورہ کیا ، توپانے سے زیادہ کھونے کا تاثر ملا۔ اس لیے میں نے رضامندی فارم پر دستخط نہیں کیے۔اس میں کو نسل آف یورپ ٹرینٹی او اے ایس( oas ( شامل تھا۔ ا گر اس مجوزہ معاہدے کے تحت ڈاکٹر عافیہ کو مجرم قرار دلوا کر پاکستان لے آئیں تو عافیہ کے بدلے ہزاروں پاکستانیوں کو اس کے بدلے امریکہ کو دینا پڑتا۔ ہم اپنی بہن کی واپسی ضرور چاہتے ہیںلیکن اس کے بدلے ہزاروں پاکستانیوں کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے ۔رحمان ملک کے ہم مشکور ہیں ان کی کوشش سے ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے احمد اور مریم ہمیں مل گئے ۔ اس بہادر خاتون نے مزید کہا ہم پا کستان کی خوومختاری کی قیمت پر کوئی ڈیل نہیں چاہتے”۔اس مشکل کی گھڑی فوزیہ صدیقی کا یہ بیان قوم کواس وقت سے یاد ہے اور قوم ان کو بتا دینا چاہتی ہے کہ جب تک ڈاکڑ عافیہ صدیقی امریکہ کی جیل سے رہا ہو کر اپنے ملک پاکستان میں نہیں آتی احتجاج جاری ہے گا۔ سپریم کورٹ میں درخواست بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی جو عدالت نے یہ کہہ کر خارج کردی کہ حکومت اور پاکستان کی عدلیہ امریکہ کے عدالتی نظام میں کچھ نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے امریکی سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
نواز شریف نے اقتدار میں آنے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ کے گھر اس کی ماں سے ملاقات کے دوران وعدہ کیا تھا کہ جب میں اقتدار میں آئوں گا تو ڈاکٹر عافیہ صدیقہ کو واپس لائوں گا۔ نواز حکومت نے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی۔ ڈاکٹر فوزیہ کیبنیٹ میٹنگ کی کاز لسٹ میں عافیہ کی رہائی کے لیے کیس رکھانے کیلیے ایک ہفتہ اسلام آباد میں رکھی رہی۔ کیبنیٹ میٹنگ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بات چیت تو کی گئی۔مگر نہ جانے غلام سوچ کے پاکستانی حکمرانوں سمیت نواز شریف بھی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ ڈاکٹر فوزیہ نون حکومت کی منتیں کرتی رہی مگر نواز شریف نے اپنا وعدہ وفا نہ کر سکا۔ اب وہ بھی مکافات عمل کے تحت سزا بھگت رہاہے۔ قوم کو یاد ہے سزا کے وقت پا کستان کی سینیٹ نے امریکا سے ہر قسم کا تعاون ختم کرنے کا مطالبہ کر دیاتھا۔ قومی اسمبلی کے ارکان نے عافیہ کی بہن فوزیہ کے ساتھ یکجہتی واک کیاتھا۔ سندھ اسمبلی نے عافیہ کی سزا کو انسانیت کی تزلیل قرار دے دیاتھا۔کراچی میں جماعت اسلامی کی عافیہ کی سزا کے خلاف عورتوں کی بڑی ریلی سے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین(مرحوم) نے خطا ب کیا تھا۔
ایم کیو ایم نے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے ریلی نکالی تھی۔ عمران خان نے بھی اپنے جلسوں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی بات کی۔ عمران خان نے بھی ڈاکٹر فوزیہ سے اقتدار میں آنے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوشش کاوعدہ کیا۔ عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر فوزیہ نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست داہر کی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر فوزیہ کی پٹیشن سنتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ پاکستان کی حکومت امریکا سے قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ کرے اور اس کے تحت ڈاکٹر عافیہ کو باقی قید پاکستان میں کاٹنے کا موقعہ مہیا کرے۔ ڈاکٹر فوزیہ اس فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے بار بار عدلیہ سے رجوع کرتی رہی مگر حکومت نے بوجوع عدلیہ کے فیصلہ پر عمل نہیں کیا۔ ہمیں خوشی ہوئی تھی کہ اب ڈاکٹر فوزیہ نے ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست داہر کی ہے۔
سپریم کورٹ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سامنے رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم دے گی کہ امریکی سے قیدیوں کے تبادلہ کا معاہدہ کرے اور اس طرح ڈاکٹر عافیہ اپنی باقی قید پاکستان اپنے ملک میں پورے کرے۔مگر سپریم کورٹ نے یہ کہ کر ڈاکٹر فوزیہ کی درخواست رد کر دی کہ پاکستانی حکومت اور پاکستان عدلیہ امریکا کے عدلیہ کے نظام میں کچھ نہیں کر سکتی۔ ڈاکٹر فوزیہ خود امریکا کی سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔ قانون سے ناواقف ہم جیسے پاکستانیوں کو سپریم کورٹ کی یہ منطق سمجھ نہیں آئی۔ کہ حکومت پاکستان اپنی ایک شہری کے لیے امریکا سے بات چیت نہیں کر سکتی تو ایک فرد کیسے بات کر سکتا ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے۔
امریکی عدالتی نظام کا احترام کرتے ہوئے صرف اپنے ایک شہری کو معاہدے کے تحت واپس لانا ہے کہ وہ باقی سز پاکستان میں پوری کرے۔ جس امریکا کے لیے پاکستان نے روس سے جنگ کی اور امریکا بہادر کو نیو درلڈ آڈر بننے میںمدد فراہم کی۔ جس امریکا کے لیے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔ اپنے ملک کے ستر ہزار شہری اور فوجی شہید ہوئے۔نیٹو سپلائی کی وجہ سے پاکستان کا ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا انسفرٹریکچر کا نقصان ہوا۔ اپنے پڑوسی ملک مسلمان ملک سے دشمنی مول لی۔ کیاپاکستان قانونی کاروائی کر کے اپنی ایک شہری کو امریکا سے واپس نہیں لا سکتاکہ وہ امریکی عدالت کی طرف سے دی گئی باقی سزا اپنے ملک پاکستان میں پوری کرے۔یہ کہاں کا انصاف ہے یا امریکی غلامی کے سامنے بولنے کی ہمت کا فقدان ہے۔ اللہ ہی جانے کیا بات ہے۔ جو امریکا پاکستان کی کسی بھی حکومت کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔
صاحبو!عافیہ موومنٹ کی سربراہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ بظاہر ایک کمزور سی عورت ہے۔ لیکن اس نے اپنی مظلومہ بہن کی رہائی کے لیے انتھک کوشش کی ہے۔ اور اپنی بہن کی رہائی تک کوششیں جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہے۔وہ فولاد جیسا دل اور پہاڑ جیسا عزم رکھنی والی خاتون ہے۔ میں نے ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ ہم سب کو اس کا بازو بننا چاہیے۔ اپنی اپنی فلیڈ میں ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے کوششیں جاری رکھنی کرنی چاہیے۔ اللہ ہماری مددکرے۔آمین۔