”کون ہے جو اس تلوار کا حق ادا کرے” میدان احد میں امام المجاہدین محمد کریمۖ کی زبان اطہر سے الفاظ جاری ہوئے تو سننے والے سبھی صحابہ کرام یہ سعادت پانے کے لئے لپکے لیکن نبی کریم محمدۖ نے اپنی تلوار حضرت ابو دجانہ کے سپرد کر دی۔ یہ اعزاز پا کر وہ جوش مسرت میں پھولے نہ سماتے تھے کہ عرض کیا… یارسول اللہ! اس تلوار کا حق کیا ہے…؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”تو اس سے کافروں کو قتل کرے یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔
حضرت ابو دجانہ نے عرض کیا… یارسول اللہ! میں اس تلوار کو اس حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ پھر انہوں نے ایک سرخ رومال نکالا اور سر پر پٹی کی صورت باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے۔ پھر دشمنوں کی صفوں کو اسی تلوار سے چیرتے آگے بڑھتے گئے کہ اچانک ان کے سامنے ابو سفیان کی بیوی ”ہند” (اس وقت یہ سب مسلمان نہیں ہوئے تھے )آ گئی۔ حضرت ابو دجانہ نے ارادہ کیا کہ اس پر تلوار چلا دیں… پھر اس خیال سے تلوار پیچھے ہٹا لی کہ رسول اللہۖ کی مقدس تلوار کے لئے یہ زیب نہیں کہ وہ کسی عورت کا سر کاٹے۔ یوں پیچھے ہٹے اور پھر سے تلوار کے ساتھ مشرکین مکہ کی صفوں کو کاٹتے پلٹتے آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ دشمنوں کے پائوں اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔
غزوہ احد کا یہ واقعہ تخیل و تصور میں آج ایک بار پھر گھوم رہا تھا جب جماعة الدعوة کے ہزاروں کارکن اور ان کی دعوت پر آئے بے شمار شہری لاہور کی سڑکوں پر مظلوم اہل فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لئے شکر دوپہر، تپتی دھوپ میں سر تا پائوں پسینے سے شرابور لیکن ایمانی جذبوں سے معمور… حضرت ابو دجانہ کی یاد کو تازہ کرتے، سر پر سرخ پٹیاں باندھے، ایمانی نعرے بلند کرتے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔
جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید ”بھی ٹرک پر سوار تھے تو ان کے رفقا بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ہمارے پائوں سے بندھی سرحدوں کی زنجیریں کھول دو… تو پھر دیکھو کہ پاکستان کے یہ لاکھوں سجیلے جوان کیسے اہل غزہ کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور اگر یہ زنجیریں نہ کھولیں تو انہیں توڑنے کا بھی انتظام ہو سکتا ہے مرکز القادسیہ چوبرجی سے شروع ہونے والا یہ کارواں جب جی پی او چوک پہنچا تو وہاں بھی ہر طرف سر ہی سر تھے۔ نعروں کی گونج تھی تو کارواں پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ جماعة الدعوة اور اس کی پکار پر لاہور میں جمع اور تاحد نگاہ پھیلے یہ سرخ رو لوگ خود کو سرخرو سمجھ رہے تھے کہ ہم نے عید کی چھٹیاں چھوڑ کر جیسے مقصد حیات پا لیا ہو۔
جی پی او چوک پہنچ کر جلسہ عام کا آغاز ہوا تو سٹیج پر پہنچنے والے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اتنا پرشکوہ، پرجوش اور تاحدنگاہ پھیلا انسانی سروں کا سیلاب اور جذبہ انتقام سے بپھرے نوجوان اور ان کے جذبات سے لبریز اٹھتے ہاتھ دیکھتے تو دم بخود رہ جاتے… تکبیر کے نعروں کی گونج اور صحابہ کرام کی زبانوں سے جاری ہونے والے ”خیبر خیبر یا یہود، جیش محمد سوف یعود” کے نعرے نے ہر لمحہ ہر لخطہ ایمان افروز بنایا۔
امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید نے جب اختتامی خطاب میں مسلم حکمرانوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ اگر تم نے کارروائی نہ کی تو یہ سرخ پٹیوں والے خود ہی القدس کی جانب چل پڑیں گے اور یہ کہ القدس کی آزادی کے لئے جدوجہد ہر مسلمان کا اولین فریضہ ہے تو ہاتھ اور نعرے یوں بلند ہوئے کہ جیسے ابھی راستہ و اجازت ملے تو ایک لحظہ تاخیر نہ کریں گے۔
یہ ان فلسطینیوں کی مدد کے لئے بے قرار تھے کہ جن کی سرزمین پر ایک ناجائز یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اس نے وہاں کے باسیوں پر اول روز سے مظالم کی چکی چلانی شروع کر دی تھی، اول روز سے ساری دنیا کی اسلام دشمن طاقتیں بالخصوص امریکہ اور سارا یورپ ان کے ساتھ تھا اور آج بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ ان کا کھلا حمایتی ہے۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ جہاں کہیں یہودی صاحب اقتدار و اختیار بنے، فساد ہی کھڑا ہوا اور جہاں کہیں سے ان کو مار کر نکالا گیا وہاں امن قائم ہو گیا… نازی جرمنی کے سربراہ اڈولف ہٹلر نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا کہ ”میں چاہتا تو سارے یہودیوں کو ختم کر سکتا تھا لیکن میں نے کچھ کو اس لئے چھوڑ دیا کہ دنیا دیکھتی رہے کہ میں نے ان کو قتل کیوں کیا تھا…؟ ہٹلر نے یہ سبق پیارے نبیۖ کی سیرت طیبہ سے سیکھا تھا کہ جنہوں نے یہود سے تنگ آ کر انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کر کے مدینہ بدر کیا تو وہاں آج تک امن قائم ہے اور جب ہٹلر نے انہیں یورپ سے مار بھگایا تو یورپ کی باہمی خوفناک ترین جنگیں بھی ختم ہو کر وہاں امن قائم ہو گیا۔ آج وہ یہود فلسطین پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں تو ہر طرف دہشت ہی دہشت، قتل ہی قتل اور خون ہی خون ہے۔ اپنے ہاں امن کے لئے 1917ء میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ فلسطین یہودیوں کو ملنا چاہئے۔ چنانچہ یہیں سے قیام اسرائیل کی کاوشوں کا باقاعدہ آغازہوا۔
America
1948 ء میں ایک امریکی ریاست کے جج نے ”خیانت کے علمبردار” کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 1897ء میں ہونے والی پہلی عالمی صیہونی کانفرنس میں لیگ آف نیشنز کا تصور ایک باقاعدہ طور پر زبانی ترتیب کے ساتھ پیش کیا گیا تھا کہ بالترتیب چند طے شدہ اقدامات کے بعد عالمی ادارہ وجود میں لایا جائے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے کچھ ہی دیر بعد 1947ء میں فلسطین کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کی قرارداد پیش کی گئی۔
اس سارے عمل میں دو باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ نمبر ایک تو یہ کہ رائے شماری کے عمل میں چند مخصوص ممالک کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ مگر اس ساری حکمت عملی کے باوجود یہ قرارداد اتنی بے رحمانہ تھی کہ اس کے حق میں تین جبکہ اس کے مخالف پانچ ووٹ پڑے۔ چنانچہ تاریخ کی بدترین دھاندلی کرتے اور رائے شماری کے طے شدہ قواعد و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے رائے شماری میں فلپائن اور ہنگری جیسے غریب ممالک کو شامل کیا گیا اور ان پر اسرائیل کے حق میں ووٹ دینے کے لئے دبائو ڈالا گیا جس کے عوض ان ممالک کی حکومتوں کو مالی امداد سے بھی نوازا گیا اور اس طرح قیام اسرائیل کی قرارداد منظورہوئی۔
دوسری دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت فلسطین میں مقامی مسلمانوں کی تعداد 94 فیصد تھی جبکہ یہودی 6 فیصد آباد تھے مگر قرارداد کے بعد جب تقسیم کا اعلان کیا گیا تو اس کے مطابق فلسطین میں آباد یہودیوں کو اس سرزمین کا 55 فیصد حصہ دیا گیا اور واضح اکثریت میں موجود مسلمانوں کو 45 فیصد حصہ دیا گیا۔ اس طرح 4 مئی 1948ء کو باقاعدہ طور پر اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا اس کے دس منٹ بعد امریکہ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ 1948ء میں جب فلسطین کی جگہ اسرائیل قائم ہوا تو اس کا کل رقبہ 7993 مربع میل تھا مگر یہودیوں نے اس پر اکتفا نہ کیا اور اردگرد کی مسلمان ریاستوں پرحملہ آور ہوتے رہے جس کے نتیجہ میں انہوں نے شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ پھر 5 جون 1967ء کو اسرائیل نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر بھی قبضہ کر لیا۔
وہی اسرائیل ہمیشہ کی طرح اپنی تمام تر طاقتیں آزما رہا بلکہ آزما چکا ہے۔ لیکن وہی اسرائیل جس نے 1967ء کی جنگ میں 4 ملکوں کودرجن بھر حمایتوں سمیت 3 دن میں شکست دے کر ان کے وسیع علاقوں پر قبضہ بھی جما لیا تھا ،آج بے بس و نامراد ہے۔
غزہ ملبے کا ڈھیر ہے… ہر طرف خون ہی خون بکھرا ہے لیکن فلسطینی قوم کے زخموں سے چور شیرخوار بھی فتح کا نشان بنا رہے اور ساری دنیا کو بتا رہے ہیں کہ حضورنبی کریمۖ کی وہ تلوار جو حضرت ابو دجانہ نے اٹھائی تھی، پر لکھے اشعار ان کے قلب و روح میں پیوست ہیں۔ فی الجبن عاروفی البقال مکرمہ والمرء بالجبن لاینجو من القدر ”بزدلی میں بڑی شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کر کے تقدیر سے نہیں بچ سکتا یہی پیغام مال روڈ کو تپتی دھوپ میں سرخ پٹیاں باندھ کر سجانے والوں کے سینے میں مچل رہا ہے کہ جن کے خلاف بھی عین فلسطینیوں کی طرح سارا عالم کفر جمع ہے لیکن اب سرخ پٹیوں والے ہی آگے بڑھیں گے اور مسجد اقصیٰ کو آزاد کروا کر سب سے بڑا مقصد و مشن مکمل کریں گے۔