ملک عزیز میں سائبیریا کی یخ بختہ ہوائیں چل رہی ہیں موسلادھار بارشوں اور ژالہ باری نے سردی کی لہر میں اضافہ کیا ہوا ہے ایسے میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے جس سے ملک میں ایک نئی بحث کے ساتھ ساتھ ماحول کو گرما کے رکھ دیا ہے واقعہ کیا رونما ہوا پنجاب حکومت بوکھلا کے رہ گئی ایک کے بعد ایک موقف سامنے آتا ہے اور ہر موقف پہلے موقف کی نفی کر رہا تھا وزیر مشیر سبھی بوکھلاہٹ کا شکار نظر آئے کچھ سجھائی اور دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ کیا کیا جائے ایک کے بعد ایک غلطی نے بہت سے سوالیہ نشان لاکھڑے کئے واقعہ جو کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں ہے کی تحقیقات کے لئے ایک جے آئی ٹی قائم کی گئی تاکہ الجھے ہوئے معاملے کو سلجھایا جا سکے جے آئی ٹی کے سربراہ نے وزیراعلیٰ پنجاب کو سانحہ ساہیوال کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جس کے بعد حکومت پنجاب کے دو وزراء نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں جے آئی ٹی کی پیش کردہ تحقیقاتی رپورٹ کے مندرجات میڈیا کے سامنے رکھے تو جے آئی ٹی کی اس رپورٹ پہ بھی کئی سوالیہ نشان سامنے آ گئے۔
صوبائی وزیر قانون محمد بشارت راجہ اور سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے وزیر اعلیٰ آفس میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”پنجاب حکومت نے وزیراعظم عمران خان کے حکم اوروعدے کے مطابق سانحہ ساہیوال کے حوالے سے تیز اور شفاف تحقیقات کا اپنا وعدہ مکمل کیا ہے اور جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جا رہاہے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے خلیل اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دارسی ٹی ڈی کے افسران کو ٹھہرایا گیا ہے رپورٹ کی روشنی میںایڈیشنل آئی جی(آپریشن )پنجاب ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی پنجاب ،ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ،ایس ایس پی سی ٹی ڈی،ڈی ایس پی سی ٹی ڈی ساہیوال اور مقابلے میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب کو عہدے سے فوری طورپر ہٹا کر وفاقی حکومت کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو فوری طو رپر عہدے ہٹا دیاگیاہے اورڈی آئی جی سی ٹی ڈی کو بھی عہدے سے ہٹا کر وفاقی حکومت رپورٹ کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے ایس ایس پی سی ٹی ڈی اورڈی ایس پی سی ٹی ڈی ساہیوال ریجن کو بھی معطل کر دیا گیاہے مقابلے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5افسران کو مقدمے میں چالان کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ذیشان کے متعلق مزید تفتیش اورثبوت اکٹھے کرنے کے لئے مہلت کی درخواست کی گئی ہے اس سانحہ میں جان بحق ہونے والے افراد بے گناہ تھے جبکہ جو کاروائی کی گئی یہ سو فیصد درست تھی اس کیس کو مثال بنا کر متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کریں گے ماضی میں لوگ سالوں انصاف کے لئے تگ و دو کرتے رہے مگر انہیں انصاف نہیں مل سکا موجودہ حکومت کی کمٹمنٹ ہے کہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے میں مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں لازوال ہیں”۔
جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ نے بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے کئے ہیں ایک طرف خلیل اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دارسی ٹی ڈی کے افسران کو ٹھہرایا گیا ہے جبکہ دوسری طرف اس سانحہ کی کاروائی کو بھی سوفیصد درست قرار دے کر کنفیوژن پیدا کر دی گئی ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے ابھی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے سانحہ ساہیوال میں جان بحق ہونے والے خیل کے بچوں کی عیادت کے لئے جانے والے وزیراعلی پنجاب کے پھولوں نے خوشبوئیں بکھیرنے کی بجائے ماحول کو اور بدبودار بنا دیا کیونکہ جہاں صف ماتم بچھا کرتی ہے وہاں پھولوں کے گلدستے لے کر نہیں جایا کرتے بلکہ لواحقین کے غم میں شریک ہوکر ان کے دکھوں کا مداوا اور زخموں پہ مرہم لگائی جاتی ہے۔
پنجاب حکومت کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ زخموں پہ مرہم رکھنے کی بجائے نمک چھڑکا جاتا ہے اپوزیشن نے تو اس عمل کو اچھالنا ہی تھا خود حکومتی نمائندوں نے بھی اس عمل کو اچھا نہیں سمجھا قیام پاکستان سے لے اب تک اسلامی جمہوریہ پاکستان پہ جتنے بھی حکمرانوں نے حکمرانی کی انہوں نے پولیس کے فرسودہ نظام پہ کبھی بھی توجہ نہیں دی اگر یوں کہا جائے کہ وطن عزیز کے حکمرانوں نے تھانہ کلچر کو نہ صرف بدلنے کی کوشش کہ بلکہ تھانہ کلچر کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تو بے جا نہ ہوگاسانحہ ساہیوال رونما ہونے پہ ہر محب وطن کی آنکھ اشکبار ہے ملک ایک سوگ کی فضا میں مبتلا ہے ایوان میں بیٹھے ہوئے ارکان اسمبلی اپوزیشن اور حکومت کو سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کی بجائے مل بیٹھ کر قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ آئندہ سے سانحہ ساہیوال جیسے وقعات رونما نہ ہوں۔