تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ آئین ِجواں مرداںحق گوئی و بے باکی حضرت ابو ایوب انصاری حق گو اور بے باک تھے کہ بڑی سے بڑی طاقت آپ کو اعلائیکلمة الحق سے بازنہیں رکھ سکتی تھی۔سخت سے سخت گورنر کے غیر شرعی اقدام پہ سرزنش فرمایا دیاکرتے اور سنت ِرسول ۖاپنانے کا درس دیتے تھے۔ حق گوئی و بے باکی کے ساتھ کریم النفس اور رقیق القلب بھی تھے۔غلام نواز تھے ۔آپ کے قلب ِصافی میں ہر وقت اصلاح کا جذبہ موجزن رہتا تھا۔خلاف ِسنت امور دیکھ کر آپ کا دل تڑپ اٹھتا۔انتہائی حیادار اور شرم رکھنے والے تھے۔
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان، حافظ ِقرآن ومحدث آپ نے حضورۖ کے سامنے پورا قرآن حفظ فرما کر اپنے نورانی سینے میں محفوظ فرما لیا تھا۔حضور ۖکے دور میں صرف پانچ حفاظ نے کلام ِمجید حفظ فرمایا جن میں سے آپ ایک تھے۔احادیث ِمبارکہ کی سماعت کا ذوق رکھتے اورپیرانہ سالی میں بھی دور دراز سفر فرماکر احادیث ِمبارکہ سنتے اوران کی اشاعت کا اہتمام کرتے تھے۔آپ اشاعت ِحدیث کا بہت خیال رکھتے اور نہایت شوق سے عوام کو حدیث کی تعلیم دیتے تھے۔کسی شخص کو خلاف ِسنت فعل میں مصروف دیکھتے تو فوراََ ٹوک دیتے اور اپنی تنبیہ کے جواز میں اسے رسول ِاکرم ۖکا ارشاد سناتے۔اس پاکیزہ ذوق کی انتہا یہ تھی کہ بستر مرگ پہ بھی اشاعت ِحدیث میں مصروف رہے۔آپ سے ایک سو پچاس احادیث ِمبارکہ مروی ہیںبعض مئورخین نے اس سے زیادہ بھی بیان فرمائی ہیں۔
اِبْنُ الْمَغَازلِْ وَالْحَمْوَیْنِْ اَخْرجاً بسَنَدَیْھمَا عَنْ اَبِْ اَیُّوبِ الْاَنْصَار قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّتِ الْمَلَائِکَةْ عَلَیَّ وَعَلیٰ عَلٍِ سَبْعَ سَنِیْنَ لاَِنَّہُ لَمْ یَکُنْ مِّنَ الْرَّجَال ِغَیْرُہْ ابن ِمغازلی و حموینی نے ابو ایوب انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایامجھ پر اور علی پرفرشتوں نے سات سال درود پڑھا۔اس وقت میرے ساتھ علی کے علاوہ اور کوئی شخص موجود نہ تھا۔ اَلْحَمْوَیْنِْ بِسَنَدِہ عَنْ اَبْ اَیُّوْب قَالَ : قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَقَدْ صَلَّتِ الْمَلَائِکَةْعَلَیَّ وَعَلیٰ عَلٍسَبْعَ سَنِیْنَ لِاَنّاکُنّانُصَلِّْ لَیْسَ اَحَدٍ غَیْرُنَا یُصَلِّ، حموینی ابو ایوب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایاکہ فرشتوں نے مجھ پر اور علی پر سات سال درود بھیجا کیونکہ ہم اس وقت نماز ادا کرتے تھے اور ہمارے سوا اور کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا۔
Abu Ayyub Ansari
اَلْدَّیْلمِْ فِْ الْفِرْدَوسُ فِْ بَابُ الْلّام فِْ الْجُزْئِ الْثَّانِْ عَنْ اَبِْ اَیُّوْب اَلْاَنْصَارِْ قَالَ: قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ الْمَلائِکَةْصَلَّتْ عَلَیَّ وَعَلیٰ عَلٍِّ سَبْعَ سِنِیْن قَبْلَ اَنْ یُسْلِمْ بَشَرٍ ،دیلمی اپنی کتاب فردوس کے باب اللام کے جزثانی میں ابو ایوب انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایاکہ ملائک قبل اس کے کہ کوئی بشر اسلام لائے مجھ پر اور علی پر سات سال درود بھیجتے رہے۔ اِبْنُ الْمَغَازَلِْ اَخْرَجَ حَدِیْثُ الْوَصِیَّةَ لِعَلٍِ بسَنَدِہْ عَنْ اِبْنِ عَبَّاس وعَنْ جَابرْ اِبْن عَبْدَاللّٰہِ وَعَنْ بُرَیْدَةَ وَعَنْ اَبِْ اَیُّوب الْاَنْصَارْ رَضَِ اللّٰہُ عَنْہُمْ: قَالَ الْنَّبُِّ لِکُلّ نَبٍِّ وَصِّ وَوَارثٍ وَاَنَّ عَلِیّاً وَصِِّ وَوَارِثِْ ،ابن ِمغازلی نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت علی کے لیے حدیث ِوصیت کو ابن ِعباس ،جابر بن عبداللہ ، بریدة اور ابو ایوب انصاری سے روایت کیا ہے: رسول اللہ ۖنے فرمایا ہر نبی کا وصی ووارث ہوتا ہے ،میرے وصی اور میرے وارث علی ہیں۔ مَوْفَقْ بِنْ اَحْمَدْبسَنَدِہْ عَنْ اَبِْ اَیُّوب الْاَنْصَارْ رَضَِ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: اَنَّ فَاطِمَةْ رَضَِ اللّٰہُ عَنْہَا اَتَتْ فِْ مَرْض اَبِیْہَا ۖوَبَکَتْ فَقَالَ یَافَاطِمَةْ اِنَّ لِکَرَامَةُ اللّٰہِ اِیَّاکِ زَوْجُکِ مَنْ ھُوَا َقْدَمَہُمْ سِلْماً وَّاَکْثَرَھُمْ عِلْماً وَّاَعْظَمَہُمْ حِلْماً اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلْ اِطْلَعْ اِلیٰ اَھْلِ الْاَرْضِ اِطْلَاعَہُ فَاخْتَارَنِْ مِنْہُمْ فَبَعَثَنِْ نَبِیّاً مُّرْسَلاً ثُمَّ اِطْلَعْ اِطْلَاعَہُ فَاخْتَارَ مِنْھُمْ بَعْلُکِ فَاَوْحٰی اِلََّ اَنْ اَزْوَجَہُ اِیَّاکِ وَاتَّخَذَہُ وَصِیًّا،موفق بن احمد اپنی سند کے ساتھ ابو ایوب انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ اپنے والد کے آخری لمحات میں آپ کے پاس حاضر ہوئیں اور روپڑیں۔
رسول اللہ نے فرمایا،اے فاطمہ !یہ اللہ تعالیٰ کی آپ کے لیے کرامت ہے کہ آپ کاسرتاج اسے بنایا جو صلح کے معاملے میں تمام لوگوں سے مقدم ،اَعْلَمْ و أصْبَرْ ہے ، بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر نگاہ ِانتخاب دوڑائی اور مجھے ان لوگوں میں سے منتخب کیا اور مجھے نبی ورسول مبعوث کر کے بھیجا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری مرتبہ نگاہِ انتخاب دوڑائی اور آپ کے سرتاج کو ان میں سے منتخب کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کی کہ آپ کا عقد علی سے کر دوں اور انہیں اپنا وصی بنائوں ۔ اَخْرَجَ مَوْفَقِ الْخُوَارْزَمِْ بِثَلاَثَةِ طُرُقٍ عَنْ جَابِرْ بِنْ عَبْدِاللّٰہ وَعَنْ عَمَّار بِنْ یَاسِرْ وَعَنْ اَبِْ اَیُّوْب الْاَنْصَارْ قَالُوْاقَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمْ: حَقُّ عَلِّعَلَی الْمُسْلِمِیْن حَقَّ الْوَالِدُعَلیٰ وُلُدِہْ، موفق خوارزمی جابر بن عبداللہ ،عمار بن یاسر اور ابوایوب انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:رسول اللہ ۖ نے فرمایا،علی کا حق مسلمانوں پہ ایسا ہے جیسے باپ کا حق بیٹے پر۔
اَحْمَدُ فِْ مُسْنَدِہ وَاَبُوْنَعِیْم وَاِبْنَ الْمَغَازلِْ وَمَوْفَقْ اَلْخُوَارزَمِْ اَخْرَجُوْابالْاَسْنَادعَنْ اَبِیْ لَیْلیٰ وَاَبِْ اَیُّوْب الْاَنْصَارْ رَضَِ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَا: قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمْ: اَلْصِّدِّیْقُوْنَ ثَلَاثَةْ حَبِیْبِ الْنَّجَارْ وَ ھُوَالْمُؤمِنُ الَّذِْ قَالَ یَا قَوْم اِتَّبِعُوْا الْمُرْسَلِیْن وَ حِزْقِیْل مُؤمِن آلِ فِرْعَوْن اَلَّذِْ قَالَ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلُ رَبَِّ اللّٰہ وَعَلِْ بِنْ اَبِْ طَالِبٍ وَھُوَ اَفْضَلَہُمْ احمد اپنی مسند میںاور ابو نعیم وابن ِمغازلی اور موفق خوارزمی اپنی اسناد کے ساتھ ابو لیلیٰ وابو ایوب انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہاکہ رسول اللہ نے فرمایا؛ صدیق تین شخص ہیں،حبیب ِنجار یہ وہ مومن ہیںجنہوں نے کہا تھا کہ اے میری قوم! رسولوں کا اتباع کرواور حزقیل مومن آل ِفرعون جنہوں نے کہا تھا کہ تم اسے قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور علی ابن ِابی طالب اور وہ ان سے افضل ہیں ۔
Abu Ayyub Ansari
تَفَقُّہْ فِْ الْدِّیْن سیدناابوایوب علم و فضل کے اعتبار سے متبحر عالم تھے ۔ دنیا آپ کی معترف تھی جس باعث مرجعیت ِعامہ رکھتے تھے۔ جلیل القدر صحابہ آپ سے استفادہ کرتے تھے۔اصحاب ِکبار و تابعین ِعظام کی ایک جماعت نے آپ سے استفادہ کیا اور علمی کمالات سے فیضیاب ہوئے۔ تَفَقُّہْ فِ الْدِّیْن کے باعث پیچیدہ مسائل آن ِواحد میں نہایت خوش اسلوبی سے حل کردیتے تھے۔حبر الامہ حضرت عبداللہ ابن عباس آپ سے استفادہ فرمایا کرتے۔
راہِ حق کا سرفروش حضرت ابو ایوب انصاری ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کے پہلے معرکہ ”غزوئہ بدر”کے تین سو تیرہ مقدس اصحاب ِرسول میں سے ہیں۔اس جنگ میں مٹھی بھر بے سروسامان فرزندان ِتوحید کے ہاتھوں طاغوت کے بڑے بڑے بت سرنگوں ہو گئے اور صنم کدوں میں افسردگی چھا گئی ۔اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کو صداقت ِاسلام کی دلیل یَوْمُ الْفُرْقَانْ قرار دیا۔اصحا ب ِکبار بے سرو سامانی کے باوجود محض اللہ کے رسول کی خوشنودی کی خاطر کفر کی مہیب طاقتوں سے ٹکرا گئے۔اس روززخمی ہو کر حضرت عبیدة بن حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا ابو طالب کا یہ شعرحضور ۖ کی خدمت میں سنایا؛ کَذَّبْتُمْ وَبَیْتِ اللّٰہِ نَبْرُٔ مُحَمَّداً وَ لَمّا نُظَاعِنُ دُوْنَہُ وَ نُنَاضِل وَ نُسْلِمُہُ حَتّٰی تُضَرّعَ حَوْلَہْ وَنَذْھَلَ عَنْ اَبْنَآئِنَا وَالْحَلائِلْ خدا کے گھر کی قسم !تم جھوٹے ہو کہ ہم محمدکو چھوڑ دیں گے حالانکہ ہم ان کی طرف سے اپنی جانیں لڑا دیں گے ہم رسول اللہ کی حفاظت کریں گے یہاں تک کہ ان کے گرد لڑ کر مر جائیں ۔
Abu Ayyub Ansari
ہم محمدۖکے لیے اپنے بیٹوں اور ازواج کو بھول جائیں گے یہ سن کر رسول اللہ ۖنے فرمایا ،”دیکھتے نہیں کہ ان کا بیٹا شیر غازی کی طرح خدا اور خدا کے رسول کے حضور میں دشمنوں کا شکار کر رہا ہے اور ان کا دوسرا بیٹا سرزمین ِحبشہ پہ راہِ ِخدا میں جہاد کر رہا ہے۔ ”آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمایا، ”تم نے میرے شفیق تایا کو مجھے یاد دلا دیا۔”اصحاب ِبدر کو تاریخ ِاسلام میں بڑی اہمیت اور درجہ حاصل ہے۔رسول اکرم ۖ نے متعدد مواقع پر اصحاب ِبدر کی فضیلت بیان فرمائی اور ہمیشہ انہیں اعزاز و اکرام سے نوازا۔ایک دفعہ حضور مسجد نبوی شریف میں صحابہ کرام کے حلقے میں تشریف فرما تھے ۔
مجلس ِاقدس میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔اتنے میں کچھ بدری صحابہ وہاں آگئے اور بیٹھنے کے لیے جگہ نہ ہونے کے باعث ایک طرف کھڑے ہو گئے ۔حضورۖ انہیں کھڑا دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور ان اصحاب سے جو غزوئہ بدر میں شریک نہیں تھے مخاطب ہو کر فرمایا،”تم اپنے بدری بھائیوں کے لیے جگہ خالی کر دو۔ ”اس سے اصحاب ِبدر کی فضیلت اور قدر و منزلت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہو۔سرور ِکونین ۖ کے وصال کے بعد بھی اہل ِاسلام میں اصحاب ِبدر کی فضیلت ہمیشہ مسلّم رہی اور میزبان ِرسول ۖ،ابو ایوب لاتعداد مناقب کے ساتھ اصحاب ِبدر میں سے ہونے کے باعث خاص شرف رکھتے ہیں۔
غزوئہ بدر کی دو خصوصیتیں قابل ذکر ہیں۔ایک یہ کہ اس کا حال اللہ رب العزت نے خود قرآن ِمجیدسورة انفال میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے،دوسری یہ کہ اس جنگ میںاللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خاص طریقوں سے تائید و نصرت فرمائی ۔عبداللہ ابن ِعباس روایت کرتے ہیں کہ بدر کے دن ملائکہ سفید عمامے باندھ کر نازل ہوئے جن کے شملے پشت پر تھے۔سورة آلِ عمران میں ارشاد ِربانی ہے، یَرَوْنَھُمْ مّثْلَیْھِمْ رَأیَ الْعَیْنِج ١٣:٣، وہ اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے۔ غزوئہ بدر شوکت ِاسلام کا سنگ ِبنیاد تھا اور مسلمانوں کی فتح ِمبین قریش کے اقتدار پر کاری ضرب کی حیثیت رکھتی تھی۔
Abu Ayyub Ansari
اَلْجَنَّةُ تَحْتَ ظِلاَلِ الْسُّیُوْفِ حضرت ابو ایوب انصاری اسلام وکفر کی تمام جنگوں میں لشکر ِاسلام کا ہراول دستہ ثابت ہوئے اور تمام غزوات میں ولولہ انگیزشرکت فرمائی۔غزوئہ احد میں حضور کے ثابت قدم جانثار رہے اورغزوئہ احزاب میں خندق کھودتے وقت فرماتے؛ نَحْنُ الَّذِیْنَ بَا یَعُوْا مُحَمَّدََاً، عَلَی الْاِسْلَامِ مَا بَقِیْنَا اَبَداً،ہم وہ ہیں جنہوں نے ہمیشہ کے لیے محمد ۖ کے دست ِمبارک پہ اسلام کی بیعت کی ہے۔خندق کھودتے وقت آپ پر تین تین دن کے فاقے گزرتے اور آپ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے ۔ آپ کا مطلع ِاخلاق، جوش ِایمان اور شوق ِجہاد کے انوار سے روشن تھا ۔آپ رسول ِاکرمۖ کے ساتھ شروع سے لے کر آخر تک تمام غزوات میں شریک ہوئے ۔آپ کا اکثر وقت اسلام کی خاطر جدو جہد میں گزرا۔
کوئی غزوہ یا سریہ ایسا نہ تھا جس میںتیغ ِابو ایوب کے جوہر شجاعت دکھائی نہ دیے ہوں۔آپ کے بارے میں معروف تھا ،”یہ اسلام کی خاطر کسی جنگ سے دور نہیں رہ سکتے ، ایک سے فارغ ہو کر دوسری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔” نہ مسجد میں نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سائے میں نمازِعشق اداہوتی ہے تلواروں کے سائے میں بیعت ِرضوان غزوئہ بدرواحداور احزاب میں شرکت کے بعد یہ عظیم المرتبت صحابی ٔرسول ،بیعت ِرضوان کے شرف سے بھی مشرف ہوئے۔بیعت ِرضوان تاریخ ِاسلام کا عظیم الشان واقعہ ہے اور جو صحابہ کرام اس بیعت میں شریک ہوئے انہیں اَصْحَابِ الْشَّجْرَةْ کے نام سے پکارا گیاہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضاکی بشارت دی ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری ا ن چودہ سو اصحاب ِشجرة میں شامل تھے جنہوں نے نہایت ذوق و شوق سے حضور کے دست ِاقدس پر ایک درخت ”سمرة” کے نیچے بیعت کی ۔ اصحاب ِشجرہ کے متعلق سورة فتح میںارشاد ِربانی ہوا، لَّقَدْ رَضَِ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الْشَّجَرَةِ،١٨:٤٨ بے شک اللہ راضی ہوا مسلمانوں سے جب بیعت کرتے تھے آپ سے درخت کے نیچے۔ اس طرح حضرت ابو ایوب انصاری کورضائے الٰہی کاایک اور پروانہ نصیب ہوا۔
Dr Syed Ali Abbas Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ