واشنگٹن (جیوڈیسک) سوئیڈن میں پولیس اس 39 سالہ ازبک شہری سے تفتیش میں مصروف ہے جس کے بارے میں حکام کو شبہ ہے کہ وہ جمعے کو دارالحکومت اسٹاک ہوم کے ایک مصروف کاروباری علاقے میں ایک چوری شدہ ٹرک سے چار افراد کو کچل کر ہلاک کرنے میں ملوث ہے۔
سوئیڈش حکام کے مطابق مذکورہ شخص کا تعلق ازبکستان سے ہے جسے واقعے کے بعد اسٹاک ہوم کے نواح سے حراست میں لیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق سوئیڈش انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس گرفتار شخص کا ڈیٹا پہلے سے موجود تھا لیکن اس کے خلاف واقعے سے قبل کوئی تحقیقات نہیں کی جارہی تھیں۔
سوئیڈن پولیس کے سربراہ ڈین ایلیاسن نے ہفتے کو صحافیوں کو بتایا کہ اب تک دستیاب شواہد کے مطابق گرفتار شخص ہی واقعے کا ذمہ دار ہے اور جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں پولیس کو اس شخص کے ملوث ہونےسے متعلق مزید شواہد مل رہے ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ تاحال پولیس یہ نہیں جانتی کہ جمعے کو ہونے والے حملے میں ملزم کو دیگر افراد کی مدد بھی حاصل تھی یا اس نے یہ کارروائی تنِ تنہا انجام دی۔
ڈین ایلیاسن نے بتایا کہ اسٹاک ہوم حملے اور 22 مارچ کو لندن میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے میں بڑی حد تک مماثلت ہے جس میں ایک برطانوی شہری نے برطانوی پارلیمان کے نزدیک دو شہریوں اور ایک پولیس اہلکار کو ٹرک سے کچل کر ہلاک کردیا تھا۔
واقعے میں 40 کے لگ بھگ افراد زخمی بھی ہوئے تھے اور حملہ آور بعد ازاں پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا تھا۔
لندن حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی البتہ اسٹاک ہوم میں ہونے والے حملے سے متعلق تاحال کسی دہشت گرد گروہ کا کوئی دعویٰ منظرِ عام پر نہیں آیا ہے۔
جائے واقعہ کی تصاویر سے پتا چلا ہے کہ اسٹاک ہوم حملے میں استعمال ہونے والا ٹرک شراب بنانے والی ایک مقامی کمپنی ‘اسپین ڈرپس’ کی ملکیت تھا۔ کمپنی کے مطابق ٹرک کو حملے سے کچھ دیر قبل ہی چھینا گیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور نے پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص اسٹاک ہوم کی مصروف ترین سڑک ڈروٹن گیٹن پر اندھا دھند ٹرک دوڑاتے ہوئے اسے وہاں واقع ایک مصروف ڈپارٹمنٹل اسٹور کے مرکزی دروازے سے ٹکرادیا تھا۔
حملے میں چار افراد ہلاک اور کم از کم 15 زخمی ہوئے تھے۔ حملے کےبعد اسٹاک ہوم کے مرکزی ریلوے اسٹیشن کو لوگوں سے خالی کرالیا گیا تھا جب کہ جائے واقعہ کے آس پاس کی عمارتوں کو تلاشی کی غرض سے کئی گھنٹوں تک بند رکھا گیا۔
پولیس کے مطابق واقعے کے بعد سرحدوں کی نگرانی بڑھادی گئی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے کئی ملکوں نے حملے کی مذمت کی ہے۔