واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ اور روس نے شام میں لڑائی کے پرامن خاتمے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے جمعے کے روز نئی کوششیں شروع کیں، ایسے میں جب ترک افواج کے میدان میں آنے سے صورت حال مزید کشیدہ اور گنجلگ دکھائی دیتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف جنیوا میں اجلاس کر رہے ہیں، جس کا مقصد فوجی تعاون اور اطلاعات کے تبادلے پر سمجھوتے کی کوشش ہے، تاکہ شام میں داعش کے شدت پسندوں کو شکست دی جاسکے، جو ایک ایسا معاملہ ہے جس کے دونوں فریق خواہاں ہیں۔
دریں اثنا، حکومت کے ساتھ جمعرات کو طے پانے والے ایک سمجھوتے کے تحت، شامی باغی اور اُن کے اہل خانہ نے طویل مدت سے محصور دمشق کے مضافات میں واقع دریہ کا علاقہ خالی کرنا شروع کر دیا ہے، جس پر چار برسوں سے فضائی حملے ہوتے رہے، جب کہ قبضے کے نتیجے میں وہاں کے قرب و جوار ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
سمجھوتے کی شرائط کے مطابق، تقریباً 700 مسلح افراد کو مخالفین کے زیر کنٹرول ادلب کے شمالی صوبے کی جانب گزرنے کی محفوظ راہ فراہم کی جائے گی، جب کہ تقریباً 4000 شہریوں کو دریہ کے جنوب میں واقع پناہ گاہ میں عارضی ٹھکانہ فراہم کیا جائے گا۔
جنیوا میں ایک بیان میں، شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے ایلچی، استفان ڈی مستورا نے اس بات پر زور دیا ہے کہ دریہ سے لوگوں کے انخلا کے کام کو محفوظ بنایا جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا انخلا رضاکارانہ بنیادوں پر ہونا چاہیئے، یہ کہتے ہوئے کہ باغی دھڑوں اور سرکاری افواج کے درمیان سمجھوتے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں اقوام متحدہ سے مشورہ نہیں کیا گیا یا اُنھیں ملوث نہیں کیا گیا۔
امریکہ روس اجلاس پر، جس پر گہری نظریں لگی ہوئی ہیں، ڈی مستورا نے کہا کہ ’’ہم اس پر ابھی کام کر رہے ہیں‘‘۔ شام کے پہلے پہر، وہ بات چیت میں شریک ہوئے۔
دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران، لاوروف نے کہا کہ کیری کے ساتھ شام پر بات چیت ’’بہترین‘‘ رہی ہے۔
ایسے میں جب لاوروف صبح کی نشست میں داخل ہوتے ہوئے، اُنھوں نے اخباری نمائندوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شام میں جنگ بندی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ تھی۔ اُنھوں نے اتنا کہا کہ ’’میں مذاکرات کے ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ کیری نے اس پر کوئی بیان نہیں دیا۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں آیا اُن کی بات چیت کے بعد اِن میں سے کوئی شخص اخباری نمائندوں سے بات کرے گا، جس میں یوکرین کے بحران پر بھی گفتگو شامل ہوگی۔