تحریر: عاقب شفیق اچانک ایسا لگا کہ کسی نے مجھ پر ٹھنڈے برف کے ٹکڑوں سے بھری پانی کی بالٹی زور سے انڈھیل دی ہو۔ نیند سے تلملا کر اُٹھا تو دیکھا کہ گاڑی میں میرے علاوہ سبھی رکوع کی حالت میں ہوئے اپنے دامن سمیت کپڑوں کا متاثرہ حصہ نچوڑ رہے تھے۔”اندھا کہیں کا۔۔۔۔۔ گاڑی چلانے کا قرینہ ہی نہیں ان لوگوں کو۔۔۔۔۔۔ پانی سے آھستہ گاڑی چلاتے ہوئے انہیں موت پڑتی ہے کیا۔۔۔۔۔۔؟؟” عبید بھائی بھی آپے سے باہر تھے۔ حافظ خلیق الرحمان صاحب کسی آدھے پُل کے ذکر میں مصروف تھے ” نہیں بھائی! آدھے پُل سے لوگ پار کس طرح جاتے ہیں؟ دریا کے آدھ تک پل ہے وہاں سے آگے صرف رَسّے لٹک رہے ہیں۔ چھلانگ بھی ماریں تو ندی کے وسط میں جائیں گے“۔۔۔
علاوہ ازیں موصوف کے نزدیک آبشاریں اور دریا “بَحَرتے” ہیں۔۔۔ صحیح معنوں میں آنکھ کھُلی تو دیکھا کہ ہم ناران پہنچنے والے ہیں اور دائیں جانب گلیشیئر ہے۔ گلیشیئر سے سڑک پر بہتا پان گاڑیوں کو آہستہ چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسی مجبوری میں مخالف سمت سے آتی تیز کار “شاں” سے گزری۔ اور ہم سب کی “باں باں” کر دی۔۔۔میرا منہ اچھی طرح دُھل چکا تھا۔ گاڑی کے شیشے کے بالائی جانب پیوست ڈبے سے ٹشو پیپر نکالے اور منہ صاف کیا۔ اب مجھے حالات کا اندازہ ہوا کہ یہ کوئی “آئیس کیوب چیلینج” نہیں بلکہ حادثاتی واقعہ تھا۔
کپڑے بھیگنے کی وجہ سے ٹھنڈ لگنے لگی تو ہاتھ بڑھا کر شیشہ بند کر دیا۔ “بائیں جانب ناران شہر ہے اور دائیں سائیڈ پربائی پاس ہے۔ ہم بائی پاس سے جائیں گے۔ اس طرف رش کم ہوتا ہے” عبید بھائی نے بتایا اور گاڑی دائیں دائیں جانب مُڑ گئی۔ وہاں سے جھیل تک جیپ ایبل ٹریک ہے۔ سو، ہم سب جیپ پر منزل کی جانب بڑھنے لگے۔ جیپ کے ڈرائیور ریاض بھائی سے اچھی خاصی گپ شپ ہونے لگی۔ عبید
Jheel
بھائی نے اپنے گزشتہ سفر کا احوال سُنایا کہ فلاں ہوٹل میں فلاں جگہ بیٹھ کر فلاں کھانا کھایا تھا۔ اور ساتھ ہی گویا ہوئے “ہم نے ناران سے جھیل تک کے لئے ایک جیپ لی، اس کے ڈرائیور کو سب ‘ڈراپَس’ بلاتے تھے۔ ہم جھیل پہ پہنچے وہ سواریاں لے کر واپس نیچے آ گیا۔ ہم آدھ گھنٹہ اس کا انتظار کرتے رہے پھر پیدل ہی ناران تک منہ چھُپاتے ہوئے ایڈوِنچر کر ڈالا عبید بھائی کی بات سن کر ریاض بھائی مُحتاط ہو گئے۔ بائیں جانب گلیشئیر پر خانہ بندی کر کے کولڈ ڈرنکس اور جوس کے ڈبے ٹھنڈے ٹھار کیئے جا رہے تھے۔ سب کچھ قدرتی تھا۔ جیپ پتھروں پر عجیب طرح کا سفر کر رہی تھی۔ بڑے بڑے پتھروں پر نگاہِ عام سے تو کوئی سڑک کا نقشہ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن جیپ کے گزر جانے کے بعد یقین ہو جاتا تھا کہ ہاں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں سڑک کا وجود ہے۔
آخری موڑ کے قریب پہنچنے پر عبید بھائی نے بتایا کہ اب جھیل نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ سب نگاہیں اُس سمت میں اُٹھائے شانت بیٹھے تھے۔ لیکن جیپ گرینڈر کی طرح ڈرائیور کے علاوہ تمام نشستوں پر براجمان افراد کی نشستیں تبدیل کرنے میں اچھی خاصی کامیاب رہی۔ ناران میں جو جو جس جس سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اب تک وہ اس کی بالکل مخالف نشست پر جھٹکے کھا رہا تھا۔ حالانکہ ہم نے جرید میں سیر ہو کر کھانا کھایا تھا لیکن سبھی شدید بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے۔
سامنے پہاڑوں کی بُلندی کو اپنے آنچل میں چھُپاتے بادل شائد اس امر کو مخفی رکھنے کے درپے تھے کہ وہ یہاں کے ضرب المثل حُسن کو بھی نہاں کیئے ہوئے ہیں یا کسی مُحافظ سانپ کی طرح پہاڑوں پر قہر کی نگاہ لیئے دھندلاتے ، گرجتے کالے بادل مسلسل تیزی سے بل کھا کر اپنے فرائض سے ہر فرد کو آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتے تھے۔ میری نظر کچی سڑک کے وسط میں پڑے تین بڑے بڑے پتھروں پر تھی جہاں سے ابھی جھیل کا نظارہ تدریجاً جلوہ گر ہونے کو تھا۔ دُھند نے رقابت کا کردار “بطریقِ احسن” نبھایا۔ دُھند فقط دس میٹر دور ان تین پتھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیئے مُسکراتی ہوئی بل کھا گئی ، کہاں بیسیوں میٹر دور حُسن و جمال کے پیکر کو دکھانے کا اِذن۔۔۔۔۔؟
Fog
خیر، دس میٹر کے فاصلے کو پچیس تیز قدموں سے پار کیا تو دُھند صاحبہ کے عناد نے پھر سے مُسکرانے کا ھدیہ پیشِ خدمتِ خاکسارھا کر کے بے نام رقیبانہ تعلق کا سنگ ِ بُنیاد اُٹھا دیا۔محبوب سے وصال کو ہجر تک محدود رکھنے کی “سُپاری” کے حامل بادلوں کے عزائم کو نِست و نابود کرنے کی جسارت کو پایہ ِ تکمیل تک پہنچا کر مُشک ِ عنبریں و مُشک ِ فطرتِ خداوندی کے بڑے بڑے “گھونٹ” لیتے ہی تخلیقِ کائینات کے امور کو سحر انگیز “جلوہ ھائے جات” سے مُنوّر کرنے والی ذات کے حضور ماتھا ٹیکا۔ سر اُٹھایا تو بادل نگاہیں جھُکائے ، رقابت پر نادم میرے قدموں کو چھوتے ، بکھرتے سنورتے اوجھل ہو گئے۔ خیال بادلوں سے ہٹا تو محبوب بے پیرہن جلوہ گری کی کُل منازل پار کیئے ماہِ شبِ چار دھم کی آغوش میں وصال کیلئے بانہیں کھولے منتظر تھا۔
محبــوب ہو شــراب ہو پھــر چانـد رات ہو کس کو پڑی ہے ایسے میں کارِ ثواب کی ماحول وصال کے منظر سے جل اُٹھا۔ تمام عناصر نے اسے ناممکن بنانے کیلئے اپنا کردار نبھایا، آسمان نے بجلی برسائی، کوہساروں نے بادلوں کی شال سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ گھنے بادل جھیل کو اپنی لپیٹ میں لینے کیلئے دُھند سے مدد مانگنے لگے۔ بارش اپنی رفتار میں شدت لا کر میرے جھیل کی جانب بڑھتے قدم روکنے پر تُلی رہی۔ سورج جلدی سے مغرب کو ڈھل کر اندھیرے سے مجھے خوف زدہ کرنے پر بَضد رہا۔ پھر ان تمام عناصر نے مل کر بادِ یخ بستہ کی تیغ کو میرے مقابلے میں ستیزہ گاہِ سیفی الملوکی میں اُتار دیا۔ آسمان اپنے بادل نمائی ترکش سے اولے برسانے لگا۔ اس قدر تلخ پَنجہ فگنی سے میں گھبرایا ضرور لیکن وصالِ یار میں جان دینا اپنا مقصد بنا کر جان لیوا اولوں کو پاؤں تلے روندھتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔
“کوہسارِخطیر” تو اب “کوہ سارے حبیب” بنتے جارہے تھے۔ دُھند بھی وصال پر رقص کُناں ہو کر سر پر شال بن کر وصال کے امکانات بڑھانے لگی۔ بادل بھی اب بے دل نہیں بلکہ با دِل ہو گئے تھے۔ سورج نے واپس نہ آ کر وصال کیلئے بہترین ماحول پیدا کر دیا۔ اب ہلکی ہلکی بارش بھی تھم چُکی تھی، محبوب بالکل وصال کے لیئے تیار، بے پیرہن، سَجا دَھجا، نیلگوں آسمان اور ستاروں کا عکس اپنے شفاف پانی میں لیئے ایسا منظر پیش کر رہا تھا کہ جیسے حورِ بہشت ہو۔
Lake Saiful Muluk
میں بالکل جھیل کے پاس پہنچ گیا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ فوراً سے پہلے پانی میں اُتر جاؤں۔۔۔۔۔ ، لیکن، اچانک کوئی مجھ سے گویا ہوا۔۔۔۔ نہیں۔۔ عاقب بروزنِ عاشق۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ جو مزہ ہجر کی تڑپ میں ہے وہ وصال میں نہیں۔۔۔۔ رُکے رہو۔۔۔۔۔۔ یہی اصل وصال ہے۔ ۔۔۔ محبوب کو بے پیرھن پا کر اسے چھونا مت۔۔ ۔۔ تادمِ مرگ شرمندہ و شرمسار رہو گے۔۔۔۔ حقیقت پسند ہو تو جان لو کہ وصال ہو چکا۔۔۔۔۔۔۔ قدم رُک گئے۔۔۔۔ جھیل بے تاب تھی۔۔۔ میں بھی بے چین تھا۔۔۔ ماحول مُکمل رومانوی تھا۔۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس اجنبی آواز کی ہدایات پر عمل کرنے لگا۔۔۔۔ میرے قدم صرف آدھ فٹ جھیل کے پانی سے بَعید تھے۔۔۔۔ یہ فاصلہ بڑھ کر ایک فٹ ہوا۔۔۔۔ پھر میٹروں میں چلا گیا۔۔۔ بس۔۔۔ مجھے وصال کا لُطف حاصل ہو چکا تھا۔۔۔۔
” یار سردی سے حمزہ کی طبیعت خراب ہو رہی ہے“ عبید بھائی نے دور سے چلا کر کہا۔ کافی دیر ہو چکی تھی۔ سو، عبید بھائی خیمہ سمیٹنے لگے ، میں حمزہ کو لے کر سامنے ہوٹل کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ حمزہ کے دانت تیزی سے بج رہے تھے۔ وہ شرارتیں بھول چکا تھا اور عجیب سی کیفیت میں تھا۔ مجھے اس پر لمحہ بہ لمحہ پیار آ رہا تھا۔ ہوٹل کا تنُور جل رہا تھا۔ حمزہ کو تنُور کے پاس بٹھا کر گرم کیا۔ وہیں چائے پی اور ریاض بھائی کی جیپ میں پھر سے سوار ہو گئے۔ وہاں سے تمام لوگ واپس جاچکے تھے۔ ہم سب سے آخر میں وہاں سے لوٹے۔۔ بائیں جانب نیچے نالے سے دُھند جھیل کی جانب تیزی سے جا رہی تھی۔ دو سبزے سے لبریز پہاڑوں کے مابین جھیل کے اخراجی پانی سے بنانالہ دلکش منظر پیش کر تا ہے۔
Lake Saiful Muluk
اس منظر کو چند لمحوں کے لئے اپنی آغوش میں چھپاتے اور ظاہر کرتے بادل منظر کی دلکشی کو دوبالا کرتے ہیں۔ جھیل سے ناران تک نو کلو میٹر کے راستے پر دو طرفہ جیپیں قطار در قطار محوِ سفر ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم ان کی تعداد کتنی ہے؟ میرے ناقص اندازے کے مطا بق ایک ہزار کے قریب جیپیں وہاں موجود ہیں۔ چڑھائی والے ہوٹل کے پاس پہنچ کر زوہیب بھائی کو کال کی کہ گاڑی لے آئیں۔ چند ساعات میں زوہیب بھائی ہمارے پاس موجود تھے۔ریاض بھائی کا شکریہ ادا کیا اور زوہیب بھائی کے ہمسفر ہو لئے۔ ہم ساروں کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ خشک ہونے پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ پتا بھی نہ چلا اور طاری ہو بھی گئی۔ آنکھ تب کھُلی جب ہم اردو نگر میں گھر کے پاس پہنچے۔ زوہیب بھائی سے رُخصت ہوئے، گھر جاتے ہی سیدھا بستر استراحت پر پہنچ کر مُسترح ہو گئے۔