ٹرسٹ کا مطلب وہ املاک جونیک مقاصد کے لیے وقف کردی جائے ۔عام حالات میں ہم جب بھی کسی ادارہ کے ساتھ لفظ ٹرسٹ لکھا دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں یہ تصور ہوتا ہے کہ ایک رفاہی ،فلاحی ادارہ ہوگا یہی لفظ اگر بالخصوص کسی ہسپتال کے ساتھ لکھا ہواہو تو اس کا مطلب ہے کہ یہاںپر ایک معمولی سی فیس کے اندر مستحق افراد کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جوکہ عام انسان کو کسی سرکاری ہسپتال میں میسر نہیں آتیں ۔ہمارے ایک دوست بڑی خوب بات کہا کرتے ہیں کہ سرکاری ہسپتال میں بندہ صرف جان سے جاتا ہے جبکہ پرائیوٹ ہسپتال میں جان کے ساتھ ساتھ مال سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان کے اندر اتنے مسلمان نہیں ہونگے جتنی مذہبی تنظیمیں ہیں اور وہ بھی اس قدر طاقتور کہ چلتے ملک (سسٹم )کو جام کرسکتیں ہیں زندہ کئی مثالیں موجود ہیں مگر افسوس کہ 73سالوں میں ”اسلامی نظام”نافذ نہیں ہوسکا کیونکہ ان کا ایجنڈا ”اسلام”نہیں اسلام آباد اور ”پیٹ”ہے۔
آج کہیں خدمت تو کہیں مذہب تو کہیں جمہوریت کے نام پر معصوم بھولی بھالی عوام کا قتل عام کیا جارہا ہے”سبھی رانگ نمبر”ہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ انکو کوئی پوچھنے والا نہیں یہ لوگ اس قدر طاقتور ہیں کہ جب کوئی انکی اصلیت کو عیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی زبان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردی جاتی ہے ۔ میری جماعت اسلامی کے بارے سوچ ذرہ مختلف تھی کیونکہ میں سید ابوالامودودی کے افکارات،نظریات اور خدمات کو پڑھ چکا ہوں ۔ثریا عظیم (ٹرسٹ)ہسپتال جوکہ جماعت اسلامی کا ہے اور جہاں پر بلا امتیازرنگ ،نسل ومذہب انسانیت کی خدمت کا دعویٰ کیا جاتا ہے آئیے ذرہ اس دعویٰ کی حقیقت کو جاننے کی ادنیٰ سی کوشش کرتے ہیں عام چیک اپ پرچی فیس مبلغ سوروپے ہے بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جوکہ یہ فیس ادا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ،سپشلسٹ ڈاکٹر کی فیس مبلغ پندرہ سو روپے سے لیکر تین ہزار اور بعض کی تو یقینا اس سے بھی زیادہ ہوگی۔
الٹراسائونڈ اور دیگر ٹیسٹ دوسری لیبارٹریوںسے بھی مہنگے ہیں کیونکہ یہ ”ٹرسٹ ”ہے ڈرپ لگوانے کے دوسو روپے اور انجکشن لگوانے کے پچاس روپے ۔راقم الحروف عرصہ چار سال تک ایک میڈیکل سنٹر پر ملازمت کرتا رہا ہے ۔اچھی طرح علم ہے کہ ایک غیر معیاری میڈیسن کمپنی اپنے میڈیکل ریپ کے ذریعے کس طرح اپنی ادویات کی فروخت کے لیے ڈاکٹر زحضرات کو اچھی خاصی رقوم سے لیکر گاڑیوں سمیت اندورن بیرون ممالک کے دورے بھی شامل ہیں ۔ایک اچھی کمپنی کا انجکشن جو کہ تین سو روپے میں دستیاب ہے وہی انجکشن اسی سالٹ میں غیرمعیاری اور ٹھیکے کی کمپنی کا مبلغ پندرہ سوروپے میں فروخت ہوتا ہے ۔میڈیکل سے تعلق رکھنے والے افراد اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دنیا بھر میں ہر دوائی کا الگ فارمولا(سالٹ)ہوتا وہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہر کمپنی مختلف نام سے اس سالٹ کی دوائی تیار کرتے ہیں جس طرح اسپرین سالٹ کو مختلف کمپنیاں مختلف ناموں سے تیار کرتی ہیں سب سے مشہور” ڈسپرین ”ہے ۔
اکثر یہ تجربہ کرنے کو ملتا ہے کہ جوڈاکٹر کسی پرائیوٹ ہسپتال یا کلینک میں کسی مریض کومیڈیسن تجویز کرتا ہے (اب تو سرکاری ہسپتالوں کا یہی حال ہے ) وہ ادویات یا تو اسی ہسپتال کی فارمیسی سے ملتی ہیں یا پھر اس سے ملحقہ ایک مخصوص فارمیسی سے ملتی ہیں ڈاکٹر باقاعدہ حکم دیتا ہے کہ جو میڈیسن لکھی ہیں وہی لی جائیں اور فلاں میڈیکل سٹور پر دستیاب ہونگیں۔ثریا عظیم ہسپتال میں ایک عام بچوں کے ڈاکٹر وسیم جوکہ تقریباً ہر بچے کو معمولی سی تکلیف پر تیرہ ،چودہ سو روپے کی ڈرپ لگوانے کی فوری ہدایت کرتا ہے اور ساتھ یہ حکم بھی جاری کرتا ہے کہ میڈیسن ہسپتال کی فارمیسی سے خریدی جائیں ،یقین کریں وہی ادویات اچھی کمپنی کی معیاری فارمیسی سے چھ سے سات سوروپے کی ہوتی ہیں جوکہ ہسپتال کی فارمیسی سے غیر معیاری ادویات تیرہ سے چودہ سو روپے کی ہوتی ہیں ۔کئی بار یہ تجربہ ہوچکا ہے اگر ڈاکٹر صاحب کو اس کی پرچی کے مطابق ادویات باہر کی فارمیسی سے اچھی کمپنی کی لاکر دیں ہیں تو انہوں نے رعونت بھرے لہجے میں کہا کہ ڈاکٹر میں ہوں یا کہ تم ؟۔ہر ڈرپ کے ساتھ ڈرپ ٹیپ منگوائی جاتی ہے ایک ٹیپ تقریباً دو سے تین لوگوں کے لیے استعمال ہوسکتی ہے مگر وہ بقیہ ٹیپ واپس نہیں کی جاتی اور وہی بقیہ ٹیپ مہارت سے اگے مریض کو لگائی جاتی ہے اور نئی ٹیپ رکھ لی جاتی ہے جوکہ یقینا رات کو اکھٹی کرکے واپس کردی جاتی ہونگیں۔مجھ جیسے بے بس لوگ ہسپتال کی فارمیسی سے ادویات خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہسپتال کے اندر غریب اور مستحق افراد کے تقریباً فری علاج کے لیے مخیر حضرات کی طرف سے دی گئی زکوة، صدقات،عطیات اور دیگرز فنڈ ز سے ایک باقاعدہ شعبہ موجود ہے ۔امیر جمات اسلامی لاہور ڈاکٹر ذکر اللہ مجاہد سے اچھا تعلق ہے اور وہ واقعی ایک نفیس ،بااخلاق،باکرداراور درد دل رکھنے والے انسان ہیں ۔وہ اکثر ثریا عظیم ٹرسٹ ہسپتال میں غرباء کے فری علاج اور جماعت کی دیگر خدمات کے متعلق آگاہ کرتے رہتے ہیں پراثر اور پر تاثیر گفتگو کے ساتھ ساتھ سحر انگیز لہجہ بھی رکھتے ہیں۔اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے اخبارات،ٹی وی چینلز کی رونق بنے رہتے ہیں۔ایک مشہور کہاوت ہے کہ جس شخص کا ہمسایہ بھوک سے مرجائے ،سخی اسکو کہلوانے کا کوئی حق نہیں ۔آپ نے سندھ میں میڈیکل کیمپس لگاکر ہزاروں لوگوں کو فری ادویات دیں،آپ نے شیخوپورہ میں دوسو افراد کی آنکھوں کے آپریشن کیے ،مگر آپ کے ہمسائے کے پاس اپنے بچے کا چیک اپ کروانے کے لیے ڈاکٹر کی فیس نہیں ہے بتائیے ایسی سخاوت کا کیا حاصل ؟۔مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے ۔من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں سے نمازی بن نہ سکا ۔راقم الحروف لٹن روڈ جماعت کے دفتر کا پڑوسی ہے ۔بیٹی کی طبیعت ناساز تھی اورہسپتال میں مستحق افراد کے شعبہ کے انچارج سے رابطہ کیا اور عرض کی کہ ہسپتال میں بچوں کے ایک انتہائی قابل سپشلسٹ فرشتہ صفت ڈاکٹر اقبال احمد اظہر سے چیک اپ کروانا ہے پرچی فیس مبلغ پندرہ سوروپے معاف کردی جائے۔کیونکہ موجودہ حکومت نے برابری کی وہ زندہ مثال قائم کی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی کل تک لوگوں کو زکوة،صدقہ،خیرات دینے والے آج لینے والوں میں ہوئے بیٹھے ہیں۔
ادھر ہمارے اعمال بد کا نتیجہ ”کرونا”اور مسلسل لاک ڈائون نے مجھ جیسے لاکھوں افراد کو خود کشی کرنے پر مجبور کردیا ہواہے ،خدا نے حرام موت مرنا حرام کیا ہے اور حاکم وقت نے جینا۔معلوم ہوا کہ پرچی فیس معاف نہیں ہوسکتی یہ امیر لاہور ڈاکٹر ذکراللہ مجاہد کا فرمان ہے۔خود امیر محترم کو کال کی جسارت کی تو حسب روایت انہوں نے نمبر مصروف کردیا پہلے تو کبھی کال سن لیا کرتے تھے مگر مسلسل”امارت”اور خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جاتی ہے والی بات ۔ہم بھی بہت سے بڑے لوگوں کے ساتھ بہت سا وقت گزار چکے ہیں اور اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ جب کسی سے بات نہ کرنی ہو تو کس طرح فون کاٹ کر مصروفیت کا میسج بھیجا جاتا ہے۔
عرصہ بائیس سال سے”قلم”سے جڑے ہوئے ہیں دو سیرت النبیۖ پر اور کشمیر پر کتاب بھی لکھ چکا ہوں مگر میری ان خدمات سے انکو کیا فائدہ ؟یہ دور سلجوق تھوڑا ہے کہ جس میں خواجہ حسن طوسی (ابوعلی حسن ابن علی بن اسحاق)کوشاہ سلجوق اسکی علمی خدمات کے اعتراف میں ”نظام الملک”کا خطاب دینے کے ساتھ سلطنت سلجوقیہ کا وزیر اعلیٰ اور معتمد خاص مقرر کرے ۔ایک وقت تھا کہ جب اہل قلم افراد کی تخلیقات اور تصانیف پر انکی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی مگر پیشہ ور قصیدہ گو افراد نے اہل قلم افراد سے یہ حق چھین لیا ہوا ہے۔آخر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان مولانا سراج الحق اور امیر جمات لاہور ڈاکٹر ذکراللہ مجاہدسے ہاتھ جوڑ اپیل ہے کہ کہ وہ ثریا عظیم ہسپتال کے ساتھ سے لفظ (ٹرسٹ)ختم کردیں اس طرح غریبوں کا استحصال نہ کریں ۔درحقیقت یہ ایک پرائیوٹ ہسپتال ہے جہاں پر پیسے سے زندگی تو نہیں ملتی مگرعزت ضرور ملتی ہے۔۔۔