تحریر : عماد ظفر ترکی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد پاکستان میں موجود یتیم سیاستدان اور بوٹ پالشییے اینکرز اور تجزیہ نگاروں کو وقتی طور پر سانپ سونگھ گیا تھا.لیکن ڈھٹائی اور ہوس اقتدار کے لالچ نے ایک بار پھر ان مالشیوں کو اندھا کر دیا اور اب طیب اردوان اور نواز شریف کا تقابلی جائزہ پیش کر کے یہ مالشیے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان میں ایسی بغاوت کی صورت میں عوام نواز شریف کیلئے سڑکوں پر باہر نہیں نکلیں گے.محترم عمران خان نیازی نے تو حد ہی کر دی اور میر پور آزاد کشمیر میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ تک بول ڈالا کہ پاکستان میں اگر فوج آ جائے تو عوام مٹھائیاں تقسیم کریں گے اور جشن منائیں گے. عمران خان نیازی صاحب کے اس بیان سے ان کی سیاست میں ناکامی اور وزیر اعظم نہ بن سکنے کی محرومی واضح دکھائی دیتی ہے. جو اہم نکتہ عمران خان ، لال حویلی کا خود ساختہ “بوگس سقراط” اور حوالدار تجزیہ نگار سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ ہے کہ دیگر دنیا کی مانند پاکستان میں بھی عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے.
یہی وجہ ہے کہ 2014 میں دھرنے اور لانگ مارچ کی کال پر عوام نے باہر نہ نکل کر مارشل لا کی بیساکھیوں کے منتظر یتیم سیاستدانوں کو مسترد کر دیا تھا اور حوالدار اینکرز اور تجزیہ نگاروں کی توقعات پر پانی پھیر دیا تھا. اب چونکہ انتخابی میدان میں جیت ناممکن ہے اس لیئے فوج کو اکسایا جا رہا ہے کہ جمہوری حکومت پر شب خون مارا جائے. سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فوج کو اکسانا بھی ایک جرم نہیں ہے؟ حال ہی میں فوج کو ملک لے مختلف شہروں میں بینرز لگا کر مارشل لا کی دعوت دینے والے صاحب کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی تو وہ صاحب فورا ملک سے فرار ہو گئے. یہی قانون اگر دیگر سیاسی یتیموں اور پالشی اینکرز کے خلاف کیا جائے تو وطن عزیز میں یہ مصنوعی سیاسی بحران جو الیکٹرانک میڈیا کی سکرین تک محدود ہے اس کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے. وہ لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ فوج کو اکسا کر کوئی ماورائے آئین اقدام کروایا جا سکتا ہے ان کیلئے بری خبر یہ ہے کہ راحیل شریف نہ تو کسی بھی ماورائے آئین قدم اٹھانے کے حق میں ہیں اور نہ ہی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں. یقینا دفاعی ایسٹیبلیشمنٹ کا ایک حصہ نواز شریف مخالف ہے اور اس بات کا حامی ہے کہ نواز شریف کو گھر بھیجا جائے لیکن راحیل شریف کے منصب پر موجود رہتے ایسا ناممکن دکھائی دیتا ہے
Establishment
دوسری جانب سوشل میڈیا سول سوسائٹی نہ صرف متحرک ہیں بلکہ بہت باریک بینی سے پاکستان میں سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں.ایسے حالات میں خود سیسٹیبلیشمنٹ بھی کسی قسم کا ایڈونچر کرنے سے اجتناب برتنے میں ہی عافیت سمجھے گی. لیکن سوال یہ ہے کہ اس تناؤ کا اختتام کب ہو گا؟ نواز شریف بھی طیب اردوان کی مانند ابھی تک ماضی سے نجات نہیں حاصل کر پائے اور دفاعی ایسٹیبلیشمبٹ کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں.اسی طرح دفاعی اہسٹءبلیشمنٹ بھی ماضی کی تلخیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہرگز بھی نواز شریف کو دل سے قبول کرنے پر آمادہ نہیں. یہ عدم اعتماد اور سرد جنگ بطور مجموعی ملکی ترقی کیلئے کوئی اچھی بات نہیں ہے. اسی تناو اور عدم اعتماد کو لے کر عمران خان اور شیخ رشید جیسے سیاسی معذور اپنا گندا کھیل کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں. کہتے ہیں کہ ہر لڑائی کا ایک انجام ہوتا ہے اور یقینا اس سرد جنگ کا بھی انجام ضرور ہو گا.لیکن اس میں فاتح کون بن کر نکلے گا یہ دیکھنا باقی ہے.
وہ حضرات اور سیاستدان جو فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رکھنے یا کم سے کم ماورائے آئین اقدام سے دور رکھنے میں راحیل شریف کا بہت بڑا ہاتھ ہے کیونکہ راحیل شریف نے آرمی چیف بننے سے بہت عرصہ قبل فوج کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کیلئے ملٹری اکیڈمی میں گرانقدر خدمات انجام دی تھیں. یہ بات بھی یاد رکھنی چاھیے کہ یہی وہ بوٹ پالشییے اور سیاسی یتیم ہیں جو جنرل ریٹائرڈ کیانی کو پاکستانی تاریخ کا ذہین ترین جرنیل گردانتے تھے اور صبح شام ان کی قصیدہ خوانی میں مصروف رہتے تھے لیکن جونہی جنرل کیانی صاحب ریٹائرڈ ہوئے تو ان قصیدہ خوابوں نے ان کے خلاف ایسی ہرزہ سرائی شروع کی کہ خود شرم کو بھی شرم آ گئی. خیر بات چلی تھی اس تقابلے سے جو عمران نیازی یا دیگر حضرات پاکستان اور ترقی دوارے کرتے ہیں.اردوان ترکی میں اقتدار پر 9سال سے براجمان ہے اور اس کے کئی اقدامات سے ترک عوام میں اس کے لیئے ناپسندیدگی پائی جاتی ہے.مثلا اپوزیشن کے ارکان کو گرفتار کرنا یا جلاوطنی پر مجبور کرنا آزاد میڈیا پر قدغنیں لگانا اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا آزادی اظہار پر پابندی لیکن ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی ترک عوام سڑکوں پر باہر نکلے کیونکہ انہیں اروان سے زیادہ جمہوریت عزیز تھی.
Nawaz Sharif
اب آئیے نواز شریف کی طرف. نہ تو نواز شریف نے آزادی اظہار پر پابندی لگائی نا مخالفین کو جیلوں میں بند لیا اور نہ ہی میڈیا پر قدغنیں لگائیں.نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں میگا پراجکٹس میں کوئی قابل ذکر کرپشن بھی ثابت نہیں ہو سکی.نواز شریف کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے یا ان کی حکومت کی ترجیحات پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن کوئی قابل ذکر کرپشن یا غفلت نہیں ڈھونڈی جا سکتی.پانامہ لیکس جس کو لے کر شور مچایا جا رہا ہے یہ الزامات کئی برسوں پہلے کے ہیں. اس لیئے دفاعی سہسٹیبلیشمنٹ کے پاس بھی اس حکومت کو چلتا کر دینے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے. لیکن سیاسی یتیموں کے ساتھ پیپلز پارٹی کا گٹھ جوڑ اور میل ملاپ اس امر کی نشاندہی ضرور کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے. یعنی کہیں نہ کہیں ایسٹیبلیشمنٹ کے کچھ عناصر اپنی چالیں چل رہے ہیں. طاقت کی بساط پر اس وقت تمام چالیں بہت سوچ سمجھ کر چلی جا رہی ہیں. رہ گئی بات عوام کی تو شاید عمران خان اور ہمنوا یہ بھول گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں وکلا لانگ مارچ کے دوران نواز شریف کی ایک کال پر عوام کا سمندر رکاوٹوں کو عبور کر کے نکل آیا تھا.دھرنوں کے دوران بھی نون لیگ کے مقامی لیڈروں کی کال پر دھرنوں سے بڑے جلسے نون لیگ نے مختلف شہروں میں منعقد کیئے تھے.
مارشل لا کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرنے کا دور 90 کی دہائی کے ساتھ دفن ہو چکا ہے. 2007 میں بھی مشرف نے ایک منی مارشل لا لگایا تھا جس کا عبرت ناک انجام سب دیکھ چکے ہیں. عمران خان اور دیگر سیاسی یتیموں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ 90 کی دہائی سے نکل کر موجودہ پاکستان کی حقیقتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اب عوام کے ووٹوں کے بجائے بوٹوں کی چاپ کی آمد کے منتظر ہیں. عمران خان اگر حکومت کے خلاف سازشیں کرنے اور نفرت اور اشتعال پر مبنی سیاست کرنے کے بجائے خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت کو مثالی بناتے اور پنجاب میں اپنی جماعت کی جڑیں عوام تک پہنچاتے تو آج انہیں لال حویلی کے ٹھگ کے ساتھ مل کر چور دروازے سے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کے ناکام سپنے نہ دیکھنے پڑتے. اگر عمران خان صاحب اس خیالی دنیا سے باہر نکل کر صرف اپنے انتخابی حلقے NA 56 کا ہی ایک دورہ کر لیں تو انہیں زمینی حقائق کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جائے گا.اور انہیں باآسانی سمجھ آ جائے گی کہ مٹھائیاں تقسیم کرنے کا دور بیت چکا ہے.