تحریر : محمد ارشد قریشی میری زندگی کی یہ وہ تحریر ہے جسے سید انور محمود صاحب نہیں پڑھیں گے۔ اپنی ہر تحریر ہر شعر اور ہر فیس بک پوسٹ پر مجھے ان کی رائے کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور آج نہایت کرب کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ان کے بارے میں لکھی یہ پہلی تحریر ہوگی جس پر ان کی کوئی رائے نہیں ہوگی۔ آہ ! آج آپ کے کالم کے لوگو پر درج تحریر ”سچ کڑوا ہوتا ہے ” پر شدت سے یقین ہوچلا کہ سچ اسقدر کڑوا ہوتا ہے اور یہ سچ ہے کہ آپ ہم میں نہیں رہے۔
میں نے جب سے لکھنا شروع کیا اسی وقت سے مجھے انور محمود صاحب کی صحبت نصیب ہوئی ، ان سے پہلی ملاقات ہماری ویب رائیٹر کلب کے گورننگ باڈی اور عہدیداران کے انتخاب کے موقع پر فاران کلب میں ہوئی جہاں وہ سفاری سوٹ میں ملبوس میرے سامنے کی نشست پر موجود تھے جب گورننگ باڈی کے ممبر کے لیئے میرا نام پکارا گیا تو وہ مسکراتے ہوئے میری جانب متوجہ ہوئے میں جوں ہی ان کے قریب گیا تو بہت گرم جوشی سے انہوں نے اپنے گلے لگا یا ، پہلی ملاقات پر جو الفاظ مجھے ادا کرنے تھے وہ انہوں نے مجھ سے پہلے ہی ادا کردیئے میرے پاس اب مزید الفاظ نہیں تھے جو میں ان کے شایانہ شان ادا کرتا بس اتنا ہی کہہ سکا سر اللہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ ان کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ان کے صاحبزادے نبیل زیادہ تر تقریبات میں ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔
انور محمود صاحب میرے لیئے نہ صرف ایک صحافتی استاد کا درجہ رکھتے تھے بلکہ ایک مخلص دوست کی طرح بھی تھے بہت بے تکلفی سے ملا کرتے تھے اکثر ہماری میسنجر پر بات ہوا کرتی تھی، لیکن جب بھی ان کا پیغام نمودار ہوتا تھا تو سلام کے بعد پہلا جملہ لکھا ہوتا تھا کہ کیا ہم اس وقت بات کرسکتے ہیں ، میں نے کئی دفعہ کہا کہ سر مجھے شرمندگی ہوتی ہے آپ بات کرنے سے قبل ایسا مت لکھا کریں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں سے ایسا نہ لکھا ہو۔ کبھی میرے کہے کسی شعر پر کبھی میرے لکھے کالم یا فیس بک پوسٹ پر گفتگو کرتے تھے کبھی کہیں میری اصلاح کرتے تھے اور کبھی میرے شعر یا تحریر پر کوئی چٹکلہ بھی کہہ دیتے تھے۔
دو ستمبر بروز ہفتہ عیدالاضحی کی صبح 05 بج کر 28 منٹ پر انہوں نے اپنی فیس بک وال پر ایک عید کارڈ پوسٹ کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کو عید کی مبارک باد پیش کی۔ دن بھر قربانی کی مصروفیات رہیں شام میں مغرب کی نماز کے بعد میں فیس بک پر آیا تو دو نہایت معزز اور قابل احترام شخصیات کی پوسٹ میرے سامنے تھیں ایک پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کی مکہ مکرمہ سے حج کی تکمیل کے بارے میں اور دوسری محترم سید انور محمود صاحب کی عید مبارک کی دونوں قابل احترام اساتذہ کو مبارک باد دی اور ساتھ ہی انور محمود صاحب کی پوسٹ پر رات 07 بج کر 57 منٹ پر ایک کمنٹ لکھا جو ان کی گذشتہ عیدالاضحی کی ایک شوخ سی پوسٹ کے بارے میں تھا جس کے جواب میں انور محمود صاحب نے رات 10 بج کر 16 منٹ مجھے لکھا کہ ” اس محبت کا بہت بہت شکریہ ” ابھی میں ان کا کمنٹ پڑھ ہی رہا تھا کہ میسنجر پر وہی پیغام آیا کہ کیا ہم اس وقت بات کرسکتے ہیں۔ میرے جواب کے بعد ان کا اگلا پیغام تھا کہ ” یار تم بہت محبت کرنے والے انسان ہو لوگ مرنے کے بعد باتیں یاد کرتے ہیں تم میرے جیتے جی میری باتیں یاد رکھتے ہو ” پھر قربانی کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور ان کے اختتامی الفاظ یہ تھے کہ چلو میرے جوان پھر اب ملاقات ہوگی صمدانی صاحب کی حج سے واپسی پر ان شاء اللہ اور یہی ان کی زندگی کے میرے لیئے آخری الفاظ بھی ثابت ہوئے اسی رات 01 بج کر 31 منٹ پر جب دن اتوار اور تاریخ 03 ستمبر میں داخل ہوچکی تھی انہوں نے اپنی فیس بک وال پر ایک سو لفظوں کی کہانی بعنوان کوئز مقابلہ تحریر کرکے پوسٹ کی جو ان کی زندگی کی آخری پوسٹ ہے۔اسی دن اتوار کی شام اچانک یہ دل دہلا دینے والی خبر سننے کو ملی کہ سید انور محمود صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
میری ان سے آخری بلا مشافہ ملاقات 19 اگست کی شام کریسنٹ اکیڈمی گلشن اقبال میں منعقدہ ہماری ویب رائیٹر کلب کی ایک تقریب میں ہوئی جونہی میں تقریب گاہ میں داخل ہوا تو بہت پر جوش انداز میں مجھے گلے لگایا اور ان سے اس دن ڈھیروں باتیں ہوئیں۔سید انور محمود صاحب ایک اچھے کالم نگار، استاد، محسن اور اچھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے اور شفیق باپ، ایک بہت خیال رکھنے والے شوہر اور بہت محبت کرنے والے دادا بھی تھے ان کی فیس بک پر موجود اکثر پوسٹ اپنی پیاری پوتی کے حوالے سے ہوتی تھیں جو محبت سے لبریز اور قابل رشک الفاظوں پر مشتمل ہیں۔
گوکہ سید انور محمود صاحب اب ہم میں موجود نہیں اور ان کا قلم جو ہر روز کئی کڑوے سچ اگلتا تھا اب ہمیشہ کے لیئے خاموش ہوگیا لیکن وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ہم شائید ان جیسا کبھی نہیں لکھ پائیں لیکن ان کے لکھے کو مشعل راہ بنا کر ان کے مشن کو جاری رکھیں گے۔ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں اعلی مقام عطاء فرمائے اور ان کے لواحقین کو اس عظیم صدمے کو برداشت کرنے کی ہمت اور صبر عطاء فرمائے۔ آمین۔