واشنگٹن (جیوڈیسک) شام میں اتوار کے روز انخلا کا کام اُس وقت رک گیا جب باغیوں کے زیر کنٹرول قصبہ جات سے علیل اور زخمیوں کی نقل و حمل پر مامور بسوں پر حملہ کرکے اُنھیں نذر آتش کر دیا گیا۔ یہ بات انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے ادارے، ‘سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس’ نے بتائی ہے۔
یہ گاڑیاں شمال مغربی صوبہ ادلب میں الفوا اور کفریہ کے قبصوں سے کم از کم 2000 افراد کے انخلا کے کام میں استعمال ہو رہی تھیں، جو کہ اُس معاہدے کا حصہ تھا جس کے تحت مشرقی حلب میں انخلا کے کام کا دوبارہ آغاز ہونا تھا۔
صدر بشار الاسد کی حکومت کے لیے لڑنے والی افواج نے مطالبہ کیا ہے کہ مشرقی حلب سے باغیوں اور شہری آبادی کے بھاگ نکلنے کے عوض لوگوں کو اِن دونوں دیہات سے چلے جانے کی اجازت دی جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اتوار کے روز اس بات پر رائے دہی میں حصہ لینے والی تھی آیا انخلا کے کام پر نظر داری کرنے کی غرض سے مبصرین کو لڑائی زدہ شام کے شہر کی جانب روانہ کیا جائے، اور رہ جانے والی شہری آبادی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ پیر کے روز ہونے والی رائے دہی کے کام کو معطل کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر، فرانسواں دلیترے نے اتوار کے روز فرانس کی جانب سے پیش کردہ مسودہ قرارداد پر بند کمرے میں سلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں محفوظ انخلا کے کام، انسانی ہمدردی کی بنا پر فراہم کردہ امداد کی تقسیم کے لیے بغیر شرط کی اقوام متحدہ کی رسائی اور طبی سہولیات کی فراہمی اور اہل کاروں کے تحفظ پر زور دیا گیا، جس پر ”کوئی سمجھوتا ہونا انتہائی مشکل ہے”۔
عالمی ادارے میں روس کے سفیر، وٹالی چرکن نے کہا ہے کہ اگر مجوزہ قرارداد میں ترمیم نہیں لائی جاتی تو وہ اُسے ویٹو کردیں گے۔ اُنھوں نے زور دیا کہ مناسب تیاری کے بغیر مشرقی حلب کے ملبے میں مبصرین کو پھرنے کی اجازت دینے کا مطلب ”تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا”۔
دلیترے نے کہا کہ اگر روس اس قرارداد کو ویٹو کرتا ہے تو فرانس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس طلب کرنے کی تجویز پیش کرے گا۔
مبصرین نے کہا ہے کہ دمشق کی حکومت کی جانب سے جمعے کے روز نقل مکانی کےجس کام کو معطل کیا گیا، اُسے ہفتے کے روز پھر سے شروع کیا جانا تھا۔ تاہم، 40000 پر مشتمل شہری آبادی اور باقی ماندہ باغی لڑاکے نقل مکانی کی کارروائی کے آغاز کے منتظر رہے۔ یہ منسوخی اس وقت سامنے آئی جب سرکار نواز افواج نے دو شیعہ دیہات سے انخلا کا مطالبہ کیا، جو باغیوں کے زیر کنٹرول ہیں۔
شام کا تنازع، جس کی شروعات تقریباً چھ برس قبل ہوئی جس سے پہلے اسد حکومت کے خلاف احتجاج سامنے آیا، جس میں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، اب تک تقریباً 400000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوکر ملک کے اندر بے دخل ہوچکے ہیں، یا پھر ترکِ وطن کرچکے ہیں یا بیرون ملک پناہ لے لی ہے۔