تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری چوہدری صاحب ہی دوسرے چوہدری کو چوہدری کہہ کر پکارے گا اسی طرح سے برادریوں میں بھی اگر کوئی گِل یا وِرک ہے تو یہی کہے گا کہ گل صاحب کیا حال ہے اگر کوئی کسی کو بھنگی کہے گا تو تبھی نہ! کہ وہ خودبھی بھنگی ہی ہو گاہمیشہ کی یہی روایت رہی ہے۔ بھنگیوں کی کسی نے طاقت دیکھنی ہے تو سنیں ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ملتان میں ملک کریم بخش ڈیرہ اڈا میں فردوس ہوٹل کے مالک تھے۔انہوں نے قلعہ کہنہ قاسم باغ پرکیفے کارپوریشن سے کرائے پر لے رکھی تھی۔ گورنر ملک غلام مصطفےٰ کھر کا دور تھااور یہ ٹھہرے ان کے ذاتی دوست ،برادری اور عزیز ہونے کے بھی دعویدار ۔کئی سال تک کرایہ نہ دیا ملتان کارپوریشن والوں نے کیفے خالی کرانے کا پروگرام بنایااور سارا عملہ بمعہ بھنگیوں کے اکٹھا کیا۔ملک کریم بخش کو بھی اسکی بھنک پڑ گئی وہ ٹھہرے قبضہ مافیا گروہ کے سرغنہ انہوں نے سینکڑوں مسلح غنڈے اکٹھے کرکے بٹھا دیے جو نہی سرکاری بھنگی ،بیلدار و دیگر عملہ بمعہ افسران پہنچا غنڈے ان پر پل پڑے ۔تقریباً سبھی کو زخمی کیااور قلعہ کی اونچائی سے قلا بازیاں کھاتے ہوئے ملازم بھاگ نکلے۔
اب کرنا کیا تھا سارے بھنگی اور ملازموں نے ہڑتال کرڈالی ملک کریم بخش گورنر ہائوس میں جاچھپا۔کوئی حربہ کارگر نہ ہورہا تھابھنگیوں نے گند کے بھرے ٹرک ڈیرہ اڈا اور فردوس ہوٹل کے قرب میں ڈھیر کردیے اور اس کی ذاتی محل نما کوٹھی ممتازآباد کے باہر بھی ڈھیر کردیے ۔اندرون شہر ملتان تو بدبو کے وہ بھبوکے اٹھے کہ (الآمان و الحفیظ )تقریباً چھوٹی چھوٹی گلیوں والا اندرون شہرپورا خالی ہو گیا ۔بالآخر ملک کریم بخش نے معافی مانگی ہاتھ جوڑے پائوں پکڑے تو معافی تلافی ہو سکی بھنگی بہت طاقتور طبقہ ہے اس پر بھبتی کسنا کسی صورت نہیں بنتا۔وہ غیرت کھاکر اگرنائن زیرو کراچی کے ارد گرد بیس بھرے ہوئے ٹرک ذرا”خالص “مال کے پھینک دیںتودفتر صاحب کہاں نظر آئیں گے۔ایک اور خطرہ بھی لگتا ہے کہ الطاف صاحب بہادر نے پولیس کی کالی وردی دیکھ کر رائو کو بھنگی کہا ہے اور ہم کیوں جانیںکالی وردی والی پولیس جانے اور وہ جانیں۔
کہتے یہی ہیں کہ آسمان پر تھوکا منہ پر آتا ہے اب بار بار اپنا تھوکا چاٹنے کی اور معافیاں مانگنے کی بات الطاف صاحب کی ہی عادت بن چکی ہے ۔کبھی کسی بھنگی نے معافی نہیں مانگی بلکہ ملتان کے جاگیردار نے ہی اپنی غلطی پر معافی مانگی پھر کون بہتر اور زیادہ طاقتور ہوا ۔مگر اب وہ اعلیٰ سول سروسز پولیس اور افواج پاکستان کی توہین ہی نہیں کرتے بلکہ گالم گلوچ تک آ پہنچے ہیں۔خدا سب دیکھ رہا ہے اصل فیصلہ تو اوپر سے ہی آئے گا مگر دنیامیں کچھ پردہ نشیں جانتے ہیں کہ آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟آج وہ دور ہے کہ آپ کنجر کو بھی کنجر کہہ نہیں سکتے۔آپ اس کے گھر اپنا مطلب نکالنے ہی کیوں نہ گئے ہوں چوہدری صاحب یا چوہدرانی صاحبہ ہی کہنا پڑے گا ۔اور آپ ہیں کہ بھنگی نہ ہوتے ہوئے بھی آپ بھنگی کہہ کر پکار رہے ہیں۔حتیٰ کہ گھر کے خادم اور خادمہ کو بھی تربیت یافتہ گھروں میں ہمیشہ ماما ، چاچا ، خالہ یا باجی کہہ کر پکارتے ہیں۔ آپ چونکہ یونیورسٹی دور کے ہلہ گُلہ کی پیداوار ہیں اس لیے آپ جو منہ میں آئے کہہ ڈالتے ہیں۔جب ہمارے ہاں در آمد شدہ فلش سسٹم نہ تھاتو سبھی گھروں میں بھنگی آج کا جمعداریا خاکروب سب سے بڑی ضرورت ہوتا تھا۔
Altaf Hussain
ہم رفع حاجت دونوں طرف بڑی دو، دو اینٹوں پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے۔ جسے روزانہ اس وقت کے بھنگی جمعدا ر اٹھا کر لے جاتے تھے ۔ اس وقت کے بھنگی حتیٰ کہ آج کے جمعدار بھی الطاف حسین کے پیروکاروں کی طرح ایکسپرٹ نہ تھے اور نہ ہوسکتے ہیں ۔اس لیے وہ ہر صورت کمین اور کم ترین ہی کہلائیں گے ۔ان کو گھٹنوں میں ڈرل مشینوںسے سوراخ کرنے ، بھتہ خوری اور ادائیگی نہ کرنے کی صورت میںجلا ڈالنے ، قتل و غارت گری ،بوری بند لاشوں کے تحفوں کے پارسل کرنے کا فن،آہی نہیں سکتا۔اسلامی اصولوں کے مطابق آپ کسی وقت حتیٰ کہ جذبات میں آکر بھی گالی گلوچ نہیں کرسکتے۔جو گالی دیتا ہے وہ اسی کی طرف پلٹ کر آجاتی ہے۔ہم کسی کی ماں بہن کو گالی دیں گے تو سمجھا جائے گا کہ آپ نے اپنی ماں بہن کو وہی الفاظ کہے ہیں ۔اس طرح جذباتی رنگ میں آپ کسی کا نام بگاڑیں گے ۔یا کسی بھی حالات میں کسی کو بھنگی کہیں گے تو صاف مطلب یہ ہو گا کہ آپ خود بھنگی ہیں یا اس کے گہرے دوست یا رشتہ دار ہیں ۔محنت کش تو خدا کا دوست ہوتا ہے اور آپ خدا کے دوستوں کو ہی گالیوں سے نواز رہے ہیں۔
خودمجھے سخت شرم آرہی ہے آپ کو شاید آئے کہ نہ آئے کہ غرورو تمکنت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ محنت کش (بھنگی)کو نیچ سمجھتے ہوئے پکارا اور للکارا جارہاہے ۔حالانکہ ہم زندہ ہی محنت کشوں کے بل پر ہیں بھنگی صفائی نہ کریںتو پورا ملک ہمہ قسم بیماریوں میں مبتلا ہو کرموت کی وادی میں اتر جائے ۔اگر محنت کش کسان اور مل مزدور کام نہ کریں تو زمینیںغذائیں اگلنا بند کردیں اور ملیں کپڑا نہ بن سکیں اور ہم بھوکے پیاسے الف ننگے پھرتے ہوں گے کیا ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں ۔کہ مزدورکے بچے اس کی تار تار کوترسیں ۔شاید اب بڑائی بڑے عالی شان محلات، کاروں کے نئے ماڈلوں اور فیشن زدہ برانڈڈ کپڑوں کی بنا پر سمجھی جاتی ہے اور بینک بیلنس بھی عزت کا نشان بن چکے ہیں مگر کبھی اچھاکلام ، گفتار ،میٹھا بول، چال ،ڈھال تحمل و بردباری اور علمی قابلیت میعار ہوتے تھے۔
پہلے محافظوں اور افواج کا دلی احترام کیا جاتا تھا مگر اب” دور دیگر است” کہ ان کے خلاف نعرہ زن اور تبرے بھیجنے والے بڑے لیڈر کہلاتے ہیں۔ خواہ وہ ڈر کے مارے دبک کر کسی سامراجی ملک کے پاس ہزاروں میل دور سینکڑوں پہروں میں ہی پڑے بڑھکیں لگاتے ہوںسب پاکستانی مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑ گڑائو کہ آئندہ اللہ اکبر تحریک اقتدار میں آجائے تاکہ ذاتوں کی اونچ نیچ ختم ہو جائے۔ذات پات برادری ازم وغیرہ کا مسئلہ مکمل دفن ہو کر مساوات محمدی کا نظام نافذ ہو جائے حتیٰ کہ اقلیتوں کے بھی حقوق سلب نہ ہوں اور کوئی بڑ اچھوٹا نہ رہے اور الطاف، عمران وشریف برادران وغیرہ کی اونچی پروازیں ختم ہو جائیں اور نچلے پسے ہوئے طبقات سے ان کی نفرتیں ختم ہو جائیں کہ ملک بھر کے عوام ان گھسے پٹے سیاستدانوں کی روز روز کی کھچ کھچ سے تنگ ہو کر بجنگ آمد ہیںکاش اقتدار اعلیٰ صرف خدا کو حاصل ہو اور انسانوں پر سے انسانوں کی خدائی مکمل طور پر دفن ہو جائے۔