اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیرمملکت اور نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے کہا کہ حکومت خسارے میں چلنے والے پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے کیونکہ حکومت کو انھیں چلانے کے لیے تقریباً 600ارب روپے سالانہ ادا کرنا پڑتے ہیں تاہم نجکاری کے پیچیدہ طریقہ کار، سیاسی پارٹیوں کی مخالفت اور دیگر عناصر کی وجہ سے ان اداروں کی نجکاری حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے پر کاروباری برادری سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں، میڈیا اور دیگر اسٹیک ہولڈرز خسارے والے اداروں کی نجکاری کرنے میں حکومت سے تعاون کریں کیونکہ ان کی نجکاری قومی مفاد میں ہے، ان میں اصلاحات لا کر نجکاری کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہے ، نجکاری پروگرام کو پوری طرح عملی جامہ پہنانے کے لیے مضبوط اور فیصلہ سازی میں خودمختار نجکاری کمیشن کی ضرورت ہے، اس وقت 69 سرکاری کمرشل ادارے نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں، ان اداروں کو قائم کرنے کا مقصد عوام کو اعلیٰ معیار کی سروسز فراہم کرنا تھا تاہم یہ ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے بلکہ قومی خزانے پر بوجھ بن گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نجکاری ضروری ہے تاہم نجکاری کا طریقہ کار بہت پیچیدہ اور طویل ہے کیونکہ کسی پبلک سیکٹر ادارے کی نجکاری کے لیے کم از کم 2سال کا عرصہ درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کو پائیدار اقتصادی ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے حکومت کو غیرمقبول اور سخت فیصلے لینا ہوں گے۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ منصوبے کے تحت 2018تک پاکستان میں 10ہزار میگاواٹ بجلی کا اضافہ اور مغربی روٹ کے نامکمل کام کو مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس ریونیو کو بہتر کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات کمیشن نے اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے دی ہے جن کو جلد ہی پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ تاجر برادری خسارے والے اداروں کی نجکاری کے لیے تجاویز پیش کرے، جو تجاویز قوم کے وسیع تر مفادمیں ہوں گی حکومت ان کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔
استقبالیہ خطاب میں اسلام آباد چیمبرکے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے سمیت دیگر بڑے سرکاری کمرشل ادارے حکومت پر بوجھ ہیں کیونکہ حکومت کو ہر سال ان اداروں کو اربوں روپے مالی امداد دینا پڑتی ہے جس سے نہ صرف ترقیاتی منصوبے بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے کام بھی متاثر ہوتے ہیں، حکومت ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے بصورت دیگر پرائیویٹائز کرنے کی کوشش کرے، ان اداروں کو منافع بخش بنانے کے لیے حکومت تجربہ کار تاجروں سے مشاورت کر کے نجکاری کی جامع حکمت عملی وضع کرے اور ایسے اداروں میں بیسٹ بزنس پریکٹیسز متعارف کرائے، حکومت کامیاب اور تجربہ کار بڑے کاروباری افراد کو بھی انتظامیہ میں شامل کر کے ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنا سکتی ہے۔