انہیں نہ ماریں یہ آپ کے پیغامبر ہیں

Wali Khan Babar

Wali Khan Babar

ہفتہ کو ایک حیران کن خبر سننے کو ملی، میری طرح شاید اور بھی بہت سے لوگوں کو اس خبر کی صداقت پر یقین نہ آیا ہو، برحال خبر حقیقت پر مبنی ہونے کے باعث یقین کرنا ضروری تھا۔ خبر یہ تھی کہ سال دوہزار گیارہ میں ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر ولی خان بابر کے قتل کا فیصلہ عدالت نے سنا دیا ہے اور مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ خبر میں حیرت کی بات یہ تھی کہ میرے کانوں نے ایک طویل عرصے کے بعد ایسا سنا اور آنکھوں نے دیکھا کہ کسی صحافی کے قتل کا کیس ایک ایسے موڑ تک پہنچا ہو، جہاں ملزموں کو مجرم ثابت کرنے کے بعد سزاوار ٹھہرایا گیا ہو۔ تین سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد بالآخر حق و سچ کی جیت نصیب ہوئی اور ایک بے گناہ کے قاتل سزا کے مستحق ٹھہرے۔ یہ عدلیہ کی تاریخ میں بڑا مثبت قدم ہے۔

میڈیا کسی بھی معاشرے کا ترجمان ہوتا ہے۔ میڈیا کے نمائندے دن رات ایک کر کے عوام تک خبریں پہنچانے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ مختلف واقعات کی رپورٹنگ کے علاوہ صحافی ملک کی مختلف سیاسی و سماجی جماعتوں کی سرگرمیاں اور ان کا موقف بھی عام عوام تک میڈیا کے ذریعے پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی نا انصافیوں اور بد عنوانیوں کو آزادانہ طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کا فوری طور پر متعلقہ حکومتی اداروں کو نوٹس لینا پڑتا ہے۔

پاکستان کے اہم بنیادی ستونوں میں شمار ہونے کے باوجود، صحافت سے وابستہ افراد ہروقت ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ حالانکہ سائنس کی ترقی کے بدولت اب ذرائع ابلاغ میں اتنی بہتری آ چکی ہے کہ میڈیا کو بہت فعال انداز میں چلایا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصہ میڈیا کے کردار سے خفا نظر آتا ہے۔ شکوہٰ عموما یہ کیا جاتا ہے کہ صحافی حضرات فلاں فلاں مسائل کو کسی کمی بیشی کے بغیر میڈیا پر کیوں نہیں لاتے۔

اکثر نشستوں میں جب بھی صحافت سے وابستہ افراد کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، کچھ اس طرح کی گفتگو کسی نہ کسی طرح ضرور ہو جاتی ہے۔ یار وہ فلاں جماعت والے اپنی خبر لگوانے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں۔ آج فلاںادارے والے بڑے ناراض تھے۔ آج فلاں رہنماء کا فون آیا تھا اپنی خبر اخبار میں نہ دیکھ کر تو وہ گالی دینے پر اتر آیا تھا۔ یہ وہ چند جملے اور الفاظ ہیں جو اکثر صحافیوں کی زبان پر ہوتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ صحافیوں کو اس طرح کی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Journalists

Journalists

حالانکہ اگر فون کر کے دھمکیاں دینے والے اور گالی گلوچ کرنے والے ذرا سا بھی احساس رکھیں تو انہیں اپنے کیے پر ندامت ہو۔ اگر وہ اس بات کو سوچیں کہ آخر یہ صحافی جس کو میں نے حراساں کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی آخر یہ بھی کسی ادارے کا ملازم ہے۔ اس سے اوپر بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس کی دی ہوئی خبر پر اثر انداز ہو کراسے نمایاں کر سکتے ہیںیا اشاعت سے روک سکتے ہیں۔ ایسا کرنے والے یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ آج ایک خبر کے نہ لگنے پر ہم برہم ہو رہے ہیں لیکن یہی شخص ہمارے او ر ذرائع ابلاغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے ہماری بہت سی خبریں اسی کے توسط سے شایع بھی ہوئی ہیں۔ دل میں احساس ہو تو یہ بھی سوچا جا سکتا ہے کہ جب سب لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے گھر اور بیوی بچوں سے دور، خطرات میں گھرے اور بہت ہی کم اجرت کی ملازمت کے تحت آپ کے کسی بھی ایونٹ کی کوریج کرنے آ جاتا ہے، خود اپنی جان پر کھیل کر یہ شورش زدہ علاقے کی صورتحال سے ہمیں آگاہ کر رہا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی اس جانب جانے کی غلطی نہ کر لے۔

ایسی بات جو اس کے اختیار میں نہیں اس پر اتنا برہم ہونا، اور بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی بلکہ اب تو میڈیا دفاتر پر حملے، صحافیوں کا اغواء و قتل عام سے بات بن چکی ہے۔ حالانکہ اگر کسی کو اس کا جائز حق یا کوریج نہیں مل رہی تو اس میں قصور فلیڈ میں موجود صحافیوں کا نہیں بلکہ میڈیا گروپس کے مالکان کا ہوتا ہے اور جس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے وہ صحافی کی صورت میں اپنی آواز کا گلہ دبانے کے بجائے، متعلقہ افراد تک اپنی شکایت درست طریقے سے پہنچائے۔ گولی اور بندوق کے ذریعے اپنی بات منوانے والے آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس طرح وہ کسی کے دل میں اپنی عزت و جگہ ہرگز نہیں بنا سکیں گے۔ آج جو طاقت و اختیارات میں ہونے کے باعث اپنے غلط دبائو کے ذریعے کوئی ناجائز کام کروا بھی رہے ہیں تو نہ یہ طاقت زیادہ دیر تک رہتی ہے اور نہ وقت ایک جیسا رہتا ہے۔ پھر جن کو آپ طاقت کے بل بوتے پر دبائیں گے، جب بھی ان کو موقع ملا وہ گزشتہ قرض سمیت اس کا حساب چکا دیں گے۔ ایسے میں بنی ہوئی ساکھ اور ملی ہوئی عزت سب ختم ہو جائے گی۔

Journalism

Journalism

ماضی کی بہ نسبت اب شعبہ صحافت سے وابستہ افراد زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں جس کے باعث تاحال وہ بہت سی بدعنوانیوں اور جرائم کو منظر عام پر نہیں لا سکتے۔ صحافت کے شعبے میں دیانتدار، ایماندار اور دردِ پاکستان رکھنے والے صحافیوں کی ہرگز کمی نہیں ہے جو کہ اپنے اس پیشے (صحافت) کو ایک مقدس پیشہ اور قوم کی امانت سمجھ کر اس کے ساتھ پورا پورا انصاف کر رہے ہیں مگر بعض اوقات وہ بیچارے مجبور ہو جاتے ہیں کہ سچ کو سچ کس طرح لکھیں۔ اگر لکھتے ہیں تو پھر اس کا جو نتیجہ ہوتا ہے وہ کسی سے اب پوشیدہ نہیں ہے۔

گزشتہ سال کے اواخر میں صحافیوں کے حقوق کی ترجمان تنظیمآر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 71 صحافی کو قتل کیا گیا۔ جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھی صحافیوں کے لیے دنیا کے پانچ خطرناک قرار دیئے گئے ممالک میں سے ایک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافت سے وابستہ افراد کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ کیوں کہ یہ معاشرے کا آئینہ اور اس کے عکاس ہیں۔ جو افراد اس آئینے کی توڑنا چاہتے ہیں کہ اس بات کو ہرگز نہ بھولیں کہ آئینہ توڑ دینے سے ان کا بھیانک چہرہ کچھ دن تک تو لوگوں کے سامنے بے نقاب سے تو بچ جائے گا لیکن اس کی یہ بدصورتی ختم نہیں ہو گی۔

تحریر: محمد نعیم