زہریلی مٹھائی سے اموات، غمزدہ خاندان اور اقدامات

Layyah

Layyah

تحریر : محمد صدیق پرہار
لگتا ہے کہ ضلع لیہ کی عوام کیلئے قدرت کی طرف سے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ سانحہ کے بعد سانحہ کے تسلسل سے لگتا ہے کہ ضلع لیہ کے باسیوں سے کوئی ایسی غلطی ہو گئی ہے جس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ سانحہ کے بعد رونما ہونے والے سانحہ نے لیہ کی عوام کو صدموں سے دوچار کر رکھا ہے۔

چالیس سے زائدہونے والی ڈیکیتیوں کاغم کیا کم تھا کہ ایک ہفتہ کے وقفہ سے ہونے والے دوٹریفک حادثات نے لیہ کی عوام کے غموں میں اضافہ کر دیا۔ پہلا حادثہ لیہ سے راولپنڈی جانے والی بس کوہرنولی کے قریب ٹرالرسے ٹکرانے سے ہوا۔جس میں سترہ افرادجاں بحق بیالیس زخمی ہوگئے۔میتوں اورزخمیوںکوبس کی باڈی کاٹ کر نکالاگیا۔ جاںبحق ہونے والوںمیںبس کاڈرائیوربھی شامل تھا۔دوسرا حادثہ لیہ کی ہی بس کوفیصل آبادکے قریب جھنگ روڈ ٹھیکری والاپر ہوا۔ جس میں بیس مسافر دم توڑ گئے۔ ان جاںبحق ہونے والوں میں فتح پور، کروڑ اورلیہ کے چھ مسافر بھی شامل ہیں۔

ان حادثات سے پہلے کرنٹ لگنے سے لاکھوںروپے مالیت کی د و بھینسیں بھی جاںبحق ہوگئیں۔ان صدموں کے اثرات ابھی اسی طرح برقرار تھے کہ راجن پور کے علاقے میں چھوٹوگینگ کے خلاف آپریشن ضرب آہن میں ڈاکوئوںنے دودرجن کے قریب پولیس اہلکاروںکویرغمال بنالیا ۔ ان یرغمالیوںمیں لیہ کے پانچ جوان بھی شامل تھے۔پاک فوج کے آنے کے بعد چھوٹوکے ہتھیارڈال کرگرفتاری دے دی۔ جس کے بعد یرغمالی بھی رہا ہوگئے ۔ یوں ان کے بے قرارگھروالوںکوسکون میسر آیا۔لیہ کی عوام کیلئے خوشی کے یہ لمحات عارضی ثابت ہوئے کہ ضلع لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے چک نمبر ایک سوپانچ ایم ایل میں بچے کی پیدائش کی خوشی میں کھائی جانے والی مٹھائی موت کا سبب بن گئی۔

Funeral Prayer

Funeral Prayer

چک کے رہائشی محمدارشاد کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تووہ نزدیکی مٹھائی کی دکان سے مٹھائی لے آیا۔جسے کھانے سے پانچ بھائیوں دوبچوں سمیت نوافرادجاں بحق ہوگئے۔جبکہ متاثرہ خاندان کے مزید سات افرادکی حالت بھی تشویش ناک ہوگئی۔دکان سے مٹھائی خریدکرکھانے والے قریبی چکوک کے ستائیس افرادکوبھی تشویش ناک حالت میں ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ لایاگیا۔جن میں سے سترہ افرادکونشترہسپتال ملتان لایا گیا۔صورت حال کی نزاکت کودیکھتے ہوئے علاقہ مکینوں کی طرف سے مساجدمیں اعلان کرکے مٹھائی کھانے والوںکواکٹھا کیاگیا اورانہیں ریسکیو کی گاڑیوں کے ذریعے ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ لایا گیا۔

دکاندارکوگرفتارکرکے مٹھائی کے نمونے تجزیہ کیلئے لیبارٹری روانہ کردیے گئے۔نومولودکادادا، دادی غم کی تصویربن گئے۔دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مٹھائی کھاکرجاں بحق ہونے والوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہورہا ہے۔یہ سطورلکھنے تک یہ تعدادچھبیس ہوچکی ہے۔سانحہ کی تحقیق وتفتیس کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی قائم کی گئی۔تفتیش کادائرہ کاروسیع کردیاگیا۔زہریلی مٹھائی سے ہلاکتوں کے معاملے پرسرکاری ادارے آمنے سامنے آ گئے۔

پولیس کی جانب سے تھانہ فتح پورمیں ای ڈی اوہیلتھ ڈاکٹرامیر عبداللہ سامٹیہ اورایم ایس ڈسٹرکٹ ہسپتال لیہ ڈاکٹرغلام مصطفی کے خلاف باقاعدہ تحریری رپٹ درج کی گئی جس میں تحریر کیاگیا ہے کہ واقعہ کی سنگینی کے حوالے سے پولیس کی جانب سے بذریعہ ٹیلی فون اور گھروں میں جا کر ڈاکٹراورافسران کوصورت حال کااحساس دلانے کی کوشش کی گئی لیکن باربارکے رابطوںکے باوجود افسران نے عدم توجہی کامظاہرہ کیااورغفلت کاارتکاب کرتے ہوئے تادیرمریضوںپرتوجہ نہ دی گئی۔خبرمیں لکھا ہے کہ اس ضمن میں رابطے پرای ڈی اوہیلتھ ڈاکٹر امیرعبداللہ سامٹیہ نے اپنے دفاع میںکہا کہ وہ پولیس کے الزامات کودرست تسلیم نہیں کرتے۔محض خودکوبچانے کیلئے پولیس بے بنیاد واویلا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا ان سمیت ڈاکٹرزنے بروقت کارروائی کرتے ہوئے مریضوں پر بھرپور توجہ دی اورانہیں علاج معالجہ فراہم کیا۔انہوں نے اس بات کوبھی کریڈٹ گرداناکہ لیہ ہسپتال میںاموات کاکوئی واقعہ پیش نہیں آیاتما م اموات نشترہسپتال ملتان میںہوئیں۔مقامی اخبارمیں شائع ہونے والی دردناک خبراس تحریر میں شامل کرتے ہوئے راقم الحروف کی آنکھوںمیںا نسو آگئے خبرکی تفصیل یہ ہے کہ لیہ میںموت کے جاری سحرکے بعدایک کے بعد ایک کی وفات کاسلسلہ جاری ہے۔اورقبریں کھودکھودکرلوگو ں کے ہاتھوںمیں چھالے پڑچکے ہیں۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق ٧٧ افرادنے زہریلی مٹھائی کھائی۔جس میں سے یہ سطورلکھنے تک ٢٨ افراددم توڑ چکے ہیں۔جبکہ دس سے زائدافرادمقامی اورملتان کے ہسپتالوںمیں زیرعلاج ہیں۔صورتحال کی سنگینی کااحساس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی واقعہ کاسخت نوٹس لیا ہے۔

Layyah Hospital

Layyah Hospital

سینئر طبی ماہرین پرمشتمل چاررکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔جس میں پروفیسرڈاکٹرجلا ل حیدر، ڈاکٹرعباس رضا،ڈاکٹرقاضی مسروراو ر ڈاکٹر افتخاراعجاز شامل ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کوتین روزمیں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔صوبائی وزیرخوراک بلال یٰسین کے دورہ لیہ کے دوران عوامی دبائو، مطالبے اوراحتجاج پرمتاثرہ چک ایک سوپانچ ایم ایل میں کھلی کچہری کاانعقادکیاگیا جس میںمتاثرہ خاندانوںنے ڈاکٹرزکی غفلت خصوصاً نشترہسپتال ملتان میں علاج معالجے کی سہولت میسر نہ آنے ،مریضوں سے نارواسلوک سمیت دیگرشکایات کاانبارلگادیا اورجس پرصوبائی وزیرخوراک کی جانب سے وزیراعلیٰ کوبھجوائی گئی درخواست پرانہوںنے تمام متاثرہ مریضوںکولیہ سے فوری طورپرجناح ہسپتال لاہورمنتقل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

حالت تشویشناک ہونے پرایک ہی خاندان کے سات مریض جناح ہسپتال لاہورروانہ کردیے گئے ۔ لاہورسے سینئر ڈاکٹرزکی ٹیم بھی لیہ پہنچ گئی ہے۔ڈائریکٹرڈیرہ غازیخان محمد شاہدبھٹی نے میڈیانمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے اس بات کااعتراف کیا کہ مٹھائی میںملائے گئے زہرسیلفولائل یوریا کاکوئی تریاق موجودنہیں ہے۔مریضوں کوزندگی بچانے کیلئے صرف معاون ادویات ہی دی جاسکتی ہیں۔متاثرہ چک ایک سوپانچ ایم ایل میں اوپن انکوائری کے موقع پرگفتگوکرتے ہوئے صوبائی وزیر خوارک بلال یٰسین نے کہا ہے کہ لیہ میںن زہریلی مٹھائی کھانے سے ٢٦ افراد کی ہلاکت کے معاملے کی چھان بین کیلئے اعلیٰ طبی ماہرین پرمشتمل خصوصی ٹیم جامع اورمفصل انکوائری کرے گی یہ انکوائری شفاف اورمیرٹ کی بنیادپرمکمل کی جائیگی۔

اس میں اگرکوئی ڈاکٹریاطبی عملہ غفلت وکوتاہی کامرتکب پایاگیا تواس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائیگی۔اوپن انکوائری میں ڈائریکٹرفوڈ اتھارٹی پنجاب عائشہ ممتاز ، ڈی سی اولیہ راناگلزاراحمد، ڈی پی اولیہ محمدعلی ضیاء سیاستدانوں اورمحکمہ صحت کے افسران نے شرکت کی۔صوبائی وزیرنے زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے ایک ہی خاندان کے ٨ افرادکے سربراہ عمرحیات ، نیازحسین، غلام اکبر اور زاہدبی بی سے فرداً فرداً زہریلی مٹھائی کھانے سے متعلقہ معاملات ڈی ایچ کیوہسپتال لیہ ونشترہسپتال ملتان میں فراہم کردہ طبی سہولیات کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔اس موقع پرصوبائی زیرخوراک کوڈائریکٹرصحت ڈی جی خان، ای ڈی اوصحت لیہ ،ڈسٹرکٹ فزیشن لیہ ،ایم ایس ڈی ایچ کیوہسپتال لیہ نے فراہم کردہ طبی سہولیات کے بارے میں بریفنگ کے دوران بتایا کہ ہسپتال میں چوبیس مریض آئے تھے جن کے زہرکے بارے میںمقامی طبی ماہرین و ملک کے ممتاز دیگرڈاکٹرصاحبان تاحال زہرکی نوعیت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیںکرسکے۔تاہم مریضوںکودستیاب طبی سہولیات کی فراہمی کاعمل بروئے کارلایاگیاتھااورشدیدمتاثرہ مریضوںکونشترہسپتال ریفرکردیاگیا۔انہوںنے مزیدبتایا کہ ان کے تیس سالہ میڈیکل پریکٹس میں ایسا سنگین وجان لیواواقعہ پہلی بارسامنے آیا ہے۔

Layyah Poisonous Sweets-Death

Layyah Poisonous Sweets-Death

زہریلی مٹھائی سے جاںبحق ہونے والے افرادکے لواحقین نے صوبائی وزیرکوبتایا کہ نشترہسپتال میںمریضوںکوعلاج معالجہ کے دوران انجکشن لگانے کے بعدمریضوں کی حالت بتدریج خراب ہوناشروع ہوجاتی تھی۔انہیں سردردتیزبخارہوجاتا تھااورقے آنے کاسلسلہ مریض کی ہلاکت تک جاری رہتاتھا۔انہوںنے صوبائی وزیرکوبتایا کہ جن لوگوںنے نشترہسپتال سے علاج کرانے سے انکارکردیا ان کی زندگیاںمحفوظ رہیں۔انہوںنے نشترہسپتال ملتان میں ڈاکٹروں وپیرامیڈیکل سٹاف کی جانب سے عدم توجہی ،لاپرواہی اورعلاج معالجہ میںغفلت کی شکایت کی اورڈی ایچ کیوہسپتال لیہ کی جانب سے ایمبولینس فراہم نہ کیے جانے کے بارے میں آگاہ کیا۔صوبائی وزیرنے علاج معالجہ میں غفلت اورعدم توجہی کاسخت نوٹس لیتے ہوئے ایم ایس نشترہسپتال سے وضاحت طلب کی۔جس پرایم ایس نشترہسپتال نے بتایا کہ نشترہسپتال میں روزانہ پچیس سوسے زائدمریض علاج کیلئے آتے ہیں جن میں سے سومریضوںکوآئی سی یومین داخل کیاجاتا ہے انہوںنے کہا کہ لیہ سے ریفرکیے گئے پچاس مریضوںکاعلاج معالجہ کیاگیا جن میں سے تین مریج ابھی تک ہسپتال میں داخل ہیں جبکہ باقی ڈسچارج کردیے گئے ہیں انہوںنے صوبائی وزیرکوبتایا کہ ہسپتال میںمریضوںکودستیاب بہترین طبی سہولیات اورلواحقین ممکنہ حدتک نگہداشت ودیکھ بھال اور تمام طبی سہولتوںکی فراہمی کیلئے بھرپوراقدامات عمل میں لائے گئے۔صوبائی وزیرنے ایم ایس نشترہسپتال سے وضاحت طلب کی کہ جومریض علاج ادھوراچھوڑ کرواپس آگئے ان کی جانین بچ گئیں مگرجن مریضوںکاعلاج معالجہ کیاگیا ان کی ہلاکتوںکاسبب کیا ہے جس کاایم ایس نشترہسپتال تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ ایک بیٹے کی موت کاغم بھی کچھ کم نہیںہوتا ذراسوچئے جس کے آٹھ بیٹے اورخاندان کے بارہ افرادیکے بعد دیگرے موت کی آغوش میں چلے گئے اس غمزدہ باپ کی کیاحالت ہوگی ۔کچھ ایسا ہی غم عمرحیات کابھی ہے ۔جوچھ روزسے سونہیں سکا۔آنکھیں پتھراگئیں۔جواں سال بیٹوں کی موت پر ماں بھی صدمے میں حواس کھوبیٹھی ہے۔

ضلعی انتظامیہ ، محکمہ صحت اورحکومت پاکستان نے تاحال زہرکاتریاق دریافت کرنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھایا ہے۔جس پر٥٢ افرادکی زندگیاں تاحال دائوپرلگی ہیں۔گرفتارملزمان نے غلطی سے زہرمل جانے کااعتراف کرلیا ہے۔زہریلی مٹھائی سے جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین میںامدادی چیک تقسیم کیے گئے ۔ اس المناک سانحہ کا درد اوراس کی سنگینی اورنومولودکے دادا کا غم اس کے اس جملہ میں چھپاہوا ہے۔ عمرحیات نے کہا ہے کہ آٹھ بیٹے ایک بیٹی سمیت پوراخاندان قبرستان پہنچ گیا۔زندہ لاش کی طرح بیٹھاہوں حکومتی پیسوںکاکیاکروں گا۔ملک میں تین بڑے سیاسی جلسے ہوئے کسی میں بھی سانحہ لیہ کاذکر تک نہیں کیاگیا۔تحریک انصاف نے سانحہ لیہ کی جوڈیشل انکوائری کامطالبہ کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا ء جمع کرادی ہے۔لیہ کی سیاسی شخصیات نے بھی متاثرہ خاندانوں سے اظہارتعزیت کیا ہے۔

یہ سانحہ بھی قدرتی آفت قراردیاجاسکتا ہے۔ یہ سانحہ کسی کا جرم نہیں غفلت ہے۔دکاندارنے جان بوجھ کرمٹھائی میں زہرنہیں ملایا بلکہ غلطی سے مل گیا۔ کوئی دکاندارنہیں چاہتا کہ اس کی خریدی ہوئی کھانے کی چیزکھانے سے کھانے والے موت کی آغوش میں چلے جائیں یااس کے دیگرمنفی اثرات ہوں۔جس دکاندار سے مٹھائی خریدی گئی وہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی مٹھائی کھانے سے اتنے لوگ مارے جائیں۔ اس نے آئندہ بھی روزگارکماناہے۔جب انسان مسلسل کئی گھنٹے کام کرتا ہے تووہ جسمانی طورپرتوتھک ہی جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ ذہنی طورپربھی تھک جاتا ہے۔ اس وقت وہ کام توکررہا ہوتا ہے مگرکیاکررہا ہوتا ہے اس کااسے ادراک نہیں ہوتا۔دکاندارکاریگروں اورملازمین سے مسلسل کئی کئی گھنٹے کام لیتے ہیں انہیں سستانے کیلئے بھی وقت نہیں ملتا۔ اس حالت میں بھی ادراک نہیں رہتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

بعض اوقات کسی ملازم یاشاگردسے معمولی غلطی ہوجائے تو دکاندار یامالک اس کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ وہ غلطی چھپانے میں ہی عافیت تصورکرتا ہے۔دکانداراورمالک ملازمین اورکاریگروں سے اتنا کام لیں جتناوہ آسانی سے کرسکیں ، کسی غلطی ہوجائے توڈانٹنے کی بجائے ٹیکنیکل طریقے سے سمجھائیں کہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو۔کارخانوںمیں ملازمین سے بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے کام لیاجاتا ہے ۔آٹھ گھنٹے سے زیادہ کسی بھی ملازم سے کام نہ لیاجائے ۔ہم ایک مل میں گئے وہاں ایک شخص بتارہا تھا کہ ایک ملازم کے چھٹی پرہونے کی وجہ سے وہ ٣٦ گھنٹوںسے ڈیوٹی دے رہا ہے۔

دیہات میں کاروبارمحدود ہوتا ہ اس لیے دکاندار مال تیاربھی خودکرتے ہیں اورفروخت بھی خود کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں زیادہ وقت کام کرناپڑتا ہے جس سے انہیں سستانے کابھی وقت نہیں ملتا۔ اس طرح کاواقعہ ہوجائے تویہ نقصان ان کیلئے ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔وہ اثرات کاادراک کیے بغیراپنانقصان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس دکاندارنے زرعی ادویات مٹھائی کی دکان میںامانتاً رکھی تھیں اس کے گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی دوائی مٹھائی میں مل کراتنے لوگوںکی قاتل بن جائے گی۔وزیراعلیٰ پنجاب غمزدوںکاغم بانٹنے کیلئے ان کے گھروںمیں پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ سانحہ بھی کوئی کم نہیں ہے اگرچہ انہوںنے صوبائی وزیر خوراک کی ڈیوٹی لگارکھی ہے تاہم وہ خودان غمزدہ خاندانوں کی ڈھارس بندھانے آئیں توغمزہ خاندان کوتسلی ہوجائے گی۔متاثرہ خاندانوں کے غم میں لیہ کی عوام برابرکی شریک ہے۔اب وفاقی وصوبائی حکومتیں ایسے اقدامات کریں جس سے آئندہ اس طرح کے سانحات سے ممکنہ طور پر بچا جا سکے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com