انسان خطاؤں کا ایک پتلہ ہے جس کا کام ہی غلطیاں کرنا، ان پر احساس ندامت اور پھر خدا سے معافی کی امید رکھنا ہے،انسانی زندگی کی کتاب کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ہر ورق کوتاہیوں کا ایک مجموعہ ہے کہیں حقوق اللہ پورے نہیں کیے تو کہیں حقوق العباد میں کوتاہی ہوگئی اور بعض اوقات گناہوں کی اس پاداش پر چلتے چلتے ہم اس حد تک پہنچ جاتے ہیں جہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور ہمارا اللہ ہوتا ہے، اور پھرہم رحمت خداوندی سے امیدوں کا دامن جوڑ لیتے ہیں کہ وہ ہمارے تمام گناہوں کو معاف کردے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہزاروں کروڑوں نعمتوں سے مالا مال کیا ہے، مگرہم ان نعمتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے کفران نعمت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امیدیں لگاتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بیشک معاف کردینے والی اللہ کی ذات ہے مگر خدا تعالی بھی انسان کو آزمائش میں ڈالتا ہے ، ہم گنا ہ پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ ہماری رسی دراز کیے چلے جاتا ہے ، ہمارے چھوٹے بڑے گناہ معاف کرتا چلاجاتا ہے،دنیا بھر کی آسائشوں سے ہمیں مالا مال کرتا ہے ہر دکھ پریشانی سے ہمیں نجات دلاتا ہے ، او ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا اللہ ہم سے بہت خوش ہے ، حالانکہ وہی ہمارا امتحان ہوتا ہے ہماری آزمائش ہوتی ہے کہ ہم ہزاروں کروڑوں نعمتوں کو پا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں یا اس کی ناشکری کرتے ہوئے گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ گمان کرلیتے ہیں کہ ہم جو مرضی کرتے رہیں ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی ہمارا حساب لینے والانہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے اور دنیا و آخرت کے امتحان میں سر خرو ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا موازنہ ان لوگوں سے کریں جو زندگی کی بنیادی سہلولیات سے بھی محروم ہیں ،ہر نعمت خداوندی پر اللہ کا شکر ادا کریں اور سب نعمتوں میں سب سے اہم ہمارا رزق ہے جس کا تعلق انسانی بقا اور زندگی سے ہے ، ہر انسا ن کا رزق اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، کھانے پینے کی ہزاروں نعمتوں سے ہم مالا مال ہیں مگر ہم میں سے بہت سے لوگ رزق سامنے رکھ کر اس کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے ہیں، پسند نا پسند کا کھلم کھلا اظہار کیا جاتا ہے اور پھر وہی رزق کوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے، رزق کی بے قدری کے معاملے میں اکژ بڑے بچوں سے بھی سبقت لیے ہوتے ہیں، رزق ضائع کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج جس رزق کی وہ قدر نہیں کر رہے کل کو یہ نعمت ان کے پاس سے چلی گئی تو وہ کیا کریں گے۔
Drought
رزق ضائع کرنے کی بہترین مثال شادی بیاہ کے موقعوں پر اور ریسٹورینٹس میں بوفے پر دیکھی جاسکتی ہے جہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی بھانت بھانت کے کھانوں سے پلیٹیں بھر لیتے ہیں اور آخر میں وہ سب کھانا کوڑے دانوں کی نظر ہو جاتا ہے،اتنی زیادہ مقدار میں رزق ضائع کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اردگرد کتنے افراد ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے، کتنے ہی چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلک بلک کر سوئے ہوں گے۔ ایک برطانوی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں مکمل غذائی اجناس کا نصف حصہ سالانہ ضائع ہوجاتا ہے، پوری دنیا میں سالانہ تقر یباً دو ارب ٹن غذا کوڑے دانوں کی نظر ہو جاتی ہے۔
اگرہم تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تودنیا کے کتنے ممالک اس وقت خوراک کی قلت کا شکار ہیں ، بہت سے ممالک میں قحط سالی کا دوردورہ ہے ،جن میں ایتھوپیا، سومالیہ،سوڈان، یوگینڈا،انڈیا، موروکو اور پاکستان بھی شامل ہیں،یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ایتھوپیا میں ۶۰ میں سے ۸ ملین افراد شدید قحط سالی کا شکار ہیں اور ان میں سے ۴.۱ ملین تعداد بچوں کی ہے جن کی عمریں ۵ سال سے کم ہیں، اسی طرح پاکستان میں ۳ ملین افراد خوراک کی قلت کا شکار ہیں ،دنیا بھر میں قحط سالی کی وجہ سے ۱۹۰۰ سے اب تک ۱۱ ملین لوگوں کی جان جا چکی ہے اور ۲ ملین افراد ابھی بھی قحط سالی سے شدید متاثر ہیں ،افریقہ پچھلے ۱۲ سال سے قحط سالی کا شکار ہے۔،اسی طرح ۲۰۱۰ میں روس تاریخ کی سب سے بد ترین قحط سالی کا شکار ہوا جس نے وہاں کے ماحولیات، انسانی صحت اور معیشت پر بد ترین اثرات مرتب کیے۔
یہ سب خدا کی قدرت کے نظارے ہیں کہ کہیں تو نعمتوں کے انبار ہیں اور کہیں لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اپنے بندوں کا مختلف طریقوں سے امتحان لیتا ہے ، ہمیں چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچیں اور اللہ کا شکر ادا کریں جیسا کہ قران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’ اور اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا ‘ (سورہ ابراہیم)، کہیں یہ نہ ہو کہ روز قیامت ہماری یہی کوتاہیا ں جو ہمارے نامہ اعمال میں شامل ہورہی ہیں ہماری پکڑ کا سبب بن جائیں، ہمیں چاہیے کہ استغفار کو اپنے معمو لات کا حصہ بنا ئے رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں کہ وہ غلطیا ں جو ہم سے سرزد ہوچکی ہیں استغفار کی بدولت وہ انہیں معاف کردے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ’جو شخص ہمیشہ استغفار(اللہ سے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا) کرتا رہے اللہ ہر قسم کی تنگی سے نکلنے کی راہ اس پر کھول دے گااور ہر غم و فکر سے اسے نجات بخشے گااور اسے ایسی جگہ سے رزق عنایت فرمائے گاجس کا اسے وہم و گماں بھی نہ ہوگا۔
Discarded Sustenance
ایک طرف سوچے سمجھے بغیر رزق ضائع کیا جارہا ہے تو دوسری طرف بھوک سے لوگ مر رہے ہیں، یہ کفران نعمت نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہمیں ڈرنا چاہیے اس وقت سے جب اللہ تعالیٰ اپنی رسی کھینچ لے اورہمارے رزق میں کمی کردے یا خدانخواستہ ہمارا رزق اٹھا نہ لیا جائے، میں نے اپنے اردگرد ایسی بیش بہا مثالیں دیکھیں اور اپنے بڑوں سے بھی سنا ہے کہ جو رزق کی قدر نہیں کرتا ، رزق بھی اس سے روٹھ جاتا ہے، وہ گھر جہاں رزق ضائع کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ ان گھروں سے برکت ختم کر دیتا ہے۔