روزانہ کی طرح حکومت، غریب اور غریبی، لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کو چھوڑ کر آج شاہراہِ قائدین پر متحدہ قومی موومنٹ کی سپہ سالاروں، رینجرز اور پولیس کے جوانوں کے لیئے سجائے گئے یکجہتی ریلی پر طائرانہ نظر ڈالنے کا سوچا، جہاں پر لاکھوں افراد کے جمِّ غفیر نے اس بات کا فیصلہ دے دیا کہ عوام دہشت گردی اور خون ریزی کے بالکل خلاف ہیں۔ اور وہ امن و امان کے طالب ہیں۔ اس ریلی میں مختلف جماعتوں کے رہنمائوں اور مکتبۂ فکر کے نمائندگان نے خطاب کیا۔ اور ان سب کا ایک واضح اور کھلی کتاب کی طرح پیغامِ صدا سنائی دی کہ پاکستان اب مزید دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس روداد کی کہانی انور مسعود صاحب کے اس شعر سے کرنا چاہوں گا:
کسے معلوم ہے انور کہ ہم کو کہاں لے جائے پاگل پن ہمارا بڑی سنگین ہے غفلت ہماری بڑا ہشیار ہے دشمن ہمارا
شاہراہِ قائدین پر تا حدِّ نگاہ انسانوں کا سمندر اُمڈ آیا تھا۔ جدھر نظر جاتی وہیں انسانی سروں کا گنبد سر اُٹھائے کھڑا تھا۔ ریلی میں متحدہ کے قائد کے خطاب سے پہلے لاکھوں شرکاء نے پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا جس کے احترام میں تمام شرکاء کھڑے ہوگئے۔سبز ہلالی پرچموں کی بہار نے ماحول میں ایک سماء باندھ دیا تھا۔ اور خاص طور پر ” پاکستان بنایا تھا ‘ پاکستان بچائیں گے” کے فلک شگاف نعروں نے دلوں میں روح پھونک دیا۔ ننھے نونہالوں نے فوج،رینجرز اور پولیس کی وردی بھی زیبِ تن کر رکھا تھا ۔فوج سے یکجہتی کے اس جلسے میں سوائے تحریک انصاف اور جماعتِ اسلامی کے تمام ہی پارٹیوں کے نمائندگان نے خصوصی شرکت کی ۔اے پی ایم ایل کی آسیہ اسحاق صاحبہ نے جرنل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کو سلام اور مبارکباد بھی پیش کی۔اس ریلی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ فوجی جوانوں اور رینجرز و پولیس اہلکاروں کے حق میں منعقد کیا گیا تھا جس کی تعریف ترجمان رینجرز اور پولیس نے بھی میڈیا کے ذریعے کی۔
ر اپنے اس عزم کو دہرایا کہ اللہ رب العزت انہیں دہشت گردی کے سامنے ڈٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔البتہ ملک کے کونے کونے سے ان سے یکجہتی کی آواز آنی چاہیئے تھی مگر سوائے متحدہ قومی موومنٹ کے کسی اور اطرافِ و اکناف سے اس قسم کی صدا سنائی نہیں دے رہی۔جبکہ اس وقت ملک کو ایک قوم کی ضرورت ہے، نہ کہ فرقے، پارٹی اور دیگر گروہ بندیوں کی۔متحدہ کی اس ریلی میں کئی قرار داد بھی بھاری اکثریت سے منظور کرایا گیا۔آج ہمیں اور ہماری قوم کو ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔اور ہمیں ویسے بھی ملک کے دشمنوں کو نظریاتی شکست دینے کے لیئے از حد ضروری ہے کہ ہمارے اندر اتفاق و اتحاد کی فضا ہموار ہو۔
کیا اس افرا تفری اور بے امن و امانی ہم سب کے لیئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے، یقینا ہے جبھی تو ایک حشاش بشاش قوم کا ہر فرزند اور عام شہری خود کو کنفیوژڈ پاکستانی سمجھ رہا ہے۔اس وقت پاکستان میں مختلف ایشوز ہیں، جن سے یہ قوم نبرد آزما ہے۔ آج کراچی کے عوام نے تو ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی طرح دہشت گردی ، قتل و غارت گری کے لیئے تیار نہیں بلکہ ہمہ وقت امن و سکون کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
دہشت گردی سمیت تمام پریشانیوں کے خاتمے کے لیئے اب قوم کو گھروں، دفتروں، ہوٹلوں ، تفریحی مقامات پر بیٹھ کر ڈسکشن سے زیادہ عملی طور پر میدان میں آنا ہوگا جیسے کہ آج جمع ہوئے ہیں۔جناب حیدر عباس رضوی صاحب نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو اسنارِ کل میں سوار کراکر ریلی کے شرکاء کا جائزہ کرایا۔ یوں انہیں بھی انسانی سمندر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آیا ، وہ جلسہ کے اختتام تک وہاں موجود رہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
صدا وطن کی ہار ایک سرحد پر گونجتی ہے اُٹھو کے تم کو وطن کی مٹی پکارتی ہے
Target Killing
آخر اس قوم کو دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں نے کیا دیاسوائے اس کے کہ بے قصور نوجوان، بچے، بوڑھے، خواتین شہادتیں نوش کرتی رہیں ، بے سکونی اور بد امنی کا راج جاری رہا، بچوں کو تعلیم کا نقصان اُٹھانا پڑا، مگر آج کی ریلی کے بعد یہ اُمید ہو چلی ہے کہ شاید یہ قوم جاگ چکی ہے، انہیں امن کی اشد ضرورت ہے، انہیں اپنے بچوں کی تعلیم اور محفوظ مستقبل کا خواب پریشان کر رہی ہے جبھی تو ” امن ‘ امن کی صدا ہر سُو پھیل رہی ہے۔ جلسہریلی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اچھوتا پروگرام تھا جسے ملک کے مقتدر حلقوں میں پذیرائی کے علاوہ رحمٰن بابا (سابق وفاقی وزیرِ داخلہ) نے بھی سراہا ۔مگر جہاں اس ریلی کو سراہا جا رہا ہے وہیں کچھ قوتیں اس کے خلاف بھی ہیں ان کے لیئے غالباً یہ شعر ہی کافی ہے:
کانٹوں کو بچھا کر یار مرے گلشن کی توقع رکھتے ہیں شعلوں کو ہوائیں دے دے کر ساون کی توقع رکھتے ہیں
ہماری نوجوان نسل جنہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے،اس جراثیم نے چہار جانب سے اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھا ہے، دہشت گردی کی بد بو دار ہوائوں نے ان کا سکھ چین چھین لیا ہے، اب اس نوجوان نسل کو انتظار ہے بادِ نسیم کے جھونکوں کا کہ جس کا لطف لے کر انہیں نوکری مل سکے، انہیں امن و سکون میسر آ سکے، سماجی اور معاشرتی برائیوں سے چھٹکارا مل سکے، تاکہ یہ قوم اور اس کی نوجوان نسل پنپ سکے۔ملک کی ہوا حد درجہ کثیف اور زہریلی ہو چکی ہے، ہر طرف نفرتیں ہیں، ڈر و خوف ہے، اور اسے ختم کرنے کے لئے یہ ریلی کامیاب اُمید لے آئی ہے۔ڈر و خوف کے خطرناک آب و ہوا کو منجمد کرنے کے لئے یہ ریلی ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ملک کے دیگر جماعتوں کو بھی اس قسم کے پروگرام کے انعقاد پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ بات لکھنے میں مجھے کوئی قباحت نہیں کہ آج ہم جس طرح بٹے ہوئے ہیں اس طرح ہمیں کسی بھی قسم کی کامیابی نہیں مل سکتی، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب آپس کی تفرقے بازی کو بھول کر ایک پلیٹ فام پر جمع ہوجائیں۔ایک قوم بن کر محبتوں کے دیئے جلائیں، اب دیکھئے کہ اس ملک میں کب اور کیسے اس دن کا سورج نمودار ہوتا ہے۔