حلب (جیوڈیسک) بین الاقوامی امدادای تنظیم ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ شام کے محصور شہر حلب سے باہر نکلنے کی اجازت ملنے والے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔
ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ امدادی کارکنان کو بھی عام شہریوں تک رسائی حاصل ہونی چاہیے اور جو خاندان وہاں سے باہر نکلنا چاہتے ہیں انھیں بکھرنے سے بچانے کی ضرورت ہے۔
حلب شہر کو حکومتی فورسز نے گھیرے میں لے رکھا ہے جہاں تقریباً تین لاکھ لوگ محصور ہیں۔ صدر بشار الاسد کی مخالف باغی فورسز گذشتہ چار سالوں سے شہر کے مشرقی علاقوں پر قابض ہیں۔
شام کے اتحادی ملک روس نے اعلان کیا تھا کہ وہ انسانی بنیادوں پر تین راستے عام شہریوں اور غیر مسلح باغیوں کے لیے کھول رہا ہے جبکہ چوتھا راستہ مسلح باغیوں کے لیے ہوگا۔
روس کے وزیر دفاع سرگئي شویگو نے ان راہداریوں کو بڑے پیمانے پر انسانی آپریشن قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کا بنیادی مقصد حلب کے رہائشیوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن عالمی برادری روس کے اس قدم پر کافی محتاط ہے۔
اس دوران انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس ( آئی سی آر سی) نے کہا ہے کہ وہ حلب کے شہریوں کے لیے کسی بھی ایسی مدد کا خیرمقدم کرتا ہے لیکن جو لوگ باہر آنا چاہیں وہ اپنی مرضی سے آئیں اور جو نہیں آنا چاہتے انھیں وہیں پر تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کربی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بظاہر یہ ایک ایسی کوشش لگتی ہے جس کے ذریعے عام شہریوں کو تو باہر نکالنا ہے لیکن باغی گروپوں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔
انھوں نے کہا: ’ضرورت تو کرنے کی یہ ہے کہ حلب کے لوگ اپنے ہی گھروں میں محفوظ طریقے سے مقیم رہیں اور انھیں تمام انسانی سہولیات میّسر ہوں، اصولی طور پر روس اور شام کی حکومت نے اسی پر اتفاق بھی کیا تھا۔‘
ادھر امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا اتحادی فوج کے فضائی حملوں میں عام شہری تو نہیں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں منبج کے پاس واقع ایک گاؤں میں ہلاکتوں سے متعلق بعض تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ہیں۔
امریکی وزارت دفاع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس نے دولت اسلامیہ کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی حملے کیے ہیں اور اس کی مزید تفتیش جاری ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ نے خبردار کیا تھا کہ حلب میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے کیونکہ اب بھی وہاں تین لاکھ لوگ موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ سٹیفن او برائن نے پیر کے روز کہا تھا کہ ’امکان ہے کہ کھانے پینے کی اشیا اگست کے وسط تک ختم ہو جائیں گی اور کئی طبی کیمپوں پر حملے جاری ہیں۔‘