اسلام آباد (جیوڈیسک) سنگین غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت میں چلے گا یا آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں، خصوصی عدالت کی تشکیل اور مقدمے کا اندارج درست ہے یا نہیں اور ججز متعصب ہیں کہ نہیں، ملزم پرویز مشرف کی درخواستوں پر فیصلہ آج سنایا جائے گا۔ وفاقی حکومت کے مجاز افسر کی شکایت پر ملزم پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ 23 ویں سماعت پر 18 فروری کو ملزم پرویز مشرف کو سخت حفاظتی حصار میں اسپتال سے عدالت میں لایا گیا۔
اسی روز انور منصور خان نے مقدمہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالت میں چلانے، خصوصی عدالت کے دو ججز پر متعصب اور جانبداری کے الزامات اور عدالت کی تشکیل اور ججز کی نامزدگی پر اعتراضات کے حوالے سے پونے دو ماہ جاری رہنے والے دلائل مکمل کیے۔ استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے ملزم پرویز مشرف کے وکلاء کے اعتراضات پر جوابی دلائل دیتے ہوئے موقف اختیا ر کیا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل ججز کی نامزدگی قانون کے مطابق ہے جب کہ تعصب کے حوالے سے فیصلہ ججز نے خود کرنا ہے۔
استغاثہ کے وکلاء کا موقف ہے کہ مقدمہ فوجی عدالت کو منتقل کرنے کے حوالے سے پرویز مشرف کے وکلاء نے آرمی ایکٹ کے جس قانون کا حوالہ دیا ہے اعلی عدالتیں اس قانون کو غیر ائینی قرار دے چکی ہیں اور اس کی تنسیخ کا نوٹیفکیشن سابق فوجی حکمران ضیاالحق کے دور میں جاری ہو چکا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں آئین کی پامالی پر پہلی بار کسی فوجی حکمران کے خلاف سنگین غداری کے اپنی نوعیت کے پہلے مقدمے کے حوالے سے جسٹس فیصل عرب، جسٹس طاہرہ صفدر اور جسٹس یاور علی خان پر مشتمل خصوصی عدالت کا جمعہ کے روز سنایا جانے والا فیصلہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کا مستقبل طے کرے گا۔