تحریر: محمد شعیب تنولی میرے دوست مجھے بتا رہے تھے کہ انہوں نے کس طرح دوسروں کی خرابیوں کے بجائے اپنے عیوب کو دیکھنا شروع کیا۔ وہ کہنے لگے کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز پر میں نے ایک دفتر میں ملازمت کی۔ اس دفتر میں دوپہر کا کھانا میں دوسرے ساتھیوں کے ہمرا ہ کھاتا تھا۔ کھانے کے وقت اکثر ہمارے ساتھ ایک چپراسی (Peon) آ کربیٹھ جایا کرتا تھا۔ یہ ایک غریب آدمی تھا جس کی تنخواہ بمشکل 1500 روپے تھی۔
دیگر لوگ تو اپنا کھانا گھر سے لاتے تھے، مگر یہ صاحب اپنے گھر سے صرف دو روٹی لے آتے۔ لوگ کھانے کے لیے بیٹھتے یہ دو روٹی لے کر آجاتے اور کسی کے بھی سالن سے یہ روٹیاں کھانا شروع کر دیتے. لوگ اکثر ان کے ساتھ بیٹھنے پر ناگواری کا اظہار کرتے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب یہ کھانا کھاتے تو منہ سے چپ چپ کی آوازیں آتیں جو کھانا کھاتے وقت بہت گراں گزرتیں۔
وہ اکثر میرے ہی ساتھ کھانا کھاتے کیونکہ میں نے چہرے پر کبھی ناگواری کے تاثرات کا اظہار نہیں کیا تھا، مگر دل میں مجھ پر بھی ان کا اپنے ساتھ بیٹھنا بہت ناگوار گزرتا تھا۔ حتیٰ کہ دفتر میں میرا کھانا کھانا دوبھر ہوجاتا۔ لیکن ایک روز میرے ذہن میں ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ایک خیال آیا۔
Disobey
وہ خیال یہ تھا کہ اس وقت جتنی زیادہ کراہیت مجھے ان کی اس آواز سے ہورہی ہے، اس سے کہیں زیادہ کراہیت اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک فرشتوں کو مجھ سے اس وقت محسوس ہوتی ہوگی جب میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں۔ لیکن کبھی اس نے مجھے رزق کی نعمت سے محروم کیا اور نہ نماز میں اپنی قربت سے دور کیا اس کے بعد مجھے کبھی ان کا ساتھ بیٹھنا برا نہیں لگا۔ پھر انہوں مجھ سے کہا کہ دنیا میں دوسروں کو برا سمجھنا بہت آسان ہے۔ اس لیے کہ ان کی خامیاں بغیر کوشش کے نظر آجاتی ہیں ۔ مگر اپنی خامیوں کا احساس کرنے کے لیے ایک خاص نظر چاہیے۔ یہ نظر جس میں پیدا ہو گئی وہی خدا کا بندہ ہے۔ جس میں نہ ہوسکی وہ اپنی ذات کا بندہ ہے۔