تحریر: سید انور محمود روف کلاسرا نے ایک مضمون ’’ بھٹو کو قتل کس نے کیا؟‘‘ لکھا تھا، اس مضمون میں کلاسرا لکھتے ہیں کہ بھٹو کو پھانسی سے قبل پتہ چلا ان پر جنرل ضیاء کے وائٹ پیپر میں سنگین الزامات لگائے ہیں۔ دھاندلی سے بھی بڑا الزام یہ تھا بھٹو کرپٹ ہے۔ بھٹو نے کاغذ قلم ڈھونڈ کر ان الزامات کا جواب لکھنا شروع کیا تاکہ تاریخ میں ان کا مؤقف زندہ رہے اور پیپلز پارٹی اور عوام ان کا دفاع کرنے میں شرمندگی محسوس نہ کریں کہ ان کا لیڈر کرپٹ تھا ۔ یوں جیل کی ان طویل اور تاریک راتوں میں لکھے گئے وہ نوٹس بعد میں ’اگر میں قتل کردیا گیا‘ کتاب کی شکل میں سامنے آئے‘‘۔ بتانا یہ ہے کہ جس شخص کو پھانسی ہونے والی تھی وہ چونکہ کرپٹ نہیں تھا اس لیے اس نے اپنی پھانسی کی فکر بلکل نہیں کی۔ بلکہ کتاب لکھ کر تحریری طور پر یہ ثبوت چھوڑ گیا کہ اس میں دوسری برائیاں تو شاید ہوں لیکن وہ ایک کرپٹ انسان بلکل نہیں ہے اور آج بھٹو کی بدترین سیاسی مخالفت کرنے والے بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔لیکن دوسری طرف پاناما پیپر کیس کے بعد نواز شریف کے مخالف تو کیا انکے حامی بھی یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کرپٹ نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پندرہ جون2017 کو وزیراعظم نوازشریف کو بطور گواہ طلب کیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف سے جے آئی ٹی تین گھنٹے تک پوچھ گچھ کرتی رہی۔ نواز شریف سے کیے گئے سوالات کا تعلق لازمی پاناما پیپرکیس سے ہی ہوگا جس میں لندن کے فلیٹ سرفہرست ہونگے۔ اس سے پہلے اسی جے آئی ٹی کے پاس نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز پانچ جبکہ حسن نواز دو مرتبہ پیش ہوچکے ہیں، جے آئی ٹی نے نواز شریف کے بھائی شہباز شریف، داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور سمدھی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما رحمان ملک کو طلبی کے سمن بھی جاری کررکھے ہیں۔جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد نواز شریف نے صحافیوں کے سامنے ایک تحریری بیان پڑھا، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جے آئی ٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کر دیا ہے، اپنا بیان پڑھنے کے بعد وہ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کا کوئی سوال سننے بغیر واپس وزیراعظم ہاوس چلے گئے۔اپنے تحریری بیان کومیڈیا کے سامنے پڑھتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قانون کی سربلندی کےلیے آج کا دن سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے، آج انہوں پائی پائی کا حساب دے دیا ہے، میری حکومت اور خاندان نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے۔میری پیشکش کو سیاسی تماشوں کی نذر نہ کیاجاتا تو آج تک یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ زمانہ گیا جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا، اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جاسکتے، جو کچھ ہورہا ہے اس کا کرپشن یا خوردبرد سے کوئی تعلق نہیں، ہمارے خاندان اور ذاتی کاروبار کو اچھالا اور الجھایا جارہا ہے۔ ہمارا احتساب 1972 سے ہورہا ہے۔
نواز شریف اپنے تحریری بیان میں عمران خان یا زرداری کا نام لینے کی شاید ہمت نہیں کرپائے اس لیے انہوں نے سابق صدر جنرل پرویزمشرف پر اپنا غصہ اتارتے ہوئے کہا کہ ’’ مشرف نے مجھ پر جعلی طیارہ سازش کیس بنوایا اور ہمارے گھروں پر قبضہ کیا۔ ایسا کوئی خاندان ہے اس ملک میں جس کی تین نسلوں کا بے رحمانہ احتساب ہوا ہو۔مشرف کی آمریت میں ہمارا بے دری سے احتساب کیا گیا۔ چند دن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ آجائے گی۔ عوام کی جے آئی ٹی ہمارے حق میں فیصلہ دے گی‘‘۔ مطلب اگلے سال ہونے والے انتخابات میں عوام انہیں ہی کامیاب کرواینگے۔کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے اس تحریری بیان سے ظاہر ہوتا ہے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر نواز شریف نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے، وہ اب جارحانہ موڈ میں ہیں ، اس لیے ہی انہوں نے فوج اور عدلیہ کو کٹھ پتلیوں کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ جبکہ کچھ دوسرئے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ ایک نورا کشتی ہے جس میں عدلیہ اور فوج دونوں شامل ہیں۔
نواز شریف کس قدر قانون کی سربلندی کا خیال رکھتے ہیں اس کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا پڑئے گا۔ 1993 میں نواز شریف وزیراعظم تھے تو اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ تھے، دونوں کے درمیان اختلافات ہوئے اور جب اُن کی چپقلش عروج پر پہنچ گئی تو نواز شریف نے گوہر ایوب سے فرمائش کی تھی کہ وہ ان کو کوئی ایسا طریقہ بتادیں کہ وہ ایک رات کے لیے چیف جسٹس کو گرفتار کرکے جیل بھیج سکیں، ایسا تو نہ ہوسکا مگر جب 28 نومبر 1993 کو سپریم کورٹ کا ایک فل بینچ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدموں کی سماعت کررہا تھا اور سماعت اختتامی مرحلے میں تھی کہ سپریم کورٹ کی راہداریوں سے شور بلند ہونا شروع ہوا۔اچانک دو صحافی کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ ایک صافی نے بلند آواز میں کہا ’مائی لارڈ وہ آ رہے ہیں‘۔ اس کے بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف کے وکیل ایس ایم ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’تھینک یو شاہ صاحب اور عدالت برخاست ہوگئی‘۔چند منٹوں کے بعد سینیٹر سیف الرحمن کی قیادت میں ایک مشتعل ہجوم عدالت میں داخل ہوگیا اور سپریم کورٹ کے مخصوص ججوں کے خلاف نعرے بازی شروع کردی، اس ہجوم میں اداکار طارق عزیز بھی شامل تھے۔ یہ وہی بدنام زمانہ سپریم کورٹ پر حملہ تھا جس کا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ اس حملے کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں دو متوازی عدالتیں لگیں ایک کی قیادت چیف جسٹس سجاد علی شاہ کررہے تھے اور دوسری عدالت کی قیادت جسٹس سعید الزمان صدیقی کررہے تھے۔ بعد میں نواز شریف کی خواہش پر جسٹس سجاد علی شاہ کو گھر بھیجنے کے لیے جسٹس سعید الزمان صدیقی ان کے کام آئے۔
نواز شریف کے اپنے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہماری تین نسلوں کا احتساب کیا گیا ہے، ہمارے خاندان اور ذاتی کاروبار کو اچھالا اور الجھایا جارہا ہے۔ ہمارا احتساب 1972 سے ہورہا ہے‘‘۔ 1972 میں شریف خاندان کی صرف ایک فیکٹری اتفاق فاؤنڈری بھٹو حکومت نے سرکاری تحویل میں لی تھی۔ شریف خاندان اس وقت پاکستان کے 22 امیر خاندان میں شمار نہیں ہوتا تھا، جبکہ 22 امیر خاندان میں سے ولیکا خاندان جس کا بہت سے شعبوں میں کام تھا کافی کاروبار کو بھٹو حکومت نے سرکاری تحویل میں لے لیا تھا، جن میں سیمنٹ، انشورنس، جہاز رانی قابل ذکر ہیں۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں نواز شریف کے والد میاں شریف نے چکر چلاکر اتفاق فاؤنڈری کو واپس لے لیا اور یہاں سے شریف خاندان کی سیاست میں شمولیت کا آغاز ہوا۔ میاں شریف نے پانچ سو روپے قرض لے کر جو لوہے کی بھٹی لگائی تھی اس نے بعد میں بڑھتے بڑھتے فولاد کی اتفاق فاؤنڈری کی شکل اختیار کرلی اور اتفاق گروپ بن گیا جس نے ٹیکسٹائل اور کاغذ کے کارخانے بھی قائم کیے۔ نواز شریف کا یہ شکوہ بلکل بے جا ہے کہ انکی تین نسلوں کا احتساب ہورہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انکی تین نسلوں نے پاکستان کو لوٹا ہے اس لیے ان کا اور انکے خاندان کا بے رحمانہ احتساب ہونا چاہیے۔
نواز شریف کے والد میاں شریف جوڑ توڑ کے ماہر تھے اس لیے وہ فوجی جنرلوں کو بھی خریدنے کی کوشش کرتے تھے ، جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل پرویز مشرف کو بھی خریدنے کی کوشش کی گئی لیکن دونوں نے بکنے سے انکار کردیا تھا۔ یہ نواز شریف کا دوسرا دور تھا، میاں شریف زندہ تھے جب نواز شریف نے ان سے مشورہ کرکےسری لنکا سے آنے والے پی آئی اے کے اس طیارئے کو پاکستان میں اترنے سے روکا جس میں جنرل مشرف سوار تھے، اس طیارئے کو فوج نے کراچی ایرپورٹ پر اپنی نگرانی میں اتارا تھا، جبکہ اس جہاز کے کپتان کے مطابق جہاز میں اترنے سے پہلے صرف آٹھ منٹ کا تیل باقی تھا۔ آج نواز شریف اور ان کا پورا خاندان یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے وہ کرپٹ نہیں حاجی ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف جس کا ذکر نواز شریف نے اپنے تحریری بیان میں کیا ہے ، جب وہ یہاں موجود تھے تو نواز شریف میں اتنی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ وہ ایک رات مشرف کو حوالات میں بند کردیتے، ہاں ان کے وزیر داخلہ کو اس بات کی ضرورجلدی تھی کہ مشرف جلد از جلد پاکستان سے چلے جایں۔ نواز شریف شکر کریں کہ مشرف ان کے روحانی باپ ضیاءالحق کی طرح وحشی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کے کمرئے کے باہر شاید کسی عدالتی ہرکارئے نےکوئی آواز تو نہیں لگائی ہوگی، لیکن جو بھی نواز شریف کو جے آئی ٹی کے ممبران کے سامنے حاضر ہونے کے لیے بلانے آیا ہوگا لازمی اس نے کچھ نہ کچھ تو کہا ہوگا جس کا عدالتی زبان میں آپ جب بھی ترجمہ کرینگے جو یہ ہی ہوگا کہ ’’ملزم نواز شریف حاضر ہو‘‘۔