تحریر: ڈاکٹر سیّد احمد قادری اس ملک میں مٹھی بھر شدّت پسندوں نے آئے دن ملک کی جمہوری ، آئینی، اخلاقی رواداری کو پامال کرنے کا شیوہ بنا لیا ہے ۔یہ مٹھی بھر انتہا پسند اور فرقہ پرست ملک کے مسلمانوں کو ذرا ذرا سی بات پر پاکستان جانے کا مشورہ دے ہی رہے ہیں ، لیکن چونکہ ان کی بد زبانی اور انتہا پسندی پر لگام نہیں لگایا گیا، جس کے باعث ان کی ہمت اور ان کے حوصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اب تو یہ لوگ ہر اس شخص کو جو ملک کی آئین ، جمہوریت ، سیکولرزم اور یہاں کی گنگا جمنی تہذیب پر یقین رکھتا ہے اور سیکولر زم کی باتیں کرتا ہے ، انھیں بھی پاکستان جانے کو ببانگ دہل کہا جا رہا ہے ۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کی کبھی بھی مثبت سوچ اور فکر رہی ہی نہیں ، آزادی ہند میں بھی ان کا کوئی رول رہا نہیں بلکہ ان لوگوں نے ہمیشہ انگریزوں کی حمایت اور ہمنوائی میں پیش پیش رہے ۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ جس مہاتما گاندھی نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی پوری زندگی کو وقف کر دیا ، ان کی جان بھی ان ہی لوگوں نے لی اور اب ان کے قاتل کو جسے مہاتما گاندھی کے قتل کا مجرم قرار دے کر عدالت نے پھانسی دی تھی۔ اسے قومی ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
ملک کا پرچم بھی انھیں گوارہ نہیں اور کھلم کھلا ملک کے پرچم کو نذر آتش کر اپنا کیسریا پرچم لہراتے پھر رہے ہیں ، اور افسوس کہ ایسے لوگوں کی اس طرح کی غیر جمہوری اور غیر آئینی حرکات پر قدغن لگانے والا کوئی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں قانون اور انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، جس کے جو دل میں آ رہا ہے ، وہ کر رہا ہے ۔ دراصل ان لوگوں کو برسراقتدار میں آنے کے بعد اس بات کا شدید طور پر احساس ہو رہا ہے کہ آزادیٔ ہند میں ان کا کوئی رول رہا نہیں ، جنگ آزادی کے وقت بھی یہ لوگ اپنے ملک کے تئیں وفا دار نہیں رہے۔ اس لئے اب یہ لوگ ملک سے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لئے بقول کانگریس رہنما غلام نبی آزاد، زیادہ سے زیادہ پیاز کھا رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ملک کے تئیں حب الوطنی ثابت کی جا سکے۔ ان کی مشکل یہ بھی ہے جنگ آزادی میں ان کے تعمیری کردار کے سلسلے میں پوری تاریخ بھی خاموش ہے کہ اپنی حب اوطنی کا کوئی ثبوت فراہم کریں بھی تو کہاں سے؟ ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اب اپنے آپ کو اوراپنی مختلف تنظیم کو حب الوطن ثابت کرنے کے لئے ہر وہ ہنگامے کر رہے ہیں ، جن ہنگاموں سے ان کی شہرت ہو ۔ خواہ اس کی وجہ کر ملک کی بدنامی اور اس کا وقار ہی کیوں نہیں مجروح ہو رہا ہو ، ملک کی جمہوری قدریں اور سیکولر کردار ہی کیوں نہیں پامال ہو رہا ہو۔
اس موجودہ منظر نامہ میں آر ایس ایس، بجرنگ دل وغیر ہ جیسی فرقہ پرست تنظیموں کے ساتھ ساتھ ان دنوں شیو سینا اور ایم این ایس (مہاراشٹر نو نرمان سینا) کچھ زیادہ ہی متحرک ہے ۔ شیو سینا اور ایم این ایس یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پورے مہاراشٹر اور خاص طور پر صنعتی شہر ممبئی کو اپنی جاگیر تصور کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ سانس بھی لیں تو انکی اجازت سے ۔ ان دونوں تنظیموں کا فلم انڈسٹری سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں ، لیکن اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فلم انڈسٹری میں ان کی دادا گری سے پوری انڈسٹری خوف زدہ اور سراسیمہ رہتی ہے ۔سرجیکل اسٹرائک کے بعد حکومت ہند کی اجازت سے بھارت آنے والے پاکستانی فنکاروں کو جس طرح دھمکیوں کے ساتھ انھیں یہ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ان فنکاروں کی حمایت میں سامنے آنے والوں کو جس طرح خوف زدہ کیا جا رہا ہے ، اسے دیکھ کر نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک کے لوگ حیران اور ششدر ہیں ۔ اس سلسلے میں ایم این ایس کے راج ٹھاکرے کا بیان آیا ہے کہ میں نے اپنے حامیوں سے کہہ دیا ہے ‘کہ اب کوئی بھی خان ، جوہر،بھٹ،پاکستانی کلاکاروں کو کام دے، اسے کوٹ دو، جو ہوگا دیکھ لینگے۔
Aamir Khan,,Shah Rukh Khan and Salman Khan
یہ بیان قطئی چونکانے والا نہیں اس لئے نہیں ہے کہ یہ لوگ ایسے بیانات دیتے ہی رہتے ہیں ۔ ہاں افسوس اس بات کا ضرور ہے کہ پہلے عامر خان، شاہ رخ خاں اور سلمان خان وغیرہ جیسے نام لئے جاتے تھے ، لیکن اب اس فہرست میں کرن جوہر اور مہیش بھٹ، پرینکا چوپڑہ وغیرہ کے ناموں کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ یعنی سیکولر اور جمہوری فکر رکھنے والے کو اب بولنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صرف فلموں سے ہی تعلق نہیں رکھتے بلکہ ملک کی بہتر معیشت میں ان کا بہت اہم رول ہے اور یہ لوگ ہر سال ہزاروں کروڑ اپنی کمائی سے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ٹیکس ادا کرتے ہیں ، لاکھوں لوگوں کے روزگار کا سبب بنتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ سماجی طور پر بھی ہمیشہ متحرک اور فعال رہتے ہیں ۔ ابھی ابھی اڑی حملے میں شہید جوانوں کے اعزا کو شاہ رخ نے پچاس پچاس لاکھ روپئے دے کر ان کی مدد کی ہے ۔ عامر خان نے گجرات کے بھج کو زلزلہ کی تباہی کے بعد گود لے کر نئے سرے بسانے کا کام کیا ہے اور سلمان خان مختلف سماجی کاموں میں ہمیشہ نمایاں رہتے ہی ہیں ۔ یہی حال کرن جوہر اور مہیش بھٹ کا بھی ہے ۔ لیکن شدت پسند اور منافرت پھیلانے والے لوگ ان کی ان خدمات کو فراموش کرانھیں ہدف بنا رہے ہیں ۔ یہ تنازعہ اس وقت سامنے آیا جب اڑی میں کئی جوان شہید ہوئے ، اس وقت پاکستان کے کئی فنکار بھارت کی فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔ ان پر کئی انتہا پسند تنظیموں نے اپنا غم و غصہ نکالتے ہوئے انھیں کہا کہ وہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر یہ ملک چھوڑ دیں ، ورنہ نتیجہ بھگتنے کو تیار رہیں ۔ ا س دھمکی کے جواب میں سلمان خاں پاکستانی فنکاروںکی حمایت میں سامنے آئے اور کہا کہ فنکاروں پر روک لگادینا دہشت گردی کا حل نہیں ہے ۔ آرٹسٹ صرف آرٹسٹ ہے ، دہشت گرد نہیں۔
بلکہ دہشت گردی اور آرٹ دو مختلف موضوعات ہیں ۔ حکومت انھیں ورک پرمٹ دیتی ہے ۔ سلمان خان کے اس بیان پر چراغ پا ہوتے ہوئے ، شیو سینا نے کہا کہ سلمان خان کو اگر پاک فنکاروں سے اتنا ہی پیار ہے تو وہ بھی پاکستان چلے جائیں ۔ ان دونوں بیانات کے بعد حمایت اور مخالف میں بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بات یہاں تک پہنچی کہ پاک فنکار تو خیر، خوف زدہ ہو کر اپنے ملک بھاگ کھڑے ہوئے لیکن راج ٹھاکرے نے دھمکی دی ہے کہ پاک فنکاروں کو یہاں کی فلم نگری میں کام دینے والوں کی بھی اب خیر نہیں او رانھیں جو بھی کام دے گا ، انھیں کوٹ دیا جائیگا ۔ ایسی کوششوں اور ایسے نازیبا الفاظ اور دھمکی آمیز بیانات کے جواب میں زیادہ تر فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں نے خوف و دہشت سے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا لیکن مشہور فلم اداکار اوم پوری نے بڑی ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آرٹ اورسیاست کو الگ رکھنا چاہئے اور فنکاروں پر پابندی لگانے سے صورت حال نہیں بدلے گی ۔ شیو سینا کی دی گئی دھمکیوں کے جواب میں اوم پوری نے یہ بھی کہا کہ شیو سینا ہمیشہ سے ہی پاکستان اور پاکستانیوں کی مخالفت کرکے اپنی سیاست چمکاتی رہی ہے اور ان لوگوں نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف نفرت پھیلا رکھی ہے ۔ جسے دیکھو پاکستان سے جنگ لڑانے پر بضد ہے ۔ لیکن جنگ کے بعد کیا ہوگا ، اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہے ۔ شیو سینا محب وطن بننے کی بجائے سرحد پر جا کر لڑائی کریں اور لوگوں کو بھڑکانا چھوڑ دیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ فلم انڈسٹری پر حکومت سے زیادہ شیو سینا اور ایم این ایس کا تسلط ہے اور پوری انڈسٹری پر ان کا خوف غالب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی خوشنودی کے لئے دی سیمینا آنرس اینڈ ایکزیبیٹرس ایسوسیئیشن آف انڈیا کے صدر یتن داتارنے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے ملک کی چار ریاستوں ، مہاراشٹر ، گوا، گجرات اور کرناٹک میں کرن جوہر کی فلم ‘ ائے دل مشکل ‘ جس میں پاکستانی فنکار فواد خاں اور عمران عباس نے کام کیا ہے ، اور شاہ رخ کی فلم ‘ رئیس’ جس میں پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ، نہیں دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے بتایا ہے کہ ہم نے اپنے ڈسٹی بیوٹروں سے ایسی کسی بھی فلم سے بچنے کو کہا ہے ، جس میں پاک فنکاروں کے علاوہ تکنیشئن، ڈائر یکٹر یا موسیقار شامل ہوں ۔ نفرت کی ایسی فضا تیار کر یہ انتہا پسند، ملک اور بیرون کو ملک کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔؟ایسی کاروائیوں کے بعد پاکستان نے ہندوستانی ٹی وی چینلوں پر پابندی لگا دی ، جس کے جواب میں حکومت ہند کی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ کو سامنے آنا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ موجودہ حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستانی فنکاروں پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود فلم انڈسٹری اس وقت ہنگامہ خیز بنا ہوا ہے ۔ کرن جوہر کو اپنی فلم کی ریلیز کے لئے ایک ویڈیو جاری کر اپنی حب الوطنی کا یقین دلانا پڑا ۔ گلزار نے بھی ایسے حالات پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ فلمی اداکارہ پرینکا چوپڑہ نے پاکستانی فنکاروں کی حمایت میں ایک بیان دیا تو ان کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے ہوئے او رنہایت بے ہودہ الفاظ سے نوازہ گیا ۔ ایک دوسری فلمی اداکارہ پوجا بھٹ نے بھی جرأت دکھاتے ہوئے ٹویٹر پر پاکستانی فنکاروں کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی فنکاروں کے خلاف جاری مہم حب الوطنی نہیں بلکہ اسکولوں میں ہونے والی داداگیری ہے ۔ جس کی وجہ کر فلم انڈسٹری کو کافی مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
Lata Mangeshkar
انتا پسندوں کی یہ انتہا ، پاک فنکاروں کو لے کر ہنگامہ کرنا اور تنازعہ کھڑا کرنا تو ایک بہانہ ہے ۔ اس سے قبل بھی یہ لوگ ایسے ہنگامے اور تنازعہ کھڑا کر چکے ہیں ۔ معروف گلوکارہ لتا منگیشکر بھی ان لوگوں کے عتاب کی ایک بار شکار ہو چکی ہیں ۔ فلم اداکار عامر خان پر تو کئی بارعتاب نازل ہو چکا ہے ۔ 2007 ء میں گجرات میں نرمدا بچاؤ تحریک میں مشہور سماجی رکن میدھا پاٹکر کا ساتھ عامر خان نے دیا تھا ۔ میدھا پاٹیکر کا مطالبہ تھا کہ نرمدا ندی پر جو باندھ گجرات کے صنعت کاروں کے فائدے کے لئے بنایا جا رہا ہے ، اس سے متاثرہ گاؤں کے لوگوں کی پریشانی بڑھ جائیگی۔ اس مسئلے پر عرصے سے میدھا پاٹیکر تحریک چلا رہی تھیں ، لیکن میڈیا والے کوئی توجہ نہیں دے رہے تھے ۔ لیکن عامر خان جیسے ہی میدھا کی حمایت میں سامنے آئے ، اور کہا کہ وہ میدھا پاٹیکر کے اس احتجاج میں شامل ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ گجرات حکومت باندھ کی وجہ کران برباد ہونے والے گاؤں کے باشندوں کو دوبارہ بسانے کا انتظام کرے ۔ اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے ، انھیں عامر کا یہ مطالبہ بہت نا گوار خاطر ہوا اور انھوں نے میڈیا میں عامر کو گجرات کی ترقی کا مخا لف بنا کر پیش کیا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس بیان کی پاداش میں عامر خان کی فلم ‘ فنا’ کو گجرات کے سینیما گھروں میں ریلیز تک نہیں ہونے دیا تھا ۔ابھی کچھ دنوں پہلے موجودہ حکومت کی فرقہ واریت ، تشدد، آمریت اور عدم رواداری کے خلاف عامر خان کی بیگم نے کہا تھا کہ وہ لوگ خوف ودہشت اور سراسیمگی کے ماحول میں جی رہے ہیں ۔ شر پسندوں اور منافرت پھیلانے والوں کو یہ بات بھی بہت ناگوار گزری تھی او ر سخت تنقیدی بیانات ، طرح طرح کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ سزا کے طور پر عامر کو ‘اتولیہ بھارت’ کے اشتہار سے الگ کر اپنے جانتے ہوئے بڑا’ کارنامہ’ انجا م دیا تھا۔ بعد میں عامر خان نے جب یہ بتایا کہ اس اشتہار اور ایسے کئی کام جو ملک کے مفادات میں ہوتے ہیں ، ان سے وہ کوئی اجرت نہیں لیتے ہیں اور وہ یہ کام حب الوطنی کے جزبے کے تحت کرتے ہیں ۔ پانسہ الٹا پڑ گیا ، تو اشتہار سے ہٹانے والے کو خود ہی شرمندہ ہونا پڑا۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ فن اور فنکا رکو کسی بھی جغرافیائی حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ فن خواہ کھیل کا ہو ، فلم ، ادب ، مصوری ، موسیقی یا گائیکی کا ہو ، یہ سارے فن اور ان کے فنکار جغرافیائی حدود کو توڑ کر وسعت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس کی ایک نہیں ہزاروں ، لاکھوں مثالیں بھری پڑی ہیں ۔ آج بھی اس ملک کے بچے بچے کی زبان پر علّامہ اقبال کا کلام ‘ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’ یا پھر پاکستان میں لوگ مرزا غالب اور رگھوپتی سہائے فراق کے اشعار لوگ گنگناتے رہتے ہیں ۔ آج جس طرح پروین شاکر کے اشعار یہاں کے نوجوانوں کو سحر زدہ کئے رہتا ہے ، اسی طرح پاک میں منور رانا ، ندا فاضلی اور بشیر بدر کے اشعار لوگوں کو گدگداتے ہیں ۔ صابری برادر اور نصرت فتح علی خان جس طرح اس ملک میں مقبول ہیں ، اس سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کا وطن پاکستان ہے ۔ مہدی حسن یا غلام علی اس ملک کی ہر غزل کی محفل کی جان ہوا کرتے تھے ۔ شہریار کی غزل کو سحر انگیز ی عطا کرنے والی سلمیٰ آغا کی آواز آج بھی جہاں کہیں سنائی دیتی ہے ، لوگ رک کر سننے کو خود کو مجبور پاتے ہیں ۔ محمد رفیع اور لتا منگیشکر وغیرہ کی آواز کو کون سی دیوار روک پائی ہے۔
پاکستان میں جس طرح پریم چند ، کرشن چندر، بیدی، جوگند پال رام لعل، سریندر پرکاش اور گوپی چند نارنگ وغیرہ کو عظمت اور شہرت حاصل ہے یا ہندوستان میں جو مقبولیت او رعزت وافتخار شوکت صدیقی، احمد ندیم قاسمی، جمیل جالبی، وزیر آغا، انور سدید، شہزاد منظر، ، احمد فراز،علی حیدر ملک، زاہدہ حنا ، صبا اکرام اور مرزا حامد بیگ وغیرہ کو حاصل ہے ۔ کیا ان پر پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو کھیل خاص طور پر کرکٹ، فلم اور ادب وغیرہ کے حوالے سے ہند وپاک آزادی ہند یا تقسیم ہند کے بعد بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہند و پاک کے لوگوں کی زبان اور کلچر میں آج بھی یکسانیت ہے ۔فرقہ پرستوں کو کون سمجھائے کہ فن اور فنکاروں کا کو ئی مذہب نہیں ہوتا ، بلکہ یہ ملک، سیاست او رقوم سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ۔لیکن افسوس کہ کچھ مٹھی بھر فرقہ پرست، تشدد پسند ، انتہا پسنداور منافرت پھیلانے والوں کی نگاہ جو تنگ نظری کی شکار ہے ، وہ بس شہرت پانے کے لئے بات بات پر ایسے ہنگامے کرتے ہیں ۔ انھیں اس بات کی قطئی فکر نہیں کہ ان کے ایسا کرنے سے ملک اوربیرون ممالک میں غلط پیغام جا تا ہے اور اس سے ملک کی جمہوری ، آئینی، انسانی اور اخلاقی قدریں پامال ہوتی ہیں ،جو بہر حال ملک کے وقار اور عظمت کے لئے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔