سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

عدالتی معاملات سے فراغت کے بعد لاہور ہائی کورٹ قائد اعظم کیفے ٹیریا میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے چائے کے دوران گفت و شنید جاری تھی اتنے میںموبائل فون کی گھنٹی بجی فون رسیو کیا ،فون نمبراجنبی لیکن آواز جانی پہچانی تھی، خالد محمود بھٹی ہمیشہ کی طرح اپنا تعارف کرواے بغیر میرا حال احوال پوچھنے میں مصروف تھا لیکن میں یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ فون کی دوسری جانب کون ہے ؟آخر کار درست اندازہ لگاتے ہوئے میں نے پوچھا خالد پاکستان کب آئے؟ خالد محمود بھٹی نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا وکیل ہو نہ پہلے شناخت کرو گے۔

جی جناب آپ کا خادم خالد کل ہی انگلینڈ سے واپس آیاہوں اور آپ سے بہت ضروری کام کے سلسلہ میں ملنا چاہتا ہوں ۔کہاں ہیں آپ ؟خالد محمود بھٹی میرا بے تکلف دوست ہے سو میں نے قائد اعظم کیفے ٹیریا لاہور ہائی کورٹ میں آنے کو کہہ دیا۔وہ اس قدر جلدی میں تھا کہ بجلی کی سی تیزی سے چند منٹوں میں قائد اعظم کیفے ٹیریا پہنچ گیااور آتے ہی اس نے مجھے ایک کاغذ جس پر موبائل نمبرکے ساتھ سید عرفان احمد شاہ کا نام درج تھا پکڑاتے ہوئے کہا کہ اس نمبر پر کال کرو ! میں اس شخصیت سے ملنے پاکستان آیا ہوں میں نے اس سے پوچھا کہ یہ نمبرکہا ںسے لیا ہے تو اس نے کہا انگلینڈ کے ایک نیوز پیپر میں ایک کالم پڑھا تھا جس میں سید عرفان احمد شاہ کی روحانی شخصیت کے متعلق کچھ ایسی باتیں تحریر تھی کہ جنہیں پڑھنے کے بعداُس روحانی شخصیت سے ملنے کی تمنا نے اس قدر زور پکڑا کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً ہی پاکستان چلا آیا۔

میں نے سوال کیا آخر ایسا کیا تحریر تھا اُس کالم میں ؟بولا،سید عرفان احمد شاہ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیںآپ عرصہ تیرہ سال تک عالم مجذوبی میں رہے اور نانگا مست کے نام سے مشہور ہیں اس طویل عرصہ تک آپ نے خود کو دنیا مافیا سے الگ تھلگ رکھا دنیاوی امور میں آپ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی، قرب الہٰی کے حصول میں طویل عرصہ ریاضت کی اس ریاضت میں خلوص سے اللہ رب العزت سے معافی کی طلب اور آدمی سے انسان کا رتبہ حاصل کرنے کی جستجو کی۔پھر اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کی والد ہ ، بزرگوں اور صالحین کی دعائوں سے وہ سب کچھ عطاء کر دیا ہے جو آپ کی خواہشات اور تواقعات سے بہت زیادہ تھا۔آپ نے کامل انسان کا روپ دھار کرخود کو انسانیت کے لیے وقف کر دیا آپ کی روحانی خدمات کا اعتراف صوفی ازم پر یقین رکھنے والا ہر ذی روح کرتا ہے آپ کا فیض داتا گنج بخش فیض عالم حضورکی نگر ی لاہورمیں جاری وساری ہے جس سے ہرمکتبہ فکر کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں ۔ اولیا اللہ کا کام دنیا کے معاملات سے آگے ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کاایک مخفی پہلو یہ بھی تھا کہ وہ صوفی ازم پر کامل یقین رکھتی تھیں وہ ذہنی سکون کے لیے برگزیدہ ہستیوں کے آستانوں پر باقاعدگی سے حاضری دیتی تھیں انہیں سید عرفان احمد شاہ کی قربت بھی نصیب ہوئی وہ آپ کی روحانیت اور بزرگی کی بڑی قائل تھیں۔27 دسمبر 2007ء کو سید عرفان احمد شاہ نے بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی جانے سے روکا تو محترمہ نے جواب دیا شاہ جی میری عمر چھپن برس ہوگئی اور کتنے سال جیوں گی میرا مرنا جینا اس ملک کے غریب عوام کے لیے ہے اگر مجھے شہادت نصیب ہوتی ہے تو میں سمجھو ں گی کہ یہ خسارے کا سودا نہیں۔

پھر 27دسمبر کو وہی کچھ ہواجس کا خدشہ سید عرفان احمد شاہ نے ظاہر کیا تھا سید عرفان احمد شاہ جیسے مرد کامل انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی عطاء ہوتے ہیںجو لوگوں کے مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں ان کو شرک وبدعت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ مرد کامل ا پنی رو ح سے ہم کلام ہو کر عشق الٰہی میں بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے اور اپنے نفس کی لذتوں کو چھوڑ کر قدرت کی طرف سے صدہا مسرتیں حاصل کر کے انسانیت کی خدمت کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیتا ہے مرد کامل اسرار کے میدان کا شیر ہے وہ دوسروں کے دل کی کیفیت کو جانتا ہے جو کوئی دل میں سوچتا ہے لیکن پردہ پوشی کرتے ہوئے مسکراتا ہے خالد کی گفتگوسنتے سنتے میں خود سحر زدہ سا ہوگیا اور مجھے بھی اُس روحانی شخصیت سے ملنے کااشتیاق ہونے لگا۔

میںنے دھٹرکتے دل سے آپ کو کال کی اور ملاقات کا وقت مانگا۔ شاہ صاحب نے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے کس سلسلے میں ملنا ہے مجھے لوگوں سے ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ میں نے شاہ صاحب کو بتایامیرانام محمد رضا ایڈووکیٹ ہے ۔ میرا دوست خالد محمود بھٹی انگلینڈ سے صرف آپ سے ملنے کی خواہش لئے پاکستان آیا ہے۔میں اور خالداس وقت لاہور ہائی کورٹ قائد اعظم کیفے ٹیریا میں موجود ہیں اگر ہوسکے تو ابھی کچھ وقت دے دیں۔شاہ صاحب نے اپنے آفس الغنی ہائوس ساندہ روڈلاہور میں ایک گھنٹے بعد ملاقات کا وقت دے دیا۔ ہم مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے تو شاہ صاحب کی کال آئی کہ وکیل صاحب آپ نے ایک گھنٹے بعد آنا تھا لیکن آپ نہیں پہنچے ۔میں نے بتا یا کہ ہم راستے میں ہیں اور آپ کے پاس دس منٹ تک پہنچ جائیں گے ۔جیسے ہی ہم آپ کے آفس پہنچے اور سید عرفان شاہ سے ملے تو ہمیں آپ کے پر نور چہرے کی رونق اور آنکھوں کی چمک اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ یہ صاحبِ نظر سادات ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔

مجھے آپ میں ایک پراسرار روحانیت نظر آئی جس سے ہمیں مل کر بے پناہ سکون ملا۔میری نظریں ایک گھنٹے کی ملاقات میں سارا وقت آپ کے چہرے کا طواف کرتی رہیں اور میں خاموشی سے خالد محمود بھٹی اور شاہ صاحب کی باتیں سنتا رہا ۔میں ہمیشہ اپنی دعائوں میں اللہ سے یہ دعا مانگتا کہ میری کسی صاحب نظر سے ملاقات ہو جائے میری وہ دعا اس وقت قبو ل ہوگئی۔یوں لگا جیسے شاہ صاحب سے مل کر میری تلاش کومنزل مل گئی ۔ مجھے ا یسا احساس پہلے کبھی کسی بزرگ سے مل کرنہیں ہو اجیسا سید عرفان احمد شاہ سے مل کرہوا تھا ۔دل میں بار بار ملنے کی تمنا لئے آپ کے آفس سے رخصت ہوئے ۔ خالد محمود بھٹی چندروز بعد واپس انگلینڈ چلا گیا جب کہ میری ملاقاتوں کا سلسلہ آج بھی سید عرفان احمد شاہ کے ساتھ جاری ہے۔اپنی وکالت کی عادت سے مجبور میں شاہ صاحب سے اُن کی شخصیت ،ماضی ،اور زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق سوالات کرنا اُن کی صحبت میں وقت گزانے کا بہانہ بناکر اکثر اُن کے پاس بیٹھا روحانیت کے مزے لوٹتا رہتا ہوں۔سوچا ایسی پیاری شخصیت سے حاصل ہونے والی مفید معلومات کو خود تک محدود رکھنا سراسرناانصافی ہوگی سواب تک کی گفتگوکو دوسرے تک پہنچانے کی نیت سے کاغذ قلم لے بیٹھا ،جو کچھ تحریر کر پایا وہ حاضر خدمت ہے ۔

خاندانی پس منظر: پیر سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست سرکارکے پردادا سید عبدالرحمان نے 1850ء میں بغداد شریف عراق سے آکر آگرہ میڈیکل سکو ل میں تعلیم حاصل کی ۔انہوں نے 1860ء میں برٹش فوج میں کمیشن حاصل کیا اور ڈاکٹر لیفٹیننٹ (MID) کے عہدے پر فائز ہوئے آپ کی نو عمری میں ہی سنت رسول ۖ کے مطابق پوری داڑھی تھی ۔اس وقت انگریز فوج میں داڑھی والوں کو اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا جس انگریز آفیسر نے بھی آپ کو کہا کہ شاہ صاحب صبح شیو کروا کر آئیں تو وہ انگریز آفیسر دوسرے دن ہی مسلمان ہو گیا ۔آپ کی اس کرامت کی خبر جب وائسرائے کو پہنچی تو اس نے تمام افسران کو حکم دیا کہ سید ڈاکٹر عبدالرحمان سے کوئی روحانیت کے بارے میں یا داڑھی کے متعلق کوئی بات نہیں کرے گا۔ اس وقت ایبٹ آباد کا نام شیروان تھا۔شیروان کا نام ایبٹ آباد رکھنے کے وقت آپ کی لڑائی ایبٹ نامی مال آفیسر سے ہو گئی برطانوی فو ج میں فوجی آفیسر کو سول آفیسر سے بڑا سمجھاجاتا تھا۔ آپ شیروان کانام کسی اولیا ء اللہ کے نام سے رکھنا چاہتے تھے ۔ آپ نے کہا میں عراقی سید ہوں اور میں پڑھائی اور عہدہ میں بھی بڑا ہوں میری بات مانی جانی چاہے لیکن انگریز آفیسر زآپ کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہ مانے اور شیروان کا نام ایبٹ آباد رکھ دیا گیا جس کے بعد آپ کی تعیناتی منٹگھمری ساہیوال ہو گئی ۔آپ دوبارہ ایبٹ آباد نہ آئے ۔آپ کے گائوں40/12L کے ساتھ ایک گائوں 109/12Lسے چوکیدار عبدالمجید پٹھان نے آکر اطلاع دی کہ صوبیدار میجر محمد علی کی بیوی فوت ہو گئی آپ نے کہا کہ کل ہی میں نے اسے چیک کر کے دوائی دی تھی وہ نہیں مر سکتی ۔آپ ڈاکٹر بھی تھے اور کلام الٰہی سے مخلوق کا علاج بھی کرتے تھے ۔آپ جب اس گائوں میں پہنچے تو لوگ اس عورت کا جنازہ لے کر قبر ستان جا رہے تھے ۔آپ نے وہاں پہنچ کر جنازے کو روکا اور کہا کہ جنازے کو واپس گھر لے چلو یہ عورت تو زندہ ہے پہلے تو کچھ لوگوں نے مزاحمت کی جو لوگ شاہ صاحب کو جانتے تھے انہوںنے شاہ صاحب کے حکم کی تعمیل کی اورجنازے کو گھر لے آئے ۔شاہ صاحب نے صوبیدار کی بیوی کے جسم کے مختلف جوڑوں پر بھیڑوں کا دودھ منگواکر عورتوں سے مالش کروائی ۔لوگ حیرت سے تمام ماجرا دیکھ رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد عورت کا انگوٹھا ہلا تو لوگ ڈر گئے ۔آہستہ آہستہ عورت کا پورا جسم کام کرنا شروع ہو گیا اور وہ عورت اٹھ کر بیٹھ گئی آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کو دو بیٹے عطاء کرے گا۔

Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah

Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah

ایک کا نام نورالہادی اور دوسرے کا نام عبدالہادی رکھنا اسی طرح ہی ہوا وہ عورت بڑا عرصہ زندہ رہی ۔آپ فرماتے تھے میرے خاندان میں کوئی مست مجذوب پیدا ہو گا اور سالک (ہوش) بھی ہوگا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آپ کی بات سچ ثابت ہو گئی۔سید عرفان احمد شاہ کے دادا کے بھائی سید حبیب الرحمان تھے ۔اس وقت برصغیر کے چار بیرسٹر بنے جن میں سید حبیب الرحمان ، سید عبداللہ ، قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی تھے ۔تمام لوگ چار بجے اکٹھی چائے پیتے تھے۔آپ کے دادا حبیب الرحمان اکثر فرماتے تھے کہ گاندھی اور جناح تم کچھ نہ کچھ ضرور کرو گے ۔دادا کی بات سچ ثابت ہوئی۔

ولادت با سعادت: سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست کی والد ہ ماجدہ امام بری سرکار اسلام آباد کے پاس ایک قصبہ نو رپور شاہاں میں رہائش پذیر تھیں۔راستے میں بڑا جنگل پڑتا تھا۔والدہ محترمہ کو راستے میں ایک بزرگ ملتے وہ والدہ محترمہ کو ایک لیموں دیتے جس کی تاثیر یہ تھی کہ گرمیوں میں پانی میں ڈالنے سے پانی ٹھنڈا اور میٹھا ہو جاتا تھا۔والدہ محترمہ اور جن لوگوں نے لیموں کا پانی پیا وہ بھی پانی کی یہی تاثیر بیان کرتے تھے۔ وہ بزرگ والدہ محترمہ کو فرماتے تھے کہ آپ کے ہاں ایک مست مجذوب بچہ پیدا ہو گا ۔تین سال تک اس کو گود میں کھیلانا اور اس کے بعد اس کو کسی درگا ہ میں دے آنا۔مائی صاحبہ نے کہا کہ میرے شوہر کے ابائواجداد بھی یہی ذکر کرتے ہیں 11 اگست 1973ء کو سید ممتاز احمد شاہ کے سادات گھرانے نور پور شاہاں اسلام آباد میں سید عرفان احمد شاہ کی ولادت ہوئی پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بچہ دیکھنے میں چاند کا ٹکڑا اور پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا تھا۔

بچپن میں جھولے سے غائب ہونا: آپ کی عمر دو ماہ تھی کہ والدہ محترمہ آپ کو جھولے میں لیٹا کر اپنے کام میں مصروف تھیں کہ ملازمہ نے آکر بتا یا کہ جھولا ہل رہا ہے اور جھولے سے شاہ صاحب غائب ہیں ۔جب پورے گھر کی تلاشی لینے پر کچھ معلوم نہ ہوا توتلاش کادائرہ گائوں کی سرحدوں تک پہنچنے میں چند منٹ ہی لگے اورنور پو ر شاہاں میں شور برپا ہو گیا کہ سادا ت کے بچے کو کوئی اٹھا کر لے گیا ہے ۔تلا ش کے بعد گائوں سے تھوڑی دور کوئووں کا شور تھا وہاںسے بچہ مل گیا جس کے ہاتھ پائوں مڑے ہوئے تھے یہ بات پورے علاقے میں مشہور ہو گئی کہ بچے کو جنات اٹھا کر لے گئے تھے ۔بچے کو دم کروانے کے لیے بہت سارے امام مسجدوں کے پاس لے کر گئے ۔جو بھی امام مسجد دم کرتا اس کے ہاتھ پائوں بھی اسی طرح مڑ جاتے جیسے ہی بچے کو وہاں سے دور لے جاتے امام مسجد کے ہاتھ پائوں ٹھیک ہو جاتے ۔آخر کار والد ہ محترمہ شاہ صاحب کو سید غلام محی الدین المعروف پیر بابو جی گولڑہ شریف کے پاس لے کر گئیںاور دم کرنے کا کہا پیر بابو جی نے شاہ صاحب کو دیکھااور کہا کہ شاہ صاحب کو کوئی دم نہیں کر سکتا اور وہاں تمام لوگوں کو بتا یا کہ کبھی بھی یہ مائی صاحبہ شاہ صاحب کو دم کروانے کے لیے آئے تو شاہ صا حب کو ئی دم نہ کرے پیر بابو جی سرکار نے فرمایا کہ شاہ صاحب کو گھر لے جا کر سفید تولیے میں لپیٹ کر رکھ دیں صبح تک ہاتھ پائوں خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے اوراگلی صبح اسی طرح ہی ہوا ۔اس واقعہ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی جس کسی کو بھی آسیب ہوتا تو وہ سید عرفان احمد شاہ صاحب کا پہنا ہوا کوئی کپڑا لے جاتا تو اس کا آسیب دور ہو جاتا۔

جسم کے عضا ء کا علیحدہ علیحدہ ہونا: تین سال کی عمر کے بعد نوکروں نے آکر شور مچانا شروع کرد یا کہ بچے کو کسی نے قتل کر دیا ہے ۔گردن اور جسم دور دور پڑے ہیں گھر والے وہاں پہنچتے تو بچہ ٹھیک ہوتا بزرگ مائی صاحبہ کے خواب میں ملتے اور وعدہ یاد کرواتے کہ بچے کو تین سال تک گود میں کھلانے کا وعدہ تھا اب بچے کے کپڑے اُتار کر کسی درگاہ پر چھوڑ آئو لیکن والدہ کسی طرح بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کوخود سے دور کرنے پر تیار نہ تھیں۔ بزرگ مسلسل ملتے رہے ایک دن خواب میں بزرگ نے کہا کہ اب تو بچے کے ٹکڑے جڑ جاتے ہیں نہ جڑے تو کیا کرو گی آخر کارمائی صاحبہ نے آپ کو ساڑھے تین سال کی عمر میں سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا حضوردربار کے درواز ے پر جہاں آ ج سونے کا دروازہ ہے وہاں آپ کو کپڑے اتار کر بٹھا دیا اور کہا کہ آپ کو میںاللہ ،رسول ۖاور صالحین کے سپرد کرتی ہوں اور کہا بیٹا آپ نے یہاں ہی بیٹھے رہنا ہے یہاں سے کہیں نہیں جانا۔

عالم مجذوبی کے دور کے واقعات: سید عرفان احمد شاہ نے عرصہ تیرہ سال تک عالم مجذوبی میں رہے ہر رات کسی نہ کسی روحانی بزرگ سے ملاقات ہوتی اور وہ شاہ صاحب کی روحانی تربیت فرماتے آپ رات کو چلتے دن کو بیٹھے رہتے وہاں داتا دربار میں پولیس چوکی بن گئی آپ اکثر خواجہ غریب نواز کے ہجرے کے سامنے بیٹھے رہتے ۔اکثر آنے جانے والے لوگ تنگ کرتے ،پتھر مارتے ، گالی گلوچ کرتے آپ کو دیوانہ، مست مجذوب سمجھ کر آپ کی شان میں گستاخی کرتے اکثر لوگ آپ کو مینٹل ہسپتال میںداخل کرواتے اور کہتے اس مجذوب کا علاج کرو مینٹل ہسپتال کے ڈاکٹرز جب آ پ کو علاج کی غرض سے بجلی کے جھٹکے لگاتے تو آپ اٹھ کر بیٹھ جاتے ان بجلی کے جھٹکوں کا آپ کے اوپر کچھ اثر نہ ہوتا جبکہ کسی بھی شخص کو بجلی کا کرنٹ لگایا جائے تو اس کا پیشاب نکل جاتا ہے۔ایک با ر چوکی انچار ج بشیر پہلوان نے آپ کو اسٹیشن پر لے جا کر ایک ہوٹل والے کوفروخت کر دیا ہوٹل والوں نے کام پر لگا لیا آپ کوہوٹل کے اندر کی جانب برتن صاف کرنے کے لیے دے دیے آپ نے بڑے بڑے برتن منٹوں میں صاف کردیے ہوٹل والے ڈر گئے انہوں نے آپ کو فوراً چھوڑ دیا اور بشیر پہلوان کو کہا یہ تو کوئی اور ہی معاملہ ہے جب بشیر پہلوان ایس ایچ او گوالمنڈی لگا تو آپ نے اس کو وہ واقع یاد دلایا تو وہ تھر تھر کانپنے لگا اور بولا پتہ نہیں میری معافی ہو گی یا نہیںآپ نے کئی سال تک خاموشی اختیار کیے رکھی۔لوگوں نے اور پولیس والوں نے جب آپ کو بہت زیادہ تنگ کیا تب آپ نے اپنی خاموشی توڑ کر کہا کہ مجھے بتائو میں لڑکا ہوںیا لڑکی ؟اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکا اس کے بعد پولیس اور عام لوگوںنے تنگ کرنا چھوڑ دیا۔ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے والد اور والدہ کی دُعا کی درخواست : عالم مجذوبی میں بہت ساری شخصیات آپ سے ملیں جن میں میاں محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اوران کی اہلیہ اکثر رات کے دو بجے داتا دربار میں حاضری کے لیے آتے اور آپ سے دعا کے لیے کہتے آپ نے میا ں محمدشریف سے فرمایا !میاں صاحب آپ چوہدری نہیں بن سکتے حکمران بنیں ۔میاں شریف نے کہا کہ کسی بزرگ نے پہلے بھی کہا تھاکہ آپ چوہدری نہ بنیں بلکہ حکمران بنیں۔
کاغذکے ٹکڑوں کا کرنسی نوٹ بن جانا : بابا محمد شفیع کوٹ عبداللہ شاہ کنک منڈی مزنگ میں رہتے تھے اور اکثر عالم مجذوبی میںآپ کے ساتھ ملاقات ہوتی بابا محمد شفیع آپ کو کاغذوں کے ٹکڑے دیتے تھے آپ نے جب بھی کوئی چیز خریدنی ہوتی تو دوکان دار کو وہ کاغذ کے ٹکڑے دیتے وہ د دکان دار کے پاس جاکر خود بخود کرنسی نوٹوں کی شکل اختیار کر جاتے۔

عبدالغنی چشتی سرکار سے ملاقات :عبدالغنی چشتی سرکار بچپن میں آکرآ پ سے ملاقات کرتے اور درود شریف سنا کرتے تھے پھر کافی عرصہ کے بعد سید میراںشاہ موج دریا دربار نزد اے جی آفس لاہور میں آپ کی ملاقاتیں ہوتی رہتی عبدالغنی چشتی سرکار نے کہا کہ شہزادے تم بڑے ہو گئے ہو اب ستر پوشی کرو اور کپڑے پہن لو آپ نے کہا کہ میں کپڑے پہنتا ہوں تو مجھ پر بوجھ آ جاتا ہے جس سے میں چل نہیں سکتا بابا جی نے فرمایا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں کپڑے پہننے میں بسم اللہ کریں کبھی آپ کو کپڑے پہنا دیئے جاتے اور کبھی آ پ اتار دیتے ایسا ہی چلتا رہا ،باباجی سرکار نے کپڑے پہنانے میں آپ کی بڑی تربیت کی آپ بابا جی سرکار سے فرماتے کہ میرے کان میں آواز آتی ہے کپڑے اتار دو ، لوگ مجھے پاگل کہیں گے ، تو بابا جی سرکار نے فرمایا کہ آواز آنی بند ہو جائے گی اور لوگ سب کچھ بھول جائیں گے آپ نے چالیس سال تک اپنے بارے میں کچھ نہیں بتاناکہ آپ ہی وہی مست مجذوب ہیں کھرا اور کھوٹا سونا بغیر کسوٹی پر پرکھے قابل اعتبار نہیں رب العالمین بلاشبہ وہ یقین کو شک سے جدا کر لیتا ہے ۔ خاتم المرسلین حضرت محمد صلی اللی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے دل سے فتوی پوچھ اس کو ہی جانتا ہے جو وفاداری سے پر ہوتا ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی دُعا کی درخواست 1988ئمیںابھی الیکشن نہیں ہوئے تھے کہ محترمہ بینظیر بھٹو ایک برے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے جب لاہور ہائی کورٹ کے گیٹ کے قریب پہنچی تو ہجوم کو دھکا لگا اور آپ بے لباس محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب پہنچ گئے بغیر کپڑوں کے دیکھ کر سب لوگ حیران رہ گئے سکیورٹی والوں نے فوراً آپ کو اتارنے کی کوشش کی محترمہ نے آپ کو دیکھا اور سکیورٹی والوں کو منع کیا کہ اس مست مجذوب کو کچھ نہیں کہنا ۔مجھے خواب میں ایک بزرگ اور جیل میں میرے ڈیڈی نے مجھے بتایا تھا کہ تجھے ایک ایسابزرگ ملے گا جس کی آنکھوں کا رنگ ایسا ہوگا ۔محترمہ نے موٹا سا عدسہ نکالا اور اس نے آ پ کی دونوں آنکھوں کو غور سے دیکھا تو بولی یہی ہے وہ بزرگ جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔جہانگیر بدر گاڑی چلا رہاتھا۔گاڑی جب گلزار ہائو س پہنچی تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ مجذوب شخص کو آپ نے اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے ۔اس دوران جب فوٹو گرافروں نے آپ کی تصاویر محترمہ کے ساتھ بنائی تو آپ کی تصویر کیمرے میں نہ آئی ۔ آپ نے بینظیر کو کہا کہ آپ وزیر اعظم بنے گی آپ نے محترمہ کو یا عزیز من قل یا عزیز پڑھنے کا کہا تو محترمہ پریشان ہو گئیںاور کہنے لگیں یہ تو ایک بزرگ خواب میں بڑی دیر سے مجھے پڑھنے کاکہہ رہے تھے۔ محترمہ نے آپ سے پوچھا کہ اس کو پڑھنے کے کیا کمالات ہوں گے آپ نے فرمایا کہ کوئی بندہ آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ کی مخالفت نہیں کر سکتا جو آپ کہیںگی وہی مانیں گے آپ کی دعا کی بدولت محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان بن گئی۔محترمہ جب حلف اٹھانے گئیں تو آپ کو بھی آسمانی کلر کا سوٹ پہنا کر ساتھ لے کر گئیں اور حلف اٹھانے سے قبل آپ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر اجازت لے کر حلف اٹھایا جب محترمہ وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھیں تو محترمہ نے آپ سے پوچھا کہ شاہ صاحب آپ کو کیا چاہئے تو آپ نے کہا کہ آپ اپنی سیٹ سے اٹھیں محترمہ سمیت تمام کابینہ کھڑی ہوگئی آپ نے محترمہ سے کہا کہ میں نے کرسی پرجھولے لینے ہیں یہ بات سن کر وہا ںپر تمام لوگ ہنس پڑے آپ نے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر ایک چکر لگا کر کہا کہ محترمہ آپ ایک بار پھر وزیر اعظم بنیں گیں ۔عطاء رضاربانی (سابق وفاقی وزیر) نے کہا کہ محترمہ یہ کیا ہو رہا ہے آپ ایک مجذوب کی باتوں میں آکر اُلٹ پلٹ کام کررہی ہیں۔ محترمہ نے نارضگی کا اظہار کرتے ہوئے خاموش رہنے کی ہدایت کی ۔آپ نے کہا کہ محترمہ اس نے بد تمیزی کی ہے اب اس کو عہدہ مل گیا آئندہ اس کو کوئی عہدہ نہیں ملے گا۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے صدر بننے کی پشین گوئی : آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک لفٹ ہینڈر شخص آرڈر کر رہا ہے اور وہ جو بھی آرڈر کرتا ہے اس پر تما م لوگ عمل درآمد کر رہے ہیں آپ کو CNNٹی وی پر بل کلنٹن نظر آیا ، بل کلنٹن اسوقت کسی پارٹی کا گورنر تھا آپ نے کلنٹن کو خط لکھا کہ تم امریکہ کے صدر بن جائوگے اور تم نے 19جنوری کو حلف لیا تو دوسری مرتبہ بھی صدر بن جائوگے اسی طرح ہی ہوا تقریب حلف برداری میں حکومت امریکہ نے آپ کو شرکت کرنے کے لیے دعوت نامہ بھیجا سابق صدرپاکستان جنرل ضیاء الحق کی موت کی پیشنگوئی: 16 اگست 1988ء کی بات ہے کہ آپ اپنے گائوں ساہیوال گئے ہوئے تھے کہ وہاں عربی کے ٹیچرقاری غلام مصطفی ملے اس وقت آپ چشتیاں ہائی سکول لاہور میں پڑھتے تھے قاری غلام مصطفی نے آپ کو دیکھ کر کہا بائو جی لاہور نہیں جانا صبح سکول کھل جائیں گے۔آپ نے فرمایا کہ قاری صاحب کل ضیاء الحق نے مر جانا ہے اور دو چھٹیاں ہو جانی ہیں آپ کو قاری صاحب نے پوچھا کہ ایسا کیسے ہوسکتاہے تو سید عرفان احمد شاہ نے فرمایا کہ اس نے اکیلا تھوڑا مرنا ہے بہت سارے لوگ مریں گے میں نے خواب میں دیکھا ہے ۔قاری صاحب نے یہ واقع تمام گائوں والو ں کو بتایا ۔اور پھر اگلی صبح17اگست 1988کو جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثہ میں جان بحق ہو گئے جس میں امریکی سفیر آرنلڈ رافیل سمیت درجنوں فوجی حکام بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔

والدہ محترمہ کی دُعا: آپ کی والد ہ محترمہ اکثر اللہ تعالی سے دعا کیا کرتی تھیں کی کہ اگر میرا بیٹا ہو ش میں آجائے تو تہجد پڑھ کر اس کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کیا کرونگی اور باہر سے ایک لقمہ بھی نہیں کھائے گا۔ تیرہ سال بعد والدہ محترمہ کی دعا قبول ہوگئیں اور سید عرفان احمد شاہ عالم مجذ وبیت سے عالم سالک میں آگئے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ کی خدمت کر کے صحابی رسول ۖ کا مقام پایا۔ بابا جی محمد علی مست سرکار سے ملاقات: بابا جی محمد علی مست سرکار اور عبدالغنی چشتی آپس میںگہرے دوست تھے آپ کے مرشد بابا عبدالغنی سرکار اکثر آ پ کو بابا محمد علی مست سرکار جو دربار پیر مکی کے پاس قبرستان میں بیٹھتے تھے ان کے پاس لے جاتے بابا جی مست محمد علی سرکار کسی کو بھی اپنے پاس نہیں بیٹھنے دیتے تھے بابا جی عبدالغنی سرکارنے بابا جی محمد علی مست سرکار سے کہا کہ یہ میرا شہزادہ ہے اسے پاس بیٹھنے دیں یہ سگریٹ نہیں پیتا ۔بابا جی محمد علی مست سرکار نے مرشد عبدالغنی سرکار کو کہا کہ تمہار ا شہزادہ ہے تو میرا معراج دین ہے اور پا س بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ آپ کے مرشد عبدالغنی چشتی سرکار کا دنیاسے پردہ کرنا: آپ کے مرشد عبدالغنی صاحب کی طبیعت اکثر خراب رہنے لگی اور آپ کو اکثر کہتے شہزادے تم ایبٹ آباد چلے جائو اگر میں لیٹ گیا تو تم نے آواز دی تو مجھے اٹھنا پڑ ھ جائے گا اور دونوں تماشابن جائیں گے ۔اللہ کے حکم کو پوری طرح ماننا چاہیے ایک دن بابا جی عبدالغنی نے سختی سے کہا کہ تم ایبٹ آباد چلے جائو آپ مرشد کا حکم مانتے ہوئے ایبٹ آباد چلے گئے ۔ دن گیارہ بجے کے قریب آپ کو ایسا محسوس ہوا جیسے دل سے کوئی چیز نکل گئی ہے آپ واپس لاہو ر میں آئے تو پتہ چلا کہ آپ کے مرشد با با جی عبدالغنی سرکار پردہ فرماگئے ہیں اس وقت آپ کو مرشد کی بات سمجھ میں آگئی زندگی میں ہی محمد علی مست سرکار نے بابا عبدالغنی چشتی سرکار کو غسل دیااور تھوڑی دیر بعد ہی بابا جی عبدالغنی چشتی سرکار کی روح خالق حقیقی سے جا ملی۔

بابا جی محمد یوسف سائیں سے ملاقات : اکثر آپ کی ملاقات بابا جی محمد یوسف سائیںسے ہوتی جو پیر مکی میں بیٹھا کرتے تھے آپ سے بے حد پیار کرتے تھے باباجی یوسف سائیں دیسی مرغ کی یخنی اور دیسی انڈے پسند کیا کرتے تھے جب بھی آپ یخنی لے کر جاتے تو بابا یوسف سائیں ایک گھونٹ لے کر بقایا دوسروں کو دے دیتے ایک دن آپ وہاں تشریف فرما تھے کہ بابا محمد یوسف سائیں نے ایک بڑا کیل لے کر ہتھوری کے ساتھ اپنے پائوں کے انگوٹھے کے پاس ٹھوکنا شروع کر دیا اور پائوں کو زور سے کھینچا جس سے خون کا فوارہ نکل پڑا جس سے آپ پریشان ہو گئے اور بابا جی سے فرمایا میں کمزور دل کا آدمی ہوں میرے سامنے آئندہ ایسا نہ کریں آپ جب اگلی صبح گئے تو باباجی محمد یوسف سائیں کے پائوں کا زخم بالکل ٹھیک تھا۔

پیر صابر علی شاہ سے ملاقات: پیر سید صابر علی شاہ سابق وزیراعلیٰ سرحد سے پاکستان انٹر نیشنل یونیورسٹی TIUگلبرگ میں ملاقات ہوئی اس وقت حکومت نے ایٹمی دھماکے کرنے تھے آپ نے فرمایا کہ حکومت کو 27یا 29کو دھماکے کرنے چاہیں لیکن حکومت نے 28مئی 1999ء کو دھماکے کئے آپ نے پیرصابر علی شاہ کو فرمایا کہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا ہونگا تو حکومت ختم ہو جائے گی ، پیرصابر علی شاہ نے کہا کہ ہم نے ایٹمی دھماکے کیے ہیں ہماری حکومت کیسے ختم ہو سکتی ہے آپ عمرہ کرنے سعودی عرب چلے گئے جب واپس آئے تو 12نومبر1999ء کو حکومت ختم ہو گئی تھی۔قاضی آصف، محمد علی شاہ سابق ایم ایل اے بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ جیسا آپ نے کہا ویسا ہی ہوا ۔

پرویز نام کے بارے میں تحقیق : جن دنوں پرویز مشرف چیف ایگزیکٹو بنے تو آپ نے پرویز نام کی تحقیق شروع کر دی کیونکہ آپ کے مطابق پرویز نام گستاخ اورناپسند دیدہ سمجھا جاتا ہے جس چیز کو ا للہ اور اس کے رسول ۖ نے ناپسند فرمایاہے وہ نام رکھنا درست نہیں ہے اس نام کی خاصیت یہ ہے کہ یہ جہاں بھی جائے گا اسے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیگااسی طرح پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کا نظام متعارف کر کے ملک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیاتھا آپ ایک بہت بڑے عالم دین جو لوہاری گیٹ لاہورکے قریب مقیم اوروہاں درس و تدریس کا کام بھی کرتے تھے آپ نے پرویز نام کے بارے میں اُن سے پوچھا میں جاننا چاہتا ہوں کہ پرویز نام کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے عالم دین نے کہاکے پرویز نام رکھنا ناجائز نہیں ہے جس طرح طلاق ناپسند ہے لیکن جائز ہے ۔اسی طرح پرویز نام رکھا جا سکتا ہے اس میںکوئی قباحت نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ پرویز اسم ہے اور طلاق فعل ہے آپ اسم کی بات کر یں ۔ وہ عالم دین بضد رہے کہ پرویز نام ٹھیک ہے آپ نے فرمایا کہ آپ بڑے عالم دین ہیں میں آپ سے بحث نہیں کر سکتا میں غلط ہو ں تو میں مر جا ئو ں آپ غلط ہیں تو آپ مر جائیں ۔ جب آپ وہاں سے اٹھے تو عالم دین نے آپ کے پیچھے اپنے شاگردوں کو بلانے کے لیے بھیجا لیکن آپ جا چکے تھے ۔ قصہ مختصر وہ عالم دین چند دنوں بعد پردہ کر گیا۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

ناپاک نظریں اورلقمہ حلال: آپ اپنے مرشد عبدالغنی چشتی سر کار کے لیے میٹھی روٹیاں پکا کر لاتے اور کچھ روٹیاں بڑی مزید دار ہو تیں اور کچھ روٹیاں کھائی نہ جاتیں عبدالغنی چشتی سرکار فرماتے ہیں جس طرح جسم ناپاک ہو تا ہے اس طرح نظریں بھی ناپا ک ہوتیں ہیں لقمہ حلال کا ہونا بہت ضروری ہے لقمہ حلال کا ہو گاتو اس میں تاثیر ہوگی حرام لقمہ کھانے سے چالیس دن کی عبادت و ریاضت قبو ل نہیں ہوتی ۔لقمہ کا بڑا خیا ل رکھنا چاہیے ۔اللہ اور اس کے رسول ۖ کا حکم ہے کہ جس چیز سے کراہت آئے اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ناک میں انگلی مار کر آپ منہ میں نہیں مار سکتے۔آپ کے بزرگوں نے آپ کو برائلر (چکن) بچپن سے ہی نہ کھانے دیا آپ کو بزرگوں نے بتایا کہ برائلر چکن مکروہ کے زمرے میں آتا ہے کالے مشروب(بوتل) کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ چودہ سو سال پہلے حضور پاک ۖ نے فرمایا کہ پانی وہ پیو جس کی تہہ نظر آئے تہہ نظر نہ آئے تو پتہ ہونا چاہئے کہ کس پھل کا جوس ہے کالے مشروب (بوتل)کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ یہ کس پھل کا مشروب ہے ۔ اسی طرح چینی( شوگر) کے بارے میں بھی آپ فرماتے ہیں کہ چینی کو سفید کرنے کے لیئے جو چیزیں ڈالی جاتی ہیں وہ صحت کے لیے مضر ہے اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے اور اس کے متبادل گڑ (برائون شوگر)کا استعمال کرنا چاہے تاکہ لوگوں کی دعائیں قبول ہو سکیں۔

سودی نظام کے خاتمے کا میاں محمد شریف کا وعدہ: سودی نظام پر میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کے والد میاں محمد شریف نے محمد رفیق باجوہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی موجودگی میں آپ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر دوبارہ ہماری حکومت آگئی تو ملک سے سودی نظام ختم کر دینگے ۔لیکن دوبارہ حکومت ملنے کے باوجودایسا نہ ہوا جس سے آپ میاں محمد شریف سے ناراض ہوگئے۔آپ کا فرمان ہے اگر ملک سے سودی نظام ختم ہو جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیںگے اور ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ سودی نظام اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کھلی جنگ ہے ۔سود میں فلاح نہیں بلکہ صرف اور صرف رسوائی ہے ہم ایٹمی طاقت بن کر بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ۔سود کا خاتمہ ممکن ہے درجنوں لوگوں کو زکوٰة دینے کی بجائے ایک شخص کو زکوٰة دی جائے تاکہ وہ اپنا کاروبا ر شروع کر لیں اسی طرح دوسرے بندے کو بھی کاروبار کے لیے زکوٰة دیں تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔
ڈاکٹر کا مردے کو زندہ دیکھ کر دماغی توازن کھو دینا سرگودھا بھلوال کے قریب گائوں 49 ٹیل میں پیر ظہور قادری اعوان المعروف سرکار جی کا آستانہ فضل ہے ان کے عقیدت مندوں میں رانا دلشاد قادری جو بھلوال کے نوائے وقت کے رپورٹر اور خالد نعیمی جو گورنمنٹ ہائی سکول بھلوال کے سنیئر ہیڈ ماسٹر ہیں وہ آپ کے پاس آئے اور کہا ہمارے سرکار جی کسی سے گفتگو نہیں کرتے ہم نے انہیں آپ کی تیرہ سالہ مستی و مجذوبی حالت کے بارے میں بتا یا انہوں نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔آپ ہمارے ساتھ چلیں اور ہمارے سرکا ر جی سے ملاقات کریں آپ ان کے اصرار پر بھلوال سرکار جی سے ملنے چلے گئے سرکار جی نے آپ کو دیکھتے ہی گفتگو شروع کر دی ۔یہ دیکھ کر رانا دلشاد اور خالد نعیمی حیران رہ گئے۔ آپ سے ایک راز کی بات پوچھی آپ نے فرمایا کہ اگر میں نے سوال کا جواب دے دیا تو سرکار جی ناراض ہو جائیں گے۔جس پر خالد نعیمی نے اسرار کیا کہ آپ جواب دیں سرکار جی ناراض نہیں ہوں گے۔آپ کا جواب سن کر پیر سرکارجی ناراض ہوگئے ۔خالد نعیمی نے پوچھاتو سرکار جی نے کہاجواب تو ٹھیک ہے لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنا چھوٹا لڑکا میرے سوال کا جواب دے گا۔ کچھ عرصہ بعد آ پ کو خالد نعیمی کا فون آیا کہ گھر میں ہمارا فیملی مسلہ ہے آپ بھلوال تشریف لا کر دیکھیں اورمسلہ حل کروادیں۔آپ نے فرمایا کہ آپ کے پیر سرکار جی ہیں میں ان سے جھگڑا مول نہیں لے سکتالیکن خالد نعیمی کے اصرار پر آپ نے بھلوال جا نے کا وعدہ کرلیا آپ اپنے چھوٹے بھائی نادر کو ساتھ لے کر بابا جی محمد علی مست سرکار سے اجازت لینے کے لیے گئے اور اجازت طلب کی تو بابا جی محمد علی مست سرکار نے فرمایا کہ معراج دین ہم اللہ کے حکم سے مردے میں بھی جان ڈال دیتے ہیں میں نے کہا کہ بابا جی میں کب انکار کر رہا ہوںآپ اجاز ت لے کربھلوال گئے اور وہاں خالد نعیمی کی فیملی کا مسلہ حل کروا دیا دوران گفت و شنید خالد نعیمی سے آپ نے پوچھا کہ آپ کے سرکار جی کے پاس موکلات ہیں تو خالد نعیمی نے بتایا کہ ہمارے سرکار جی کے پاس بے انتہا ء علم ہے جب آپ واپس بھلوال کے پاس لیانی شیخ اعوان اڈے پر پہنچے کہ ایک ٹرک نے آپ کی گاڑی کو کراس کیا ایک شخص اچانک آپ کی گاڑی سے ٹکرایا سامنے دیہی مرکز صحت میں مریض کو اٹھا کر لے گئے ڈاکٹر نے مریض کو چیک کرنے کے بعد موت کی تصدیق کر دی آپ کو یاد آیا کہ بابا جی محمد علی مست سرکار فرماتے تھے کہ معراج دین ہم اللہ کے حکم سے مردے میں بھی جان ڈال دیتے ہیں آپ ڈاکٹر کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ مریض کو دوبارہ چیک کرو! ڈاکٹر نے کہاکہ میں سینئر ڈاکٹر ہوں اور بڑی ذمہ داری سے مریض کو چیک کیا ہے اوراس کا منکا ٹوٹ چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو چکی ہے آپ ڈاکٹر سے بات کرہی رہے تھے کہ مریض خود چل کر ڈاکٹر کے پاس آکر کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب میں تو زندہ ہوں تم نے مجھے مار دیا ہے جیسے ہی ڈاکٹر نے مریض کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر گر کر بیہوش ہو گیا اور دماغی توازن کھو بیٹھا۔

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بننے کی پیشنگوئی
کرنل عبدالغفور ڈوگر اکثرآپ سے ملنے آیا کرتے تھے ایک دن آپ نے فرمایا کرنل صاحب عزت ،ذلت اور دولت اللہ کے ہاتھ میںہے اور عہدے بزرگ اولیا ء کرام بانٹتے ہیں کرنل صاحب نے آپ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ آپ بتائیں کہ آئندہ وزیر اعظم کو ن ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ میں بزرگ نہیں ہوں ۔لیکن کرنل بضد رہااورروزانہ فون کرنا شروع کر دیا اور وہی سوال بار بار دہراتا کہ کون وزیر اعظم بنے گا۔میرے روکنے پر وہ کہتا کہ اب آپ اپنی بات سے مکر جائیں تو میں آپ سے نہیں پوچھوں گا۔ ایک دن آپ بابا جی محمد علی مست سرکار کے پاس گئے تو آپ کو بابا جی نے کہا معراج دین جس کو چاہوں وزیر اعظم بنا دو۔ ان دنوں آپ نے بینظیر بھٹو سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور میل بھی کی لیکن کوئی جواب نہ ملا کچھ جاننے والوں نے آپ سے کہا کہ آپ کے ماموں انتظار حسین ولی اڑیالہ جیل میں سپریٹنڈنٹ ہے اور وہاں سید یوسف رضا گیلانی سزا کاٹ رہا ہے اگر آ پ نے وزیراعظم بنانا ہے تو سید زادے کو وزیراعظم بنا دیں آپ نے کرنل غفور کو فون کیا کہ آئو اڑیالہ جیل چلناہے وہاں جا کر یوسف رضا گیلا نی کو وزیر اعظم بنانا ہے۔کرنل نے کہا میں آرمی (انٹیلی جنس)کا آدمی ہوں جیل میں نہیں جائوں گا۔ سپریٹنڈنٹ جیل کی رہائش گاہ پر ہی رہوں گا۔آپ نے سپریٹنڈنٹ جیل انتظار حسین ولی اور دیگر لوگوں کی موجودگی میں جو اس بات کے گواہ ہیں سید یوسف رضاگیلانی سے ملے اوراس نے روتے ہوئے شکوہ کیا کہ جسٹس افتخار حسین چوہدری نے اسی کیس میں مجھے سزادی اور سلیم سیف اللہ کو بری کر دیا ہے آپ نے سید یوسف رضا گیلانی سے پوچھا کہ روزہ توڑنا ہے یاکھولنا ہے، سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں نے روزہ کھولنا ہے تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ تم اللہ کے حکم سے وزیر اعظم پاکستان بنو گے جس پر اس نے رونا شروع کر دیا آپ نے کرنل غفور کو بتایا کہ آئندہ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی ہو گا۔ تو وہ کہنے لگا کہ میں کوئی سپاہی نہیںہو ں کرنل ہوں مجھے آپ بے وقوف نہ بنائیں سید یوسف رضا گیلانی تو خواب میں بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا وہ تو جیل میں ہے اور محترمہ حیات ہیں ۔اس کے بعد محترمہ شہید ہوگئیں اور یوسف رضاگیلانی وزیر اعظم بن گئے ۔ڈیفنس میں ریئس حبیب احمد کی رہائشگاہ پر سید یوسف رضاگیلانی نے آپ سے ملاقات سے انکار کر دیا وجہ پوچھنے پراُس نے بتایا کہ مجھے عاملوں نے کہا ہے کہ کسی بھی مست مجذوب سے ملے تو تمہاری حکومت ختم ہو جائے گی اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ آئندہ یوسف رضاگیلانی کسی بھی سیٹ کے لیے اہل نہ رہے گا۔ اسی طرح ہی ہوا سپریم کورٹ نے وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دے دیا۔

سید سلامت علی شاہ المعروف چھتری والی سرکار سے گفتگوایک فوجی آفیسر آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ کو کثف قبور کا علم حاصل ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے کثف قبور کا پتہ نہیں لیکن میں جہاں بھی صاحب مزارکے پاس جاتا ہوں تو میرے کان میں آواز سنائی دیتی ہے تو اس نے کہا کچھ تو ہوتا ہے میں سید سلامت علی شاہ المعروف بابا چھتری والے کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں بابا جی چھتری والے دنیا میں گندی حالت میں رہتے تھے وہ کبھی صفائی کا خیا ل نہیں رکھتے تھے اب ان کی ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بزرگوں کے متعلق ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے حضرت ایوب علیہ سلام کے جسم مبارک میں آزمایشی طور پر اللہ رب العزت کے حکم سے کیڑے پڑھ گے تھے یہ سن کر وہ خامو ش ہو گئے آپ نے جب سید سلامت علی شاہ کے مزار پر جا کر ان سے گفتگو کی تو کان میں آواز آئی کہ میرے پائوں کا انگوٹھا چوہا کھا گیا تھا۔میں نے چوہے کو کچھ نہیں کہا تھا جب آپ نے یہ بات اس فوجی آفیسر کو بتائی تو وہاں ایک بزرگ جو مزار پر بیٹھا ہوا تھا وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے فوراً بول اٹھا اس وقت میں باباجی کے ساتھ تھا جب زندہ حالت میں بابا جی کا انگوٹھا چوہا کھا گیا تھا تو ہم پورا مہینہ باباجی کے انگوٹھے کی پٹیاں کرتے رہے تھے۔بابا جی چھتری والے سرکار کا چھتیس سال بعد قبر مبارک سے جب جسدخاکی نکالا تو آپ کا کفن تک میلا نہ ہوا تھا دوبارہ بابا جی کو گائوشالہ قبرستان نزد دریائے راوی لاہورمیں دوبارہ سپرد خاک کرنے سے پہلے لاکھوں لوگوں نے ان کا دیدار کیا۔
پیر سعید میاں شاہ کے آستانے پر امامت اسٹیشن کے قریب میاں سید حضورسعید شاہ کا آستانہ ہے ان کے حوالے سے اکثر بابا واحد آپ کے پاس آتے تھے ہم نے سنا تھا کہ ان کے بزرگوں کی جائے نماز پر کوئی امامت نہیں کروا سکتا آج تک دو اشخاص صوفی تبسم علی اور سید کرامت علی نے بزرگوں کی جائے نماز پر امامت کروائی تو وہ چند دنوں بعد ہی دنیا سے پردہ فرما گئے ۔ آپ بابا واحد کے ساتھ سعید میاںحضور شاہ کے آستانے پر گئے سعید میاں حضور شاہ نے اپنے بزرگوں کی جائے نماز کو منگوا کر بچھوائی اور آپ کو امامت کروانے کے لیے کہا وہاں پر موجود سارے لوگ پریشان ہو گئے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے سعید میاں حضورشاہ کے آستانے پر آپ نے نماز مغرب کی امامت کروائی سعید میاں حضورشاہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے کہا کوئی تو ہے جو ہمارے بزرگوںکی جائے نماز پر امامت کروانے والا ہے آپ کو سعید میاں حضورشاہ نے دو سیب منگوا کر دیے اور ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت کیا۔

بچے کے سر پر زخم کا نشان نہ ہونا ڈاکٹر محمود اختر ملک جو کہ چونیاں تحصیل ہسپتال میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنت ہیں آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ گھر سے ڈاکٹر صا حب کی بیوی کا فون آیا کہ چھوٹے بیٹے نے بڑے بیٹے کے سر میں خم خیر (بڑا چمچ)مار کر شدید زخمی کر دیا ہے اور بیٹا خون میں لت پت ہو گیا ہے فوری طور پر گھر پہنچیں اس وقت آپ کی کیفیت بدلی ہوئی تھی آپ نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا کہ آپ پریشان نہ ہوں بچے کو کچھ نہیں ہوگا جب ڈاکٹر صا حب گھر پہنچے تو بیٹے کو خون میں لت پت پایالیکن بیٹے کے سرپر کسی قسم کا کوئی زخم یا نشان نہ تھا جبکہ خم خیر(بڑا چمچ) بھی خون آلودہ تھا۔
اقبال سائیںالمعروف محبت سائیں کا نظر سے درخت کو ہلانا
محمد اقبال سائیں المعروف محبت سائیں چھتیس سال سے دریائے راوی لاہور کے کنارے بیٹھے ریاضت کررہے تھے اور روحانی علم کی بدولت نظر سے بہت بڑے درخت کو ہلا دیتے تھے تو محبت سائیںکا یہ درخت ہلانے کا عمل دیکھنے کے لیے روزانہ سینکڑوں لو گ دریا کے کنارے جایا کرتے تھے کچھ صحافیوں کے ساتھ آ پ دریائے راوی کے کنارے درخت ہلنے کا عمل دیکھنے چلے گئے جیسے ہی محبت سائیں نے آپ کو دیکھا تو آپ کے پائوں پڑ گیا اور بعد میں آپ کی بیعت کر لی۔ڈاکٹر کا ہاتھ ملاتے ہی کرنٹ لگنا ڈاکٹر رانا محمد بشیر سبزازار لاہور کے رہائشی تھے آپ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے پورا برصغیر پھرا ہوا ہے اور بڑے بڑے بزرگوں سے ملا ہوں کسی میں مجھے آج تک کوئی کرنٹ نظر نہیں آیا اسوقت آپ کی کیفیت بدلی ہوئی تھی آپ سے ہاتھ ملایا تو ایسا کرنٹ لگا کہ گر گیا اور منہ سے جھاگ نکلنی شروع ہو گئی ہوش میں آنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی بابا عبدالواحد ، محمد اسحاق قریشی اور کافی لوگ اس بات کے گواہ موجود ہیں۔

حضرت خواجہ اُویس قرنیکے آستانے کے لئے جگہ آپ کو اکثر خواب میں بزرگ ملتے اور آپ کو فرماتے کہ آپ نے لاہور کے قریب رنگ پور جنوں والی جگہ کے پاس آستانہ بناناہے آپ قصور جیل میں انتظار حسین ولی سپرنٹنڈنٹ جیل اور کافی لوگوں کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک مخبوط الحواس شخص آیا ا س نے آکر آپ سے پوچھا رنگ پور جنوں والی مسجد کے پاس رقبہ لینا ہے تو آپ نے کہا ہاں لینا ہے تو اس نے کہا کہ پیسے دیں تو آپ نے اکیس ہزار روپے اور ویزٹنگ کارڈ نکال کر اس شخص کو دے دیے اور وہ شخص چلا گیا تھوڑی دیر بعد آپ نے وہاں بیٹھے ہوئے اشخاص سے پوچھا کہ یہ کو ن شخص تھا تمام لوگوں نے انکار کر دیا کہ ہم اسے نہیں جانتے آپ کے پاس آیا تھا ہم نے سمجھا کہ آپ کے جاننے والاہے دوماہ بعد کسی شخص کو فون آیا کہ میں نے فرد لے لی ہے آپ بقایا پیسوں کا بندوبست کریں اور رجسٹری کروالیں جب وہ لوگ رجسٹری کے لیے فرد لے کر آئے تو بندہ اور تھا جس کو آپ نے پیسے دیے تھے اور رجسٹری کرواکر دینے والا اور شخص تھا ۔اس بات کی سمجھ آپ کو آج تک نہ آئی ۔بزرگوں کی ہدایت کے مطابق رنگ پورنزد جنوں والی مسجد پیرو والا روڈ قصور کے قریب جگہ خرید کر آپ نے حضرت خواجہ اویس قر نی کا آستانہ بنایا اور وہاں قرب و جوار میںرہائش پذیر محمد یوسف ، اصغر علی ، محمد رفیع اور دیگر لوگوں نے فون کر کے آپ کو بتایا کہ رات دو بجے کے قریب آستانے پر نورانی لائیٹ آتی ہے جس سے ہم بہت حیرت زدہ ہو جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ آستانہ اویسیہ پر نورانی لائیٹ جن لوگوں نے دیکھی ہے ان سے پوچھیں۔یہ حضرت خواجہ اویس قرنی اور بزرگوں کی کرامت ہے۔ سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمٰن سے ملاقات
سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمان اس وقت ایڈیشنل آئی جی پنجاب تھے انہوں نے آپ کو فون کیا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کہ اکثرمیری کیفیت بدل جاتی ہے اور میں پولیس اور سب لوگوں کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہوںاس پر انہوں نے کہا کہ آپ جتنی مرضی گالیاں دیں میں ناراض نہیں ہو ں گا۔حاجی حبیب الرحمان نے ایک دن آپ سے پوچھا کہ میں آئی جی پنجاب بن جائوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ بن جائو گے تو حاجی حبیب الرحمان آئی جی پنجاب بنے اور وہ مسلسل رابطے میں رہے اور ان کے گھر روح پرور ہر ماہ چاند کی پہلی جمعرات کو محفل میلاد منعقد ہوتی ہے ۔جس میں عاشقانِ رسول کثیر تعداد میں تشریف لاتے ہیں۔ شہد کی مکھی کا آپ کے چہرہ مبارک کا بوسہ لینا بارہ ربیع الاول14جنوری 2014ء کو آستانہ اویسیہ میں میلاد شریف کے انعقاد سے قبل میں ہمراہ سید مجاہد حسین چشتی ، آصف محمود چشتی ، چوہدری ریاست علی ایڈووکیٹ ،محمد اصغر ایڈووکیٹ آپ کے ساتھ کھڑے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ایک شہد کی مکھی نے آپ کے گرد چکر لگانا شروع کر دیا تھوڑی دیر بعد شہد کی مکھی آپ کے کالر پر آکر بیٹھ گئی میں نے اپنی انگلی سے شہد کی مکھی کو اس غرض سے اڑا دیا کہیں وہ آپ کو کاٹ نہ لے جیسے ہی مکھی اڑی اس نے پھر چکر لگا نا شروع کر دیا آپ نے فرمایا یہ شہد کی مکھی مجھے چھوئے بغیر نہیں جائے گی ہم تمام دوست حیرت سے دیکھ رہے تھے تھوڑی دیر کے بعد شہد کی مکھی آپ کے سر کا چکر لگانے کے بعد پھر اسی جگہ کالر پر بیٹھ گئی اور وہاں سے اڑ کر آپ کے ہونٹوں کا بوسہ لے کر اڑ گئی۔ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں سے محبت کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ بھی محبت کرتا ہے ۔ایسی برگزیدہ ہستیاں مخلوق کیلئے اللہ تعالیٰ کی خاص عطا ہوتے ہیں۔سید عرفان احمد شاہ صاحب کے پوری دنیا میں عقیدت مند ہیں جو آپ سے فیض حاصل کرتے رہتے ہیں۔آپ اکثر روحانی و جسمانی مریضوں کا علاج ٹیلی فون پر ہی کردیتے ہیں۔ میلوں دور ،درد کی شدت سے تڑپتے مریض منٹوں میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفاء یاب ہوجاتا ہے۔آپ مریضوں اور ملنے والوں کونماز کی پابندی اور خاص طور پر نماز فجر کے بعد کم ازکم ایک صفحہ قرآن کریم بمعہ ترجمہ و تفسیرپڑھنے، والدین کی اطاعت کادرس دیتے اور والد کے ہاتھ، ماں کے پائوں محبت اور عقیدت کے ساتھ چومنے کا حکم دیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو مکمل طورسمجھنا پرانسانی عقل کے بس کی بات نہیں اس لئے اس شعر بعد اجاز چاہوں گا۔سید عرفان احمد شاہ ساحب کی روحانی شخصیت سے جڑے مزید سحر انگیز بے شمار واقعات زندگی رہی تو پھر آپ کی خدمت عرض کروں گا۔اللہ تعالیٰ میرا، آپ کااور پوری انسانیت کا حامی و ناصر

بولن نالوں چپ چنگی چپ وچ لکھاں پردے
شاہ منصور چپ جے رہندے کاہنوں سولی چڑہدے

Mohammad Reza Advocate

Mohammad Reza Advocate

تحریر : محمد رضا ایڈووکیٹ
1فرید کورٹ روڈلاہور
[email protected]
03004477436
03214477436