واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ 19 ملکوں کے بین الاقوامی شام حمایت گروپ کے ایلچیوں کا منگل کے روز نیویارک میں ہنگامی اجلاس ہو گا، جس دوران لڑائی کے نتیجے میں تباہ حال ملک کی زمینی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔
اس اجلاس کے بارے میں اعلان پیر کے روز کیا گیا جس سے چند ہی گھنٹے قبل صدر بشار الاسد سے وفادار شامی افواج نے ہفتہ بھر جاری رہنے والی جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد، اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ اقوام متحدہ اور شامی ہلال احمر کا مشترکہ امدادی قافلہ، جو تقریباً 80000 افراد پر مشتمل تھا،اُس پر حلب کے شہر کے مغرب میں فضائی کارروائی کی کئی۔اقوام متحدہ کے مشیر خصوصی، جان ایجلنڈ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ متعدد افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ فوری طور پر مزید تفصیل دستیاب نہیں ، اور یہ واضح نہیں آیا کس فریق کے طیاروں نے یہ کارروائی کی ۔
شام کے اتحادی روس اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہونے والے اس معاہدے کے تحت ملک میں خوراک اور ادویات کی شدید ضروریات پوری کرنے کے مقصد سے وضع کیا گیا، جنھیں شامی فوجوں نے امداد کی فراہمی روکی ہوئی تھی۔ اس میں شام اور اس کے روسی اتحادی یا امریکی حمایت یافتہ باغیوں کو داعش کے شدت پسندوں کےخلاف حملوں سے نہیں روکا گیا تھا، جو ملک پر چڑھ دوڑنے کے کوشاں ہیں۔
شام کی فوجی کمان نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ روس ثالثی میں ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے، جب کہ اُس کی جانب سے اس سمجھوتے کو نقصان پہنچانے کا الزام ملک کے باغی گروپوں پر دیا گیا ہے۔
شامی فوج کا کہنا ہے کہ ’’مسلح دہشت گرد گروپوں‘‘ نے جنگ بندی کی بارہا خلاف ورزی کی، جس کا گذشتہ ہفتے نفاذ ہوا، اور اسے متحرک اور مسلح کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، جب کہ سرکاری تحویل والے علاقوں پر حملے ہوئے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ باغیوں نے ’’اصل موقع‘‘ گنوا دیا، جس کا مقصد خونریزی بند کرتا تھا؛ اور اس بات کا عندیہ نہیں دیا آیا اس معاہدے پر پھر سے عمل درآمد ہوگا۔
سرگرم کارکنوں اور باغی گروپوں نے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام حکومت پر دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حکومتِ شام نے امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی، جو اِس سمجھوتے کا ایک کلیدی جُزو تھا۔
اقوام متحدہ کے ہنگامی کارروائیوں کے رابطہ کار نے کہا ہے کہ اُنھیں ’’افسوس اور مایوسی‘‘ ہے کہ قافلے حلب نہیں پہنچ پائے، جہاں 275000 تک افراد کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے احاطے سے باہر، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پیر کے روز کہا ہے کہ انسانی بنیاد پر رسد کی فراہمی شام میں آٹھ یا زیادہ مقامات پر شہری آبادی تک پہنچنے کی توقع ہے۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے لیے اقوام متحدہ سکریٹری جنرل، اسٹیفن او برائن عالمی ادارے نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ اس سے رسد کی تقسیم کے لیے بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت مل جائے گی، اور جنھیں انتہائی طبی امداد درکار ہے اُنھیں منتقل کیا جائے گا۔
ایک بیان میں اوبرائن نے کہا ہے کہ ’’شام کے عوام نے سخت مشکلات جھیلی ہیں۔ لاکھوں پر مشتمل شام کی شہری آبادی خطرناک احساسِ محرومی اور تشدد کی کارروائیوں کا سامنا کر رہی ہے، خصوصی طور پر وہ علاقے جو محصور ہیں اور سخت مشکل میں گھرے ہوئے ہیں‘‘۔
نو ستمبر کو امریکہ اور روس کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے میں حلب میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رسد کی فراہمی ایک اہم حصہ ہے۔
کیری نے اتوار کے روز امدادی رسد کی فراہمی کو روکنے کا الزام شامی صدر بشار الاسد پر دیتے ہوئے کہا ہے کہ اُن پر دباؤ جاری رکھنے کے لیے روس کو اقدام کرنا چاہیئے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی حرمت کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور ’’عمل درآمد کے مشترکہ مرکز کو قائم ہو لینے دیں، تاکہ روس اور امریکہ رابطہ کر سکیں تاکہ اس خوفناک صورت حال سے بچا جاسکے جو کل پیدا ہوئی جس کا ہم سب کو علم ہے اور جس کا سبھی کو افسوس ہے‘‘۔
کیری ہفتے کو امریکی قیادت کی جانب سے کی جانے والی مہلک فضائی کارروائی کا حوالہ دے رہے تھے، جس میں درجنوں شامی فوجی ہلاک ہوئے۔ امریکی فوج نے کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مشرقی شام میں داعش کے شدت پسندوں کو نشانہ بناتے وقت غیر ارادی طور پر شامی فوجی ہلاک ہوگئے ہوں۔
شام کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ذرائع ابلاغ کے بقول، اسد نے کہا ہے کہ امریکی قیادت والے اتحاد نے فضائی حملے کیے جو ہفتے کے روز دار الزور میں واقع شامی فوج کے ٹھکانوں کو لگے، جو ’’سریح جارحیت‘‘ کے مترادف ہے۔
روسی وزارتِ دفاع نے کہا ہے کہ باغیوں کی خلاف ورزیوں نے حکومتی فوجوں کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کرنے کے معاملے کو ’’بیکار‘‘ بنا دیا ہے۔