تحریر : ظہور دھریجہ خبریں 19 ستمبر 2016ء کی اشاعت میں تحریک صوبہ ملتان کے چیئرمین محترم رانا تصویر احمد کا مضمون ” سرائیکستان کے حامیوں کے نام ” شائع ہوا۔ انہوں نے لکھا کہ صوبے کے حوالے سے اسلم اکرام زئی اور ظہور دھریجہ کی بحث مغلظات تک جا پہنچی ہے، شاید ان دونوں کا کوئی ذاتی مسئلہ ہو۔ اس بارے عرض ہے کہ اسلم اکرام زئی کا میرے خلاف مضمون اور میرا جواب ریکارڈ پر موجود ہے، دیکھنا چاہئے کہ اخلاق سے گری ہوئی تحریر کس کی ہے۔
بعد ازاں جواب الجواب کے طور پر اسلم اکرام زئی کا 17 ستمبر 2016ء کا ” نان سرائیکی نقطہ نظر” کا آغاز ہی توہین آمیز الفاظ پر مشتمل تھا، میں صفائی پیش نہیں کرتا ، چیلنج کرتا ہوں کہ کیا رانا تصویر احمد میرا ایک ایسا الفاظ سامنے لا سکتے ہیں جو بے ادبی کے زمرے میں آتا ہو ؟ اگر نہیں تو پھر اکرام زئی کے ساتھ مجھ پر مغلظات کا الزام کیوں؟ تحریر پڑھنے کے بعد سب کہہ رہے ہیں کہ رانا صاحب کا تجزیہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نہیں۔ رانا صاحب نے ذاتی مسئلے کی بات کی ، میرا اسلم اکرام سے کیا ذاتی مسئلہ ہو سکتا ہے ؟ میری ان سے نہ کوئی شراکت داری ہے اور نہ ہی جائیداد کا جھگڑا اور نہ ہی کسی طرح کا گہرا تعلق۔ میری ان سے دو ایک ملاقاتیں ہیں ، اس دوران انہوں نے خود ہی بتایا تھا کہ میں نیا اخبار کا جی ایم ہوں ، اس سے پہلے میں جانتا تک نہ تھا کہ وہ کیا ہیں۔
رانا تصویر احمد صوبے کے نام کے حوالے سے جو اعتراض اٹھائے ، اس بارے میں بتا دوں کہ سرائیکی خطہ بنیادی طور پر دریاؤں کی سر زمین ہے ، تاریخی کتب میں سرائیکی کو ” سپت سندھو ” یعنی سات دریاؤں کی سر زمین کہا گیا ہے، اس نام سے اردو کے معروف رائٹر اور آرکیالوجسٹ ابن حنیف کی کتاب بھی موجود ہے۔ جہاں تک جنگل، پہاڑ اور لسانی حوالوں کی بات ہے تو سرائیکی خطے میں کس چیز کی کمی ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ صوبہ بلوچستان میں کوئی دریا موجود نہیں ، کیا اسے صوبہ نہیں ہونا چاہئے تھا ؟ جہاں تک سرائیکی کی بات ہے تو یہ لفظ پہلے کا ہے، ساٹھ کے عشرے میں اس پر محض اتفاق ہوا ، ایک حوالہ گورنمنٹ پریس آف کلکتہ سے 1919ء میں شائع ہونیوالی جارج گریسن کی کتاب لنگویج سروے آف انڈیا والیم VIII کے صفحہ 359 پر دیکھئے :۔
From every district of Sindh ( except Thar and Parker) specimens have been received of the language locally known as Siraiki. on Examination it turns out that in every case this language is not Sindhi at all but is form of Lahnda closely allied to the Hindki of Dera Ghazi Khan.
(ترجمہ) سندھ کے ہر ضلع سے (سوائے تھر اور پار کرکے) ایک ایسی زبان کے نمونے موصول ہوئے ہیں جسے مقامی طور پر سرائیکی کہتے ہیں ، لیکن معائنہ کرنے پر ہر ایک نمونہ ایک ایسی زبان کا نکلا جو سندھی ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک صورت سے متشابہ ہے اور ضلع ڈیرہ غازی خان کی ہندکی سے قریبی مناسبت رکھتا ہے۔
Saraiki
میں بتانا چاہتا ہوں کہ سرائیکی لفظ سرائی (بمعنی سردار، معزز، صاحب، سائیں) کی ترقی یافتہ شکل ہے، سرائیکی وسیب میں بہت سی اقوام سرائی کے لاحقے کے ساتھ موجود ہیں۔اگر بحث کی جائے تو سوال ہو سکتا ہے کہ لفظ پاکستان یا اردو میں وادی ، دریا ، جنگل ، تہذیب، و ثقافت میں سے اس کا کیا حوالہ ہے؟ اور کل تک جس زبان کو دکنی ،ہندی ، ریختہ اور لکھنوی وغیرہ کہا جاتا رہا وہ ” اردو ” کیسے ہو گئی؟ اور اگر آپ کسی خطے کی قومی شناخت یا ان کی زبان پر سوال کریں گے تو پھر ان کو بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ بھی سوال کریں کہ جس زبان کے تمام حوالے ہندوستان سے ہوں اور جو چوں چوں کا مربہ ہو ، وہ پاکستان کی قومی زبان کیسے ہو گئی؟ آپ نے لکھا کہ ایک بھی قبیلہ ایسا نہیں جو خود کو سرائیکی لکھتا ہو ، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپکو قومی مسئلے کا ادراک نہیں اور ذات و قوم میں فرق کو نہیں سمجھتے، آپ ایک کہتے ہیں ، میں کہتا ہوں ہزاروں قبیلے ہیں جو سرائیکی لکھوا رہے ہیں۔
نادرا ریکارڈ اٹھائیے اور دیکھئے کہ وہاں زبان کے خانے میں سرائیکی لکھا ہوا ہے یا نہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ” ریونیو ریکارڈ میں کہیں بھی آج تک میری نظر سے نہیں گزار ، فلاں ولد فلاں قوم سرائیکی ” ۔ عجب جاہلانہ بات ہے ، ریونیو ریکارڈ میں نام ، ولدیت اور ذات لکھی جاتی ہے ۔ میرا سوال ہے کہ سرائیکی تو نہیں لکھا ہوا ، کیا ریونیو ریکارڈ میں کسی کا نام فلاں ولد فلاں قوم پنجابی یا قوم سندھی لکھا ہوا ہے؟ رانا تصویر نے مجھ پر پریس کلب کے حوالے سے بہتان لگایا۔ میں کہتا ہوں یہ سو فیصد جھوٹ ہے کہ میں نے پریس کلب کی کسی تقریب میں نے ایسی جاہلانہ بات کبھی نہیں کی ، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ میں نے کہا ہو کہ اس خطے میں تمام لوگ سرائیکی ہیں ، اگر نہیں ہیں تو سرائیکی بننا پڑے گا ، اگر وہ سرائیکی بننے پر راضی نہیں تو یہاں سے ہجرت کر جائیں ، یہاں تک کہ اپنی قبریں بھی اکھاڑ کر لے جائیں ۔ میں رانا صاحب کو کہتا ہوںکہ نفرت کے سودا گرو! خدا کا نام مانو، کیوں جھوٹ بولتے ہو، کوئی حوالہ تو دو، کوئی تاریخ تو بتاؤ اور کوئی ریکارڈ تو سامنے لاؤ۔ میرا عقیدہ انسان دوستی ہے، ہم تمام زبانوں ، ثقافتوں اور تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں تاکہ ہماری زبان، ثقافت اور ہمارے مذہب اسلام کا احترام ہو سکے۔ ہم خود سرائیکی نہ تھے لیکن ماں دھرتی میں اپنے رنگ میں رنگ لیا اور آج ہم خود کو فخر سے سرائیکی کہتے ہیںلیکن دوسروں کی زبان ، قومیت اور شناخت کا احترام پہلے کرتے ہیں۔
محترم رانا تصویر احمد نے زکریا یونیورسٹی کے سرائیکی شعبے کا ذکر کیا ،اس بارے عرض ہے کہ رانا صاحب! یہی سوال تو آپ پر بنتا ہے کہ پاکستان کی کتنی زبانیں ہیں ، پھر ایک اردو پر اصرار کیوں؟ آپ لوگوں نے بنگلہ زبان کی توہین کی ، فسادات برپا کرائے ، ملک دو لخت ہوا، سبق حاصل کرنے کی بجائے آپ نے وہی اعتراض سرائیکی پر شروع کر دیئے ، پنجاب یونیورسٹی میں پنجابی شعبہ قائم ہے، سندھ میں بیسوں سندھی شعبے قائم ہیں ، اردو یونیورسٹی ہے ، اردو کالج ہے، اردو بازار اور لسانی بنیاد پر اردو کے ان گنت ادارے وفاقی و صوبائی سطح پر موجود ہیں جو اردو ترقی کے نام پر ہر سال کروڑوں ، اربوں کا بجٹ حاصل کرتے ہیں۔ اس سال بھی وفاقی بجٹ میں اردو لغت کی اشاعت کیلئے 50 کروڑ رکھے گئے۔ آپ نے ان پر تو اعتراض نہیں کیا ، آپ کو اعتراض ہے تو اس ماں دھرتی کی شناخت اور اس کی زبان پر جس کا آپ رزق کھاتے ہیں۔
Saraiki
آپ نے سوال کیا کہ سرائیکی شعبہ نے پانچ سالوں میں کیا کام کیا ؟میں پوچھتا ہوں کہ اس کی جوابدہ یونیورسٹی ہے یا میں؟ کیا نا اہلوں کو میں نے بھرتی کیا یا میں اس ادارے کا سربراہ ہوں؟ زکریا یونیورسٹی سمیت وسیب کے ہر ادارے کو تباہ کیا جا رہا ہے، میںیہ بات ببانگ دہل کہتا ہوں کہ وہ سرائیکی دشمن لابی جو عدالت میں سرائیکی شعبے کے خلاف پیش پیش رہی ، جب ہمارے حق میں فیصلہ ہو گیا تو وہی مخالف شعبے کے سربراہ بھی بن گئے اور نا اہلوں کو بھرتی بھی کرا لیا ۔آج شعبہ تباہ ہو رہا ہے ، نصاب کی منظوری کے باوجود ایم فل اور پی ایچ ڈی شروع نہیں کی جا رہی اور سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر سے ملحقہ چھ شعبے جو منظور شدہ ہیں اور جن کا یونیورسٹی بجٹ میں ہر سال فنڈ بھی آتاہے ، ان کو فنکشنل کیوں نہیں کیا جا رہا ؟ ہم نے تمام بات وائس چانسلر تک پہنچائی لیکن افسوس کہ وہ اس کا ایکشن نہیں لیتے،اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سرائیکی ان کی ماں بولی نہیں۔
رانا تصویر احمد نے جاگیرداروں کی بات کی ، اس بارے عرض ہے کہ رانا صاحب! اس خطے کے جاگیرداروں نے بر سر اقتدار ہوتے ہوئے اپنے وسیب سے غداری کی ، وہ آج بھی اقتدار کے مراکز پر سجدہ ریز نظر آتے ہیں ، ہم ہزار بار ان کے اس عمل کی مذمت کرتے آ رہے ہیں۔ مگر سوچیئے کہ اپنے وسیب کے حقوق ، اپنے وسیب کی شناخت اور صوبے کی مخالفت کر کے سرائیکی خطے کے آبادکار و مہاجر ،وسیب کے جاگیرداروں جیسی غداری کا بالواسطہ مرتکب نہیں ہو رہے ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسمبلی و اقتدار میں پہنچ کر جاگیرداروں نے کچھ نہیں کیا تو چوہدری سعود مجید، چوہدری جعفر گجر، میاں امتیاز، چوہدری شوکت داؤد، چوہدری مسعوداحمد، چوہدری ممتاز ججہ،مرزا ناصر بیگ، نواب لیاقت علی ، احسان الدین قریشی ، شیخ طارق قریشی ،ر انا محمود الحسن اور بہت سے دیگر نے کونسی دودھ کی نہریں بہا دیں ؟ یار! خدا کا نام مانیئے ، یہ سب بے بس اور اقتدار کی گردشوں کے غلام لوگ ہیں ، وسیب کو اپنا صوبہ ، اپنا اختیار جب تک حاصل نہ ہو گا ، مسئلے حل نہیں ہونگے۔ وسیب کو صدر، وزیراعظم ، گورنر یا وزیراعلیٰ نہیں بلکہ صوبہ چاہئے۔
رانا تصویر احمد نے شمع بناسپتی کے مالک شیخ احسن رشید کے تعاون سے ہونے والی 10 جون 2012 ء کی کانفرنس کا ذکر کیا ۔ اس بارے گزارش ہے کہ 10 جون 2012ء کی کانفرنس میں موجود نہیں تھا، مزید یہ کہ خدارا! بے چاری زبان کو ہتھیار کے طورپر استعمال نہ کیجئے ، ہم بار بار یہ کہتے آ رہے ہیں کہ جس طرح دوسرے صوبے ہیں ، وسیب کے لوگوں کا صوبہ بھی ایسا ہو ، وسیب کے لوگ نہ برتر صوبہ مانگتے ہیں اور نہ کمتر صوبہ قبول کریں گے ۔ رانا تصویر احمد نے مرحوم اختر قریشی کا حوالہ دیا ، میں کہتا ہوں کہ رانا صاحب! آپ نے یہ پیرا گراف لکھ کر اپنے پچھلے تمام مضمون اور مجھ پرلگائے گئے تمام الزامات کی خود ہی تردید کر دی ، میں آج بھی تمام سٹیک ہولڈرز سے یہی کہتا ہوں کہ صوبے کے قیام کیلئے سب مل جل کر جدوجہد کریں کہ سرائیکی صوبہ خطے میں بسنے والے تمام افراد ہی نہیں پاکستان کی بھی ضرورت ہے کہ 62 فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور 38 فیصد آبادی کے تین صوبے، اس کا مطلب تین پہیے کار کے ایک ٹریکٹر کا، وفاق کی گاڑی کیسے چلے گی۔