ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عبدالستار ایدھی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اُسکے بعد ابتک تو وزیر اعلی سندھ کے استعفی کی خبر آچکی ہوتی لیکن واقعہ کو دوسرا دن گذرنے کو ہے، افسوس شرم اور حیا کے نام سے ناواقف وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ اب تک اپنے عہدئے پر برقرار ہے۔ اُس ملک میں جہاں وزیراعظم سے لیکرتھانے کا سپاہی تک سب کرپٹ اور بے حس ہیں ، کسی تھانیدار کو، کسی مذہب کے ٹھکیدار کو، کسی چھوٹے سے چھوٹے سیاسی رہنما کویا کسی بھی حکمرانوں کے نمائندئے کو ابتک یہ نصیب نہیں ہوا کہ انسانیت کے اس مسیحی کے پاس جاتا۔ آٹھ یا دس جتنے بھی تھے بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ کہاں اور کس کو لوٹنے جارہے ہیں، اُنکا کوئی سربراہ بھی ہے جس سے اُسکے بھیجے ہوئے لوگ لوٹ مار کے دوران برابر رابطہ میں تھے۔
اتوار کی صبح آٹھ سے دس افراد کراچی کے علاقے میٹھادر میں واقع ایدھی سینٹر میں داخل ہوئے اور عبدالستار ایدھی سمیت دیگر افراد کو یرغمال بناکر وہاں موجود الماری میں سے پانچ کلوگرام سونا اور ملکی و غیر ملکی رقم لوٹ کر فرار ہوگئے۔ عبدالستار ایدھی کا کہنا ہے کہ ڈاکو کروڑوں روپے مالیت کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی کے عطیات اور ان کے پاس رکھوائی گئیں امانتیں بھی لوٹ کر لے گئے ہیں، غیر ملکی کرنسی میں لاکھوں امریکی ڈالرز بھی شامل تھے۔
ڈاکوؤں میں سے ایک شخص نے اپنا منہ ڈھانپا ہوا تھا اور وہ مسلسل کسی شخص سے موبائل فون پر بات کررہا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ پچاس سال سے فلاحی کاموں میں مصروف ہیں اور آج تک اس قسم کا واقعہ رونما نہیں ہوا۔آجکل عبدالستار ایدھی اسی سینٹر میں رہائش پزیر ہیں اور شدیدعلیل ہونے کے باوجود وہ فلاحی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ایدھی سنٹر پر ڈکیتی کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 2008 میں بھی دو مختلف ایدھی مراکز پر ڈکیتی کی واردات ہو چکی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈکیتی کا نشانہ بننے والے مرکزی دفتر کے علاوہ ملک بھر میں قائم ایدھی سنٹرز پر سکیورٹی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔
پاکستان میں انسانیت عبدالستار ایدھی سے شروع ہوتی ہے۔ اٹھاسی سالہ عبدالستار ایدھی نہیں جانتے کہ پیسے کے پیچھے بھاگنا کیا ہوتا ہے، آج تک کسی حکومت سے امداد نہیں لی، صرف عوامی تعاون سے 63، 64 سالوں سے ایک ایسا رفاہی ادارہ چلا رہے ہیں جس کے ماہانہ اخراجات ایک کروڑ سے زائد ہیں۔ سادہ اتنے کہ بتاتے ہیں ادارے میں امدادی رقم ڈبل آتی اور سنگل خرچ ہوتی ہے۔ نڈر ایسے کہ کوئی پروٹوکول نہیں، بدترین حالات میں بھی کوئی سیکیورٹی حصار نہیں۔ بلوچستان گئے تو ڈاکو تائب ہوگئے، فنڈز دیئے، ایک ڈاکو نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ کمبختو! جب پولیس مقابلے میں مارے جاؤ گے، جب تمہارے قریبی رشتہ دار بھی لاشیں لینے سے انکار کر دیں گے، جب اپنے بھی تدفین نہیں کریں گے تو تب یہی آدمی انسانیت کی خاطر آگے بڑھے گا
تدفین کا بندوبست کرے گا۔ اوئے! یہ عبدالستار ایدھی ہے۔ شمالی وزیرستان گئے تو طالبان نے بے لوث رہنما مان لیا اور ڈھیروں امداد دے کر بحفاظت روانہ کیا۔ کوئی خوف نہیں کوئی لگی لپٹی نہیں۔ ۔۔ اور سب سے بڑھ کر سراہے جانے کی کوئی تمنا بھی نہیں۔ سوات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسپتا ل کھولا اور چارمیڈیکل اسٹورز قائم کیے گئے۔ وہاں خواتین پردے کا خاص اہتمام کرتی ہیں لیکن ان کے سامنے وہ عورتیں بھی گھونگٹ اٹھا کر سلام کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایدھی ان کے والد سے بھی زیادہ محترم ہیں ۔ الحمداللہ پاکستان میں 75 فیصد لوگ انہیں پہچانتے ہیں۔ سیلاب میں حکومت وقت نے پی ٹی وی کے ذریعے امداد کی اپیل بھی ان ہی سے کروائی۔ خدا کے فضل سے سیلاب زدگان کیلئے ایدھی کو بھی لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے۔
Pakistan Peoples Party
اس واقعہ کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول نے عبدالستار ایدھی کی چیریٹی پر بھیانک ڈکیتی کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اس واقعے سے سخت دھچکہ لگا ہے اور سخت افسوس ہوا ہے کہ کوئی پاکستانی اس حد تک بھی گر سکتا ہے کہ مفلس اور ناداروں کے لیے جمع کی گئی رقم چوری کرے۔ وزیراعظم نواز شریف نے عبدالستار ایدھی کو یرغمال بناکر ایدھی سنٹر کو لوٹنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سندھ حکومت کو فوری طور پر ملزمان کی گرفتاری کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم نے اتوار کو جاری بیان میں اس واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ حکومت ذمہ دار ملزموں کو گرفتار کرکے عوام کی طرف سے ایدھی سنٹر کو عطیات کی مد میں دیا گیا تمام پیسہ وصول کرے گی۔ مگر افسوس سندھ حکومت کا کوئی ذمیدار ابھی تک ایدھی صاحب کے پاس نہیں پہنچا۔کراچی کے 85 فیصد مینڈیٹ کی دعویدار ایم کیوایم کو اپنی سیاست سے فرصت نہیں کہ اسطرف دیکھے۔
عمران خان تو کافی عرصے پہلے سے ہی ایدھی صاحب کو بھول چکے ہیں۔ اگر بلاول اور نواز شریف کو واقعی اس واقعہ پر افسوس ہوا ہے تو فورا سندھ حکومت کو اور خاصکر وزیراعلی کو گھر بھیج دینا چاہیے، لیکن اسکا نہ تو نواز شریف کو اور نہ ہی بلاول کو کوئی سیاسی فائدہ ہوگا، لہذا ایسا ہوگا نہیں۔حیرانگی تو اس ریاست کے حکمرانوں کی بے حسی اورڈھٹائی پر ہوتی ہے کہ بے چارے سیاح مارے جائیں یا پولیو ورکر یہ اس امر کی نشاندہی ہےکہ اب اس ملک میں کوئی بھی محفوظ نہیں۔لیکن حکمرانوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، سیکیورٹی اداروں کی بے حسی ، واردات پہ واردات ہورہی ہیں لیکن چونکہ اُن کا احتساب یا باز پُرس اور سزا کا عمل مفقود ہے لہذاوہ بدترین وارداتوں کے بعد بھی اپنی کرسیوں پہ براجمان ہیں ۔
دنیا بھر سے فلاحی امور انجام دینے والے افراد اس ملک میں آنے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں، اب تو وہ اور محتاط ہوجاینگے کیونکہ اب اس دھرتی پہ قدم رکھنا اپنی موت کو دعوت دینے کے برابر ہوگا۔ ایدھی صاحب کا ہمیشہ سے یہ ہی کہنا تھا کہ میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں، میں تو سب کا دوست ہوں، میں تو کسی خاص مذہب یا مسلک کا بھی حامل نہیں ہوں ۔ میرا مذہب تو صرف اور صرف “انسانیت کی خدمت ہے”، مجھے کسی سے کیا ڈر، مجھے کسی نے کیا کہنا ہے ؟ لیکن آج عبدالستار ایدھی کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے ۔ پاکستان میں ایک اور نیا ریکارڈ بن گیا ، یہاں انسانیت کی خدمت کرنے والے بھی محفوظ نہیں۔
Humanity
پیارے ایدھی صاحب! یہ سب ماضی کے قصے ہیں کہ جب چوروں اور ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے تھے، کم سہی مگر ان میں بھی غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی تھی، تب معاشرے میں تھوڑی بہت انسانیت بھی باقی تھی۔ جبکہ حال تو جنگل سے بھی گیا گزرا ہے، یہ تو بس ایک اندھیر نگری ہے، جہاں فلاحی ادارے تک لوٹے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایدھی صاحب نہیں لٹے بلکہ اس جنگل نما معاشرے سے انسانیت کی آخری سانس لٹ رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عبدالستار ایدھی کے ساتھ ہونے والے اس واقع پر احتجاج کرنے کےلیے اس واقع کے خلاف کتنے سیاست دان جلوس نکالینگے، ہمارے کتنے علمائے اکرام قُرآن وحدیث کے حوالے دیکر عوام کو ایسی گھناؤنی واردات کے خلاف بھرپور احتجاج کےلیے تیار کریں گے ؟ کتنی ایمان بھری تقاریر اور خطبات سننے کو ملینگے؟ اورکیاخود ہم لوگ سوشل میڈیا اور دوسرئے زرایع کے زریعے حکومت سے احتجاج کریں گے؟ اور اُسے باور کرایں گےکہ پاکستان میں 19 اکتوبر کو “عبدالستار ایدھی نہیں انسانیت لٹ گئی۔