آج کل الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں اور عوام کی نظریں حکومت پر جمی ہوئی ہیں کہ نگران وزیر اعظم کا عہدہ کس کے حصے میں آئے گا جو شفاف الیکشن کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ساتھ ساتھ تمام پارٹیاں اپنے کارکنوں کو الیکشن کے لیے سیاسی سر گرمیاں شروع کرنے کے حوالے سے رہنمائی کر رہی ہیں۔
اب اگر بات کی جائے کہ آئندہ الیکشن کے بعد کس پارٹی کی حکومت بنے گی تو اس کا اندازہ لگانا ابھی تھوڑا مشکل ہو گاکیوں کہ الیکشن میں ابھی کچھ وقت باقی ہے اور سیاسی لیڈران پارٹیاں بدلنے میں مصروف ہیں جبکہ مختلف پارٹیوں کے قائدین دوسری پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں ۔الیکش کے قریب ان ملاقاتوں کا متن دوسرے اراکین کو شمولیت کے لیے دعوت دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتاکیونکہ آج کل پارٹیاں بدلنے کا موسم ہے۔
شاہ محمود قریشی صاحب پاکستان پیپلز پارٹی کے بہت بڑے جیالے تھے لیکن ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر پارٹی قیادت سے تکرار کے بعد پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سونامی میں شمولیت اختیار کر لی۔انہی دنوں عمران خان صاحب نے مخدوم جاوید ہاشمی سے ملاقات کرنے کے بعد مسلم لیگ ن کی بھی ایک وکٹ گر ا دی۔اصل میں مینار پاکستان پر ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کے بعددوسری پارٹیوں سے تعلق رکھنے سیاسی رہنمائوں کی نظریں تحریک انصاف پر جم گئی تھیںاور اراکین دھرا دھر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے رہے کیونکہ اُن دنوں تحریک انصاف عروج پر تھی۔
اب کالم کے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ یہ محاورہ (میٹھا میٹھا ہپ ہپ،کڑوا کڑوا تھو تھو) کس پارٹی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔جس کا جواب پاکستان پیپلز پارٹی ہے جو اپنے جیالوں پر تو بڑی فخر کرتی ہے مگر جب جیالے پاڑٹی چھور جاتے ہیں پھر قیادت کو بڑا افسوس ہوتا ہے۔تقریباََ دو مہینے پہلے جہلم سے تعلق رکھنے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما راجہ محمد افصل اپنے دو بیٹوں(راجہ محمد اسد خان اور راجہ محمد صفدر خان) کے ہمراہ ن لیگ چھوڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر گئے جس سے ن لیگ کو ایک زبر دست دھجکا سا لگا۔
ان رہنمائوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر قمر الزمان قائرہ صاحب کا کہنا تھا کہ”یہ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے” اُن کے کہنے کا مطلب تھا کہ اصل جمہوریت اپنا رنگ دکھا رہی ہے کیونکہ دوسری پارٹیوں سے رہنما پاکستا ن پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔اب بات کرتے ہین پیپلز پارٹی کے اُن 9اراکین کی جنہوں نے قرآن پر لیئے گئے حلف کو توڑا اور مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے۔
Qamar Zaman Rana Babar
ابھی پچھلے دنوں ہی ان رہنمائوں کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ بینظیر اور پیپلز پارٹی سے وفاداری کا حلف لیا گیا تھا۔ان رہنمائوں میں عظمی بخاری،نشاد ،سردار تامل،رانا بابر،جمیل شاہ،منور غوث اور دیگر اراکین شامل ہیں۔ان اراکین کے پارٹی چھوڑنے پر پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان قائرہ نے ایک اور دلچسپ بیان دیا کہ” ان پارٹی اراکین نے پیپلز پارٹی کے ساتھ غداری کی ہے۔
اب اس بیان سے آپ اندازی خود لگائیں کہ جہلم سے تعلق رکھنے والے اراکین جو ن لیگ سے پی پی میں آئے انہوں نے تو جمہوریت چمکا دی اور جب پی پی سے رہنما ن لیگ میں گئے تو انہوں نے غداری کر دی ،واہ قائرہ صاحب اسی لیے تو کہتے ہیں نا”میٹھا میٹھا ہپ ہپ،کڑوا کڑوا تھو تھو۔حالیہ دنوں میں پاکستان مسلم لیگ ن عروج پر ہے۔دوسری پارٹیوں کے رہنما دھرا دھر ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیںاور ن لیگ میں شامل ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین نواز شریف اور شہباز شریف صاحب ہمیشہ میڑٹ کو ترجیح دینے والے دوسری پارٹیوں کے اراکین کو ٹکٹ کی لالچیں دے کر اپنی پارٹی میں شمولیت کے لیے رضا مند کر رہے ہیں اور کافی حد تک اپنے اس کام میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔میڑٹ سے یاد آیا پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما عبدلقیوم جتوئی نے نجی نیوز چینل کے ایک ٹاک شو میں اینکر جاوید چوہدری کے ایک سوال کے جواب میں کرپشن کو اپنا حق کہہ دیا۔اُن کا کہنا تھا کہ جو سیاستدان کرپشن نہیں کر رہا وہ اپنا نقصان کر رہا ہے۔اب سوچنے کی بات ہے کہ ایسے شخص کو مسلم لیگ ن میں کیسے جگہ مل گئی۔میاں بادران صاحب کہاں گیا آپ کا میڑٹ۔
پاکستان کی تاریخ میں ایک پارٹی نے ریکارڈ قائم کیا ہوا ہے کہ آج تک اس پارٹی کا ایک بھی رہنما پارٹی چھور کر کسی دوسری پارٹی میں نہیں گیااور یہ ریکارڈ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف جنگ کرنے والی پارٹی ایم کیو ایم کے پاس ہے جس آج تک نہ کوئی توڑ سکا ہے اور شائد نہ ہی آئندہ توڑ پائے۔ایسے رکارڈ کو آسانی سے توڑنا مشکل ہو نہیں نا ممکن بھی ہے کیونکہ عاپالیسیوں کی بدولت اراکین پارٹی چھور جاتے ہیں اسی لیے شبہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس کوئی خاص پالیسی یا تاٹِرک (Trick) ہے دوسری پارٹیوں کے پاس ابھی موجود نہیں۔
آخر میں عرض کرتا جائوں تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے لیے ایک تجویز دینا چاہوں گا کہ جب کسی دوسری پارٹی کارہنماآپ سے ملاقات کر کے آپکی پارٹی میں شمولیت کی درخواست کرے تب آپ اس کے ماضی کو ایک دفعہ ضرور دیکھ لیں کہ ماضی میں وہ کیسا تھااور یہ نہ ہو کہ وہ بھی کرپشن کو اپنا حق تسلیم کرنے والوں میں سے ہو۔