تحریر: پروفیسر محمد صغیر اعلی حضرت سید نا ہارون بن امام موسی کاظم، اپنی ہمشیرہ معظمہ حضرت سید تنا فاطمہ بنت امام موسی کاظم، رحمت اللہ علیہ، معصومہء قم اور چار بھائیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ سے سرزمین فارس تشریف لائے اور راستے میں منافقین کے حملوں کا بھر پور جواب دیتے رہے اصفہان پہنچے تو ایک حملے میں شہید کر دیئے گئے۔ آپ کے بھائی سادہ، طہران کے قریب شہید ہو گئے اور حضرت معصومہ کو اہل قم انتہائی احترام سے زخمی حالت میں قم لے گئے جہاں سترہ روز، بیت النور میں قیام کرنے کے بعد آپ کی شہادت ہو گئی۔
حضرت ہارون ولایت کے آٹھ فرزند تھے جن سے چلنے والی نسل سادات، صفہات تاریخ پرانمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے۔ صفوی حکمران جو کہ خود بھی موسوی الکاظمی سادات، عظام میں سے تھے، آپ کی بارگاہ سے خصوصی عقیدت و مئودت رکھتے تھے اور جاروب کشی کو حاضر ہوتے اسی بے پناہ عقیدت کے باعث سلطلنت صفویہ کا دارالہکومت اصفہان میں قائم کیا گیا اور آپ رحمت اللہ علیہ کی درگاہ سے انتہائی قریب حکومتی ایوان اور مہمان خانے تعمیر
ئے گئے جہاں آنے والے شہنشاہان، وفود اور شاہی مہمانوں کو آستانہء مقدس ہارون ولایت رحمت اللہ علیہ کی زیارت کرائی جاتی تھی۔
Juahryganh
جواہریگانہ : سادات عظام کے اس بے مثال خانوادہ نے صفہات تاریخ کو اپنے انمول جواہر سے مزین کیا ہے۔ ان مقدس ہستیوں میں متعددعلمائ، فضلائ، فقرائ،فقہائ، اطبائ، نہجبائ، شعرائ، سیاسی و مزہبی قائدین، سرکاری وغیر سرکاری افسران، ماہرین اقتصادیات، سفیران، وزراء مملکت، اور جملہ امور زندگانی کی نامور شغصیت شامل ہیں جن کے تزکرہ کے لیئے علیدہ کتاب درکار ہے۔
حضرت سیدنا جعفر بن الہسن رحمت اللہ علیہ، قاضیء مدینہ اور نقیب مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ آپ رحمت اللہ علیہ کی خدمات تاریخ اسلام میں نمایاں ہیں۔ آپ رحمت اللہ علیہ سیدنا امامزادہ ہارون بن امام موسی کاظم رحمت اللہ علیہ کے پڑپوتے تہے۔ صاحب کرامات اور ولیء کامل تھے۔
حضرت سیدنا میر معصوم علی شاہ رحمت اللہ علیہ کا مزار پر انوار سکھر، سندھ میں ہے اور معصوم شاہ کا مینارہ، سکھری کی پھچان ہے۔ آپ رحمت اللہ علیہ، قلوب اہل نظر میں مرکز تجلیات ہے اور معصوم شاہ کا مینارہ، سکھرکی پہچان ہے۔ آپ رحمت اللہ علیہ، قلوب اہل نظر نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
آپ رحمت اللہ علیہ 1008ھ کو ایران میں شھنشاہ جلال الدین اکبر کے سفیر رہے۔ بعد اراں 1015ھ میں گورنر سندھ مقرر ہوئے۔ آپ رحمت اللہ علیہ، نے 1003ھ بمطابق 1594ئ، ایک 84 فٹ بلند مینار کی بنیاد رکھی جو 1026ھ بمطابق 1617ء میں پایہء تکمیل کو پہنچا۔ اس مینار کی کل 84 سڑھیاں ہیں اور اس کی بلندی پر پہنچ کر دریائے سندھ اور قدیم و جدید سکھر کا دلفریب نظارہ، انتہائی نظر افروز ہے۔
Shahansha Jalal Din
مینار کا افتتاح شھنشاہ جلال الدین اکبر نے کیا تھا۔ پیر سید معصوم علی شاہ رحمت اللہ علیہ، شھنشاہ اکبر کے مصاحب اور مقرب تھے۔ باعمال عالم دین اور مدبر سیاستدان تھے۔ باعمل عالم دین اور مبر سیاستدان تھے۔ 944ھ میں پیدا ہوئے اور 1019ھ میں 73 سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ رحمت اللہ علیہ، کے ویلد گرامی، حضرت نظام الدین صفائی حسینی رحمت اللہ علیہ، صاحب طریقت ولی اللہ تھے۔
انہی کے خوبصورت مزار پر یہ مینار تعمیر کیا گیا جو سندھ کی تہزیب و تمدن اور تاریخ کا انمول اثاثہ ہے۔ حضرت میر معصوم علی شاہ رحمت اللہ علیہ، اپنے والد بزرگوار کے پہلو میں دفن ہوئے۔ آپ رحمت اللہ علیہ کے چھ خلفاء طریقت تھے : ١۔ شیخ فاضل دلہوی رحمت اللہ علیہ ٢۔ قاضی محمد لاہوری رحمت اللہ علیہ ٣۔ شاہ جمال رہتاس رحمت اللہ علیہ ٤۔ لعل گدا لاہوری رحمت اللہ علیہ ٥۔ احمد گدا لاہوری رحمت اللہ علیہ ٦۔ شہباز گدا لاہوری رحمت اللہ علیہ
آپ رحمت اللہ علیہ 3 جون 1661ئ، عہد اورنگزیب عالمگیر میں واصل بہق ہوئے اور لاہور تکیہ والا میں مزار قدس مرجع خلائق ہے۔
Professor Muhammad Sagheer
تحریر: پروفیسر محمد صغیر مئولف کتاب، تذکرہ اولیائے منڈی بہاوالدین