تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ سیدہ خدیجہ الکبری ،بقائے نسل رسول اللہ کی ضامن بن گئیں۔ آ پ کی تین اولادیں ہوئیں؛ ١۔ سیدنا قاسم ،سب سے بڑے صاحبزادے تھے اور انہی کی بدولت حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ہوئی۔ ٢۔ سیدنا عبداللہ ،دوسرے فرزند سیدنا عبداللہ تھے جنہیں طیب و طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ ٣۔ سید تنافاطمہ الزہرا، ٢٠ جمادی الثانی بعثت ِنبوی کے پانچویں سال، عقد مبارک کے بیس سال بعد، حصار شعب ابی طالب سے ایک سال چھ ماہ قبل آپ کی آمد ہوئی۔ حضور کی نسل مبارک آپ ہی سے چلی اورسادات بنی فاطمہ، کرئہ ارضی کے ہر گوشہ اور خطہ میں جلوہ نما ہیں۔
اے خدیجہ معظمہ !! نبوت کا گھر،تیرے جیسا کسی نے سجایا نہیں اس کی رحمت کا سایہ ہے تجھ پہ سدا ، جس شہنشاہ کا اپنا ہی سایہ نہیں سیدالانبیا تیرا شوہر بنا اور مشکلکشا تیرا دیور بنا تیرا ہر بیٹا ہادی و رہبر بنا ، تجھ سا کنبہ کسی نے بھی پایا نہیں تیرے گھر میں ہی اسلام پلتا رہا،مطمئن ہو کے دن رات بڑھتا رہا دنیا والے اگر بھول جائیں تو کیا، تیرا احسان رب نے بھلایا نہیں تیری سیرت ہے عفت مجسم بنی ، تو ہی اپنے زمانے کی مریم بنی جب تیری ذات زہرا کی مادر بنی ، کون سا گل تھا جو مسکرایا نہیں
یاد قاسم جب سیدنا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے صاحبزادے،سیدنا قاسم کاانتقال ہواتو رسول اللہ آپ کے پاس تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ رو رہی ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے پوچھاآپ کو کس چیز نے رلایا۔فرمایا،مجھے میرے لخت جگر کی یاد نے رلا دیا۔نبی کریم نے فرمایا، ”خدیجہ !کیا آپ اس بات پر راضی ہیںکہ جب روز قیامت ہو گااور آپ دروازہء بہشت پہ پہنچیں گی تو وہ باب فردوس پہ کھڑے ہوئے آپ کا دست مبارک پکڑ کر آپ کو جنت میں لے جائیں گے اور افضل ترین مقام پر بٹھائیںگے”۔ سیدنا قاسم چار سال کی حیات ِدنیا میں بارگہ ایزدی میں حاضر ہوئے ۔ آپ کا جنازہ مکہ کے ایک پہاڑ کے کنارے رکھا تھا۔حضور نے پہاڑ کی جانب دیکھ کر کہا ؛”اے کوہ!جو مصیبت قاسم کی موت کے باعث مجھ پر پڑی وہ تجھ پر پڑتی تو تُوریزہ ریزہ ہو جاتا”۔سیدنا قاسم کے وصال ِپرملال کے ایک ماہ بعد سیدنا عبداللہ بھی انتقال فرما گئے جس باعث سیدنا محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم اور سیدتنا خدیجہ الکبریٰ پر غم واندوہ کی عظیم کیفیات طاری ہو گئیں ۔خَاتِمُ الْنَّبیّیْن صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی نرینہ اولاد کا کم سنی میں انتقال اس باعث تھا کہ اگر وہ زندہ رہتے تو مطابق حدیث ِنبوی صدیق نبی ہوتے ۔
Hazrat e Khadijah
اِنّااَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْ اللہ رب العزت نے سیدہ فاطمہ زہرا کو اَلْکَوْثَرْ فرمایا ہے اور کفار ِمکہ کے طعنوں کے جواب میں یہ آیت مبارکہ نازل فرما کر حضور کو آپ کی دختر نیک اختر کاعظیم الشان تحفہ عطا فرمایا ہے۔نبوت کے پانچویں سال، اللہ رب العزت نے یہ خاص تحفہ وصول کرنے کے لیے سرور کونین کو عرش معلی کی دعوت دی اور جبرئیل امیں کو بھیجا کہ حضور کو لے کر آئیں۔آیت ِمبارکہ میں اللہ رب العزت نے جمع کا صیغہ استعمال فرمایا ۔ہم نے آپ کو الکوثر عطا فرمائی۔عرش علیٰ پہ اس خاص الخاص تحفہ کو عطا فرما کراللہ رب العزت نے سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے ذریعہ آغوش ِرسالت میں عطائے زہرافرمائی؛ حجرئہ حضرت خدیجہ مثلِ جنت زار ہے رحمتیں ہی رحمتیں ہیں مطلعِ انوار ہے مخزنِ انوار و رحمت منبعِ برکات ہے ہو رہی ہر سو مسلسل نور کی برسات ہے آچکی ہے رحمتِ ربّ دوعالم جوش میں نور کا ٹکڑا ہے صائم نور کی آغوش میں
سیدہ خدیجہ ہی کی بدولت عالم انوار وذر،فضائے بسیط کبریائی سے رحل نبوت پرنزول ِقرآن ِفاطمہ ہوا اور ہر لمحہ شکر خدا کرتے رہنے والے حبیب کو مزید شکرانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔رب العزت نے لفظاَلْکَوْثَرْمجسم فرمایاتوبصورت ِفاطمہ سامنے آیااور جب فضائل وخصائل ِزہرایکجاکیے تواَلْکَوْثَرْنام دیا۔سیدہ فاطمہ زہرا ہیلَیْلَةِالْقَدْرہیں،اور تم کیا جانو لَیْلَةُالْقَدْر کیا ہے ؟یہی آیت ِکوثر ،سبع معلقات کا جواب تھی جس کے بعد عرب کے نامور شعرا منہ چھپا کر اندھیرے میں اپنے کلام اتار کر لے گئے۔ آپ واحد خاتون ہیں جنہیں زبان ِرسالت نے سیدنا علی جیسے بے مثل جوانمردکے برابر قرار دیا ہے، مَاسَاوَی اللّٰہُ قَطَّ اَمْرَاة اِلّا مَنْ تَسَوَّیْتَہُ فَاطِمَہْ بعَلِیٍ عَلَیْہِ الْسَّلَام، آج تک اللہ نے کسی عورت کو کسی مرد کے برابر نہیں کیاسوائے فاطمہ کے جنہیں علی کے برابر فرمایا۔آغوش ِخدیجہ میں آمد ِزہرا کے موقع پر شرق سے غرب ،شمال سے جنوب روئے زمین پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں نور ِبتول نہ چمکا ہو۔
وہ زہرا ہاں وہی زہرا رسول اللہ کی بیٹی وہی زہرا شہنشاہوں کے شہنشاہ کی بیٹی وہ کملی اوڑھنے والے مجسم نور کی دختر وہ عبداللہ کی پوتی آمنہ کے پُور کی دختر وہ قاسم کی بہن وہ طیب وطاہر کی ماں جائی جو ماں کی گود میں اتمام نعمت کی طرح آئی وہی آئینہء عفت کا سب سے خوشنما جوہر خدیجہ طاہرہ کے بطن کا اِک بے بہا گوہر وہ صبح نور ِچشم رحمة اللعلمیں زہرا نگین ِخاتم تسکین ختم المرسلیں زہرا
حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے فرمایا، فَاطِمَةْ شَجْنَةُ مِنَّیْ، فاطمہ مجھ سے نکلی ہوئی ایک شاخ ہیں۔ فَاطِمَةْ حذْیَةُ مِنِّی، فاطمہ میرے سامنے ایک حقیقت ہیں۔فَاطِمَةْ رُوْحِیْ اَلِّتِیْ بَیْنَ جُنْبِِیْ،فاطمہ میرے دو پہلوئوں کے درمیان روح ِرسالت ہیں۔خدیجہ طاہرہ کی صورت وسیرت جناب ِحسنین ِکریمین اور سیدہ زینب وام کلثوم کی ذات والاصفات بابرکات میں نمایاں رہی ۔ ہے زینب بے مثل تیری تیری کلثوم سیرت ہے رہا حسنین کی صورت سروساماں خدیجہ کا نبی کے آستانے کو سجایا اسطرح سے ہے کہ ہر لخت ِجگر ہے بولتا قرآں خدیجہ کا ہے بیٹی فاطمہ زہرا تیرا داماد حیدر ہے نبوت کا گھرانا ہے بڑا ذیشاں خدیجہ کا گھرانا ہو گیا اسلام پہ قرباں خدیجہ کا خدا کے دین پہ کتنا بڑا احساں خدیجہ کا
Hazrat e Khadijah
یوسف زہرا سیدنا اما م حسن ِمجتبیٰ عَلَیْہِ الْتَّحِیَّةُ وَالْثَّنَا فرماتے ہیں ، ” کُنْتُ اَنَااَشْبَہُ الْنَّاسِ بخُدَیْجَةَالْکُبْریٰ ”،”میں تمام لوگوں سے زیادہ خدیجة الکبریٰ کے مشابہ تھا”۔سرکار ِدوعالم سیدہ زینب کو دیکھ کر فرمایاکرتے ، ”یہ اپنی نانی خدیجہ کی شبیہ ہیں ”۔ مخدومہء دارین آمد سیدئہ کونین کے وقت عرب کی جاہل عورتیںبغض ِرسالتمآب صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے باعث آپ کے ہاں نہ آئیں۔آپ کے پیغامات کا مثبت جواب نہ دیا گیا بلکہ حوصلہ شکنی اور دل شکستگی کے جوابات دیے گئے۔شہزادی اسلام عرب کی عورتوںکے رویہ پر مایوس تھیں کہ آپ کے کمرہ کی دیوارشق ہوئی اور چار عظیم المرتبت مستورات دس حوروں کے جھرمٹ میں داخل ہوئیں۔یہ مستورات ام ا لبشر حضرت حوا ، ام عیسیٰ حضرت مریم ،حضرت آسیہ بنت مزاحم اور خواہر موسیٰ حضرت کلثوم تھیں۔سیدہ فاطمہ زہراکو اللہ رب العزت نے بزرگ عورتوں کی سردار قرار دیا ہے۔
ابتدائے اسلام سیدہ خدیجہ اورسیدنا ابوطالب کی پشت پناہی اور ولولہ انگیز قیادت و حفاظت رسالت کے باعث کفار قریش اورصنادید مکہ کے تمام اسلام کش منصوبے خاک میں مل گئے۔ ان کی عداوت ونفرت کے آہنی قلعے مسمار ہو گئے اور بغض و عناد کے باندھے ہوئے اونچے اور مضبوط بنداسلامی تحریک کے ریلے میںخس و خاشاک کی طرح بہہ گئے۔تب انہیں بھی اسلامی قوت و طاقت کا اندازہ ہوااور وہ سمجھ گئے کہ عرب کی اس ابھرتی ہوئی طاقت کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔شیاطین مکہ کو یقین ہو گیاکہ اب اسلامی محمدی تحریک شاہراہ ِترقی تک پہنچ چکی ہے ،اس لیے اسے انفرادی مخالفت سے دبانامحال ہے۔ہر نئی صبح جب وہ اس تحریک کے بڑھتے ہوئے طوفانوں کی لہروں میں کفر کے اونچے اونچے کھنڈرات تنکے کی طرح بہتے دیکھتے تو ان کی آنکھوں میں خون اترآتا۔
نبوت کے پانچویں سال قائد ِاصحاب ِرسول صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم ،پہلے مبلغ اسلام،سیدنا جعفر بن ابی طالب کی زیر قیادت تحریک ِاسلامی سے وابستگان کاپہلا قافلہ مکہ سے حبشہ کی طرف روانہ ہو گیا۔کچھ دن بعد دوسرا بڑا قافلہ بھی مکہ کو الوداع کہہ کر حبشہ پہنچ گیا۔کفارِمکہ کی پوری کوشش کے باوجود ان کی دسترس سے نکل کریہ اصحاب ِرسول بعافیت حبشہ پہنچ گئے۔عمروبن عاص کی سرکردگی میں شاہِ حبشہ نجاشیکے لیے بیش قیمت تحائف لے کر ایک وفد ان مہاجرین کو لینے وہاں گیا تا کہ یہ درندے پھر سے ان پر مصائب اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑیںمگر سیدالبطحا، حضرت ابو طالب کے مراسلہ کے احترام اور سیدنا جعفر بن ابی طالب کی کامیاب تبلیغ اوربھرپور وکالت کی وجہ سے انہیں ذلیل و رسوا ہو کر واپس آنا پڑا۔ مہاجرین کا ہاتھوں سے نکل جانا اور وفد کا ناکام و نامراد واپس آجانا ہی کفار کو غیض وغضب میں لانے کے لیے کافی تھا کہ ایک روز حرم کعبہ میں شیر بیشہء شجاعت ،شیر رسالت ،سیدنا امیر حمزہ سید الشہداء کی آواز گونجی؛”میں محمد صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے دین پر ہوں،وہ جو کہتے ہیں میں بھی وہی کہتا ہوں،ہمت ہے تو میرے مقابلہ پر آئو”۔
Hazrat e Khadijah
اس اعلان نے تمام باطل پرستوں کے گھروں میں صف ِماتم بچھا دی۔شرپسند ،موذی کفارِمکہ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے ۔ہادی اکبر کا مذاق اڑانے والی زبانیں گنگ اور اذیت دینے والے نجس ابلیسی ہاتھ شل ہو گئے۔ابوطالب کی جانثاری اور خدیجہ الکبریٰ کی غمگساری کے بعدشیر بطحاکی آمد نے اطمینان ِرسالت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا۔کفار ِمکہ دارالندوہ میں اکٹھے ہوئے اور جمع ہو کر تحریک ِاسلامی کی بے انتہا کامیابی پر اپنے شدید رنج وکرب اور غم و غصہ کا اظہار کیا۔اپنی ناکامیوں کے عوامل کا ازسرنو جائزہ لیااور آئندہ کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اور اقدامات پر غور وخوص کیا اور جائزہ لیتے سوچا کہ ہم نے اس تحریک کی ہر ممکن مخالفت کی اور ہر میسر حربہ استعمال کیا مگر اس کا اثر ہمارے مخالف نکلا،اب ہم سب کا فرض ہے کہ ایسی شدید مخالفت کی جائے کہ یہ تحریک ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے۔
کافی غور وخوص کے بعد ترک ِموالات کا فیصلہ ہوا۔تمام مرد و زن اس بات پر متفق ہو گئے اور ایک معاہدہ تحریر ہواجس میں لکھا گیا؛ ‘ ‘ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے تمام تعلقات ختم کر دیے جائیں،ان سے شادی بیاہ،لین دین ،خرید و فروخت اور بات چیت نہ کی جائے اور ان سے ہر گز صلح نہ کی جائے ، حَتّٰی یُسْلِمُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ لِلْقَتْل، یہاںتک کہ یہ عاجزکردہ لوگ محمد رسول اللہ کو ہمارے حوالہ کر دیں تا کہ ہم انہیں قتل کر دیں”۔ مقاطعہ قریش پر عملد رامد شروع ہوا تو سید القریش ،سیدناابوطالب اپنے تمام خانوادے کو لے کر کوہ ِابوقبیس کی ایک شعب (گھاٹی )میںتشریف لائے جسے شعب ِابی طالب کہا جاتا ہے۔مکمل تین سال سخت قیداور صعوبتوں میں گزار دیے مگر ہادیِ اکبر کی حفاظت و حمایت سے دستبردار نہ ہوئے۔
قصر نور سے شعب ابی طالب ان ہاشمی و مطلبی محاصرین میںشہزادیِ عرب سیدہ خدیجہ الکبریٰ بھی تھیںاور آپ کی آغوش میں چند ماہ کی شہزادیِ نور ،معصومہ فاطمہ الزہرابھی تھیں۔ابو طالب اور ان کے ساتھی ،ناز و نعم کی پروردہ شہزادیاںاور ہاشمی چمنستان کی معصوم کلیاں جس کرب و اذیت اور تکلیف کے مراحل سے گزریں ان کا تصور بھی روح فرسا ہے۔ بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر رونے والے بچوں کی صدائیں اور فریادیں قریش کے بام و در سے ٹکراتیںجنہیں سن کر وہ خوش ہوتے اور جھوم جاتے تھے۔اس نظر بندی کا دور تین برس ہے اور اس دور کے احوال پڑھ کر پتھر بھی پگھلنے لگتا ہے۔ ناکہ بندی اتنی شدید تھی کہ ہر ممکن کوشش کی جاتی کہ ان محصورین تک غذاکا ایک دانہ بھی نہ پہنچے۔
Hazrat e Khadijah
انہیں کس جرم کی سزا ملی ؟ناز و نعم اور سردارانہ آسائشات سے بھرپور زندگی چھوڑ کر کر ایک تنگ گھاٹی میں بھوک و پیاس اور شدت ِحالات۔عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم ۔سوائے اتباع سرور کونین صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کے اور کیاجرم کیا شہزادی عرب نے ،سید البطحا نے اور آپ کے خانوادہ نے۔اسی عشق مصطفٰی کے باعث عرب کی نجیب ترین ملکہ بھوک و پیاس سے نڈھال ہوئیں، آپ کی گود میںشہزادیِ نور، بنت رسول صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم جاں بہ لب تھیں۔ بنی ہاشم پر عرصہء حیات تنگ کر دیا گیا۔ناقابل برداشت اذیتوں کے باوجود سید البطحاء کی زیر قیادت وسرپرستی کار تبلیغ جاری رہا۔ہادی ٔ عالم صبح وشام ہر ممکن عوام کو دعوت ِحق دیتے تھے۔تبلیغ دین کاسفینہ سردار ِعرب، مومن قریش سیدنا ابوطالب اور شہزادیِ اسلام سیدہ خدیجہ کی محنت و ریاضت اور حفاظت و حمایت کی بدولت انہی کی صولت و سیادت اور جاہ و حشمت کے خون کی لہروں پر رواں دواں رہا۔سیدنا ابو طالب اور سیدہ خدیجہ الکبریٰ نے پیغمبر خدا اور ان کے عظیم مقصد کی تبلیغ میں اپنی خاندانی سروری،سرداری،عزت و عظمت،روایتی ساکھ اور موروثی رکھ رکھائوکے ساتھ تمام رشتہ داریوں کا گلا گھونٹ دیا۔
نازونعم کی پروردہ،محلاتی زندگی میں حریر و دیبا پہننے والی،سونے چاندی ،موتیوں اور ہیروں سے کھیلنے والی مکہ کی مطلق العنا ن شہزادی،چشم و ابرو کے ہلکے سے اشاروں پر کام لینے والی،سلاطین عصر شاہان زمانہ،رئوسائے دہر اور امرا ئے و قت کو جوتی کی ٹھوکروں پر رکھنے والی عرب کی ملکہ اور اسلام کی شہزادی پر یہ کٹھن وقت تھا کہ اپنے محبوب شوہراور اللہ کے پیارے رسول کو اذیتوں میں دیکھا۔گود کی بچی کو سسک سسک کر روتا اور تڑپتا دیکھامگر صبرو استقامت اور عزم و استقلال کی چٹان نہ روئیںنہ سسکی لی ،شکوہ کیا نہ شکایت،مقدر کا گلہ نہ قسمت کا رونا، آہ زاری نہ نالہ و شیون ، فریاد نہ واویلا۔ سوچ وفکر میں رسول اللہ کے سوا کوئی نہیں،اسلامی تحریک اور محمدی مشن کی تشویش کے بعد اگر کوئی خیال ہے تو گو د میں معصوم فَاطِمَةُ الْزَّہْرَا کا ۔
احسانات خدیجہ سیدہ خدیجہ کی بے پناہ دولت اور عظیم المرتبت شہزادی ہونے کو تمام مورخین کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ واآلہ وسلمنے بھی تسلیم فرمایا ہے اوربارہا اس کا اعتراف فرمایا ہے۔سرور کونین صلی اللہ علیہ واآلہ وسلمسے عقد کے بعد آپ نے اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل سے فرمایا، ”یہ سارا مال لے کر محمد مصطفٰی کے پاس جائواور کہو کہ یہ سب مال میری طرف سے ان کی خدمت میں ہدیہ ہے۔اب یہ ان کی ملکیت ہے ،جس طرح چاہیں اس کو خرچ کریںاور ان سے یہ بھی کہہ دینا میرے پاس جو کچھ ہے ،میرا مال،میرے غلام ا ورجو جو چیزیں میرے ماتحت، تصرف یا قبضہ میں ہیں میں نے سب کا سب انہیں ہبہ کیا”۔ ان کی جلالت ِقدراور عظمت ِشان کی وجہ سے آپ کے ارشاد کے مطابق ورقہ بن نوفل گئے اور زمزم ومقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہوئے اور نہایت بلند آواز سے لوگوں کو پکارا؛
Hazrat e Khadijah
” اے گروہ عرب!حتمی طور پر خدیجہ تمہیں اس بات پر گواہ بناتی ہیںکہ انہوں نے اپنے نفس،اپنے مال،اپنے غلام وخدام اور وہ تمام چیزیںجن کی وہ مالک ہیںاز قسم چوپایہ واموال ا ور ہدایہ وغیرہ سب کچھ محمد کو ہبہ کیا اور جو کچھ خدیجہ نے انہیں ہبہ کیا انہوں نے قبول فرما لیا ہے۔ خدیجہ نے اپنا سارا مال و متاع ان کی جلالت و عظمت کے پیش نظر اور ان کی طرف رغبت کرتے ہوئے ہبہ کیا ہے۔ لہٰذاتم سب لوگ اس بات پر گواہ رہو”۔ شہزادیِ عرب نے مال و زر ،درہم و دینا ر،تمام جائیدادمنقولہ و غیر منقولہ ،نوکر چاکر،غلام و کنیزیں غرض ساری ملکیت بنام اسلام وقف کر دی اور حضور پاک صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کواختیار کلی دے دیاکہ آپ جس چیز کو جس طرح چاہیں بلا روک ٹوک استعمال فرمائیںاور خرچ کریں،یہ سارا مال میرا نہیں آپ کا ہے۔ سیدہ خدیجہ نے اپنی بے پناہ دولت ساری کی ساری اپنے محبوب شوہر کو دے دی تاکہ اسلامی تحریک رکنے نہ پائے ۔ خدمات ِابو طالب کواَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَاٰوٰیکاتمغہ ملا تو وہیں خدیجہ طاہرہ کوفرمان ِایزدی نے وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنٰی،اور ہم نے آپ کو تنگدست پایا تو غنی کر دیا، سے سرفراز فرما دیا۔
علامہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں؛ ” خدا نے حضور کو مال ِخدیجہ سے غنی بنا دیا۔ایک دن رسول ِخدا خدیجہ کے پاس آئے تو بیحد غمگین و ملول اور افسردہ تھے ۔خدیجہ نے حضور سے عرض کی اس رنج کا سبب کیا ہے؟فرمایا،یہ قحط کا زمانہ ہے۔اگر میں تمہارا مال خرچ کر دیتا ہوں تو تم سے حیا آتی ہے اور اگر اسے خرچ نہ کروں توخدا سے ڈرتا ہوں۔خدیجہ کے کہنے پر حضور نے قریش کو بلایا۔ان میں ابوبکر بھی تھے۔ابوبکر نے بیان کیاکہ خدیجہ نے دینار نکال نکال کر سامنے ڈھیر کر دیے یہاں تک کہ وہ اس مقدار میں ہو گئے کہ میں ان لوگوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا جو میرے آگے اتنے زیادہ مال کے ڈھیر کے پیچھے بیٹھے تھے۔پھر جناب خدیجہ نے فرمایا،تم سب گواہ رہنا کہ میرا یہ مال اب رسول خدا کا مال ہے ،انہیں پورا پورا اختیار ہے چاہیں تو اسے خرچ فرمائیں اور چاہیں تو روک لیں”۔
اس مال کی پاکیزگی اور طہارت اور سب سے بڑھ کر خلوص ِخدیجہ طاہرہ کے باعث اللہ رب العزت نے ا س مال کو اپنا مال قرار دیتے ہوئے احسانات ابو طالب اور خدیجہ الکبریٰ کو ایک ہی مقام پر بیان فرمایا ہے۔سیدہ خدیجہ کی اطاعت شعاری ،فرمانبرداری،محبت و الفت اور عشق حقیقی کا تقاضا تھا کہ رسول خدا گھر سے آپ کی مدح وثنا کرتے نکلتے اور اس سے بڑھ کر فرمان ایزدی، وَاَمَّابِنِعْمَةِ رَبّکَ فَحَدِّثْ ، لسان وما ینطق سے ہمیشہ فضائل ِملکہ اسلام بیان کرواتا رہا۔سیدہ خدیجہ کا سہارا اور تمام ملکیت کا اسلام پہ خرچ فرما دینا یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْن اللّٰہِ اَفْوَاجاً، کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ عرب کی اس تاریخ ساز ملکہ کی یہ آفاقی دولت کہاں خرچ ہوئی اور کن مقامات پر اس کا استعمال اسلام کی بنیادیں مستحکم کرنے کا اہم ترین سبب بنا۔
چند مقامات ِمصارف یہ ہیں؛ ١۔ دعوت ِذوالعشیرہ کے سہ روزہ اجلاس کے انتظامات اور دستر خوان کو اس مال ِخدیجہ سے سجایا گیا۔ ٢۔ ہجرت حبشہ جس میں پہلے قافلہ میں گیارہ مرد اور چار عورتیں اور بعدہ بڑاقافلہ جس میںپچاسی مرد اور سترہ مستورات شامل تھیں، ان کی آمد و رفت اور قیام حبشہ کے تمام مصارف آپ نے ادا فرمائے۔ ٣۔ سَابقُوْنَ اَلْاَوَّلُوْن ْ جو کہ انتہائی پسماندہ اور مکہ کا غربت کی بدترین چکی میں پسا ہوا نادارو مفلس اور غلاموں،کنیزوں پرمشتمل طبقہ تھاجن پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور مکہ کا چپہ چپہ ان کا دشمن ہو رہا تھا،ان کے جملہ اخراجات اور حضور صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم کی جانب سے کی جانے والی استعانت مال ِخدیجہ سے تھی۔
Hazrat e Khadijah
٤۔ مکہ کے شدید قحط میں اہل ِاسلام کے علاوہ پورے مکہ اور اطراف و جوانب کے لوگوں کی مدداور خوراک کی فراہمی کامل آپ کے مال سے ہوئی۔ ٥۔ بعثت ِنبوی کے ساتویں سال محرم الحرام سے لے کر بعثت نبوی کے نویں سال ذی الحجہ تک شعب ابی طالب میں پورے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کی سخت کے دورا ن پورے قبیلہ کی کفالت اور بعد ازاں حضور کے جملہ مصارف میں آنے وا لی رقم اسی مال خدیجہ سے تھی۔ ٦۔ حضور کے قیام مکہ اور سفر طائف کے تمام اخراجات ،ہر گام پر سیدہ طاہرہ کی یاد دلاتے رہے۔ ٧۔ غار ِثور میں تین شبانہ روز قیام اور مدینہ جانے کے لیے سواری اور اہل اسلام کی ہجرت مدینہ کے تمام اخراجات،مال خدیجہ سے ادا ہوئے۔
٨۔ عالم اسلام کی پہلی مسجد قبا کے لیے خریدی جانے والی زمین کے دیے جانے والے دس ہزار دینار ،سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے تھے۔ ٩۔ اصحاب صُفّہْ کے جملہ اخراجات اسی مال سے ادا ہوتے رہے۔ ١٠۔ ہجرت ِمدینہ کے لیے مکہ کے بیکس ومجبور ،مظلوم ستم رسیدہ،فاقہ مست و نادار،غریب مہاجرین جو ابھی تک کفار مکہ اور صنادید ِقریش کے پنجہء ظلم و ستم میں سسک رہے تھے انہیں آزاد کروا کر مدینہ تک لانے میں مال ِخدیجہ خرچ ہوا۔ان میں مئوذن ِرسول بلال حبشیقابل ذکر ہیں۔ کفار مکہ نے ان غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے کئی سو گنازیادہ قیمت مقرر کی جو سب کی سب سیدہ خدیجہ طاہرہ کے پاک و پاکیزہ مال میں سے ادا کی گئی۔ مدینہ منورہ میں حضور کے جملہ مصارف اور اصحاب کبار کی کفالت و امور زندگانی میں معاونت اسی مال خدیجہ سے ہوئی۔اسلام کے عظیم الشان قلعہ کی ایک ایک اینٹ
آپ کے بابرکت مال سے تعمیر ہوئی۔عرب کا گندہ سماج، اسلامی تہذیب و تمدن سے کبھی آشنا ہوتااور انقلاب ِمصطفوی کی بنیاد مستحکم نہ ہوتی اگر یہ احسانات ِخدیجہ نہ ہوتے۔اسی طرف اشارہ فرماتے مرسل اعظم ۖفرماتے ؛ مَا قَامَ اَلْاِسْلَامُ اِلاّ بسَیْفِ عَلِیٍّ وَثَرْوَةِ خُدَیْجَةْ، اسلام کبھی بھی قائم نہ ہوتا اگر علی کی تلوار اور خدیجہ کی دولت نہ ہوتی۔ مَا نَفَعَنِیْ مَالقَطُّ مِثْلَ مَانَفَعَنِیْ مَالُ خُدَیْجَةَ، ثروتِ خدیجہ سے بڑھ کر کسی کی دولت میرے لیے نفع بخش نہ تھی۔ سلام اللہ علیہا ابو سعید خدری روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا؛ ”شب معراج جب جبرائیل مجھے آسمانوں کی طرف لے گئے اور وہاں کی سیر کروائی اور جب واپس پہنچے تو میں نے جبرئیل سے کہا،”اے جبرئیل !بتائو تمہاری کوئی حاجت ہے ؟”۔جبرئیل نے کہا،”جی یا رسول اللہ !میری حاجت یہ ہے کہ خد اکا سلام اور میراسلام خدیجہ سلام اللہ علیہا کو پہنچا دیں ”۔پیغمبر خدا زمین پر پہنچے تو خدائے بزرگ کا اور جبرئیل کا سلام سیدہ خدیجہ کو پہنچایا۔سیدہ نے فرمایا،” اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالْسَّلَامُ وَمِنْہُ الْسَّلَامُ وَاِلَیْہِ الْسَّلَامُ وَعَلیٰ جبْرَائِیْلَ الْسَّلَامُ ”،”بے شک اللہ کی پاک ذات پر سلام ہے اور اس سے ہی سلام ہے اور اسی کی طرف سلام ہے اور جبرئیل پر بھی سلام ہے ”۔
ایک دفعہ جبرائیل امین،بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے بارے میں پوچھامگر آپ کو نہ پایا۔عرض کی، ” جب وہ تشریف لائیںتو انہیں بتا دیجئے کہ ان کا رب انہیں سلام کہتا ہے”۔ایک اور مقام پر فرمایا، ”ان کا رب انہیں سلام کہتا ہے اور میری طرف سے بھی سلام پیش کیجیے اور جنت میںیاقوت ،زبرجد،اور مروارید کے موتیوں سے بنے ہوئے گھر کی خوشخبری دیجیے”۔جب حضور ۖنے یہ بات آپ کے گوش گزار کی تو آپ نے فرمایا ، ”میرا سلام بھی بارگاہ ِرب العزت میںپیش کر دیجیے۔
Dr Syed Ali Abbas Shah
تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ ریکٹر والعصر اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ