شام مشرق وسطیٰ کا قدیم ترین ملک ہے اسے انبیاء کرام کی سر زمین بھی کہا جا تا ہے آج لہو لہان ہے ۔یہاں رہنے والوں کے لئے شام کی زمین تنگ کر دی گئی ہے ۔شامی بچے بوڑھے، جوان ،مرد اور عورتیں اپنی جانیں بچانے کے لئے بھاگ رہے ہیںاور اس وقت شامی بحران ایک شدید انسانی المیہ کی صورت اختیا ر کر چکا ہے۔عالمی طاقتوں نے مسلمانوں کی مقدس سر زمین کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔پورا ملک کھنڈر بن چکا ہے ، شامی شہریوں پر کیمیائی حملے ہو رہے ہیں،لاکھوں ارد گرد کے علاقوں میں پناہ لے چکے ہیں جو بچ گئے وہ بھوک کے ہا تھوں مجبور ہو کر کتے بلیاں کھانے پر مجبور ہیں۔ افسوس مسلم امہ کو اپنے بڑھتے مسلکی و گروہی اختلافات سے ہی فرصت نہیں۔
سات سال قبل عالم عرب میں بہار عرب کے عنوان سے تبدیلی کی جو لہر چلی تھی اس کا اثر اس ملک میں بھی محسوس کیا گیا، فروری2011 ء میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، وہ چالیس سال سے زیادہ لگی ایمرجنسی اور اس کے نتیجے میں ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احتجاج کررہے تھے، بشار الاسد کی فوجوں نے ان پْر امن مظاہرین پر توپ کے دہانے کھول دئیے، اس طرح حالات بگڑے اور بگڑتے چلے گئے، پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا، بشار الا سد کے خلاف کئی تنظیمیں، گروپس وجود میں آگئے، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہرتنظیم اور ہر گروہ کے اپنے مفادہیں اور اس کا اپنا ایجنڈہ ہے۔ دوسری جانب فوج بھی منقسم ہو گئی۔
سات سال کی اس مدت میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ہیں، لاکھوں لوگ نقل مکانی کرکے ترکی، لبنان اور دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے پر مجبور ہیں۔ آج بھی ایک کروڑ اسی لاکھ سے زیادہ لوگ اس جنگ زدہ ملک میں موجود ہیں۔ بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں روس اور ایران کامیابی کے ہدف تک پہنچنے والے ہیں، جب کہ امریکہ، سعودی عرب اور ترکی اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہیں، اس صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ شام کی اس جنگ میں روس اور امریکہ حریف نہیں حلیف ہیں، جن کا واحد مقصد بشار الاسد کے اقتدار کو مستحکم کرنا اور سنی مسلمانوں کا اس خطے سے صفایا کرنا ہے ۔امریکہ اور روس دونوں فضائی حملے کررہے ہیں، بلکہ روس کے متعلق تو یہ بھی اطلاعات ہیں کہ روس نے ان حملوں میں کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کئے ہیں۔شام کی سرزمین ان دونوں عالمی طاقتوں کے لئے میدان جنگ بنی ہوئی ہے، نقصان ملک کا ہورہا ہے ملک کے معصوم عوام ہلاک ہورہے ہیں، ان کے مکانات، اسکول، ہسپتال، عبادت گاہیں مسمار ہورہی ہیں۔اعدادو شمار کے مطابق سال 2018میں خانہ جنگی کے شکار ملک شام میں قریب بیس ہزار انسان مارے گئے۔ مبصرین نے بتایاکہ سالانہ بنیادوں پر پچھلے برس وہاں سب سے کم تعداد میں انسان ہلاک ہوئے۔
شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کے مطابق ان تقریبا انیس ہزار سات سو انسانوں میں سے قریب ساڑھے چھ ہزار عام شہری تھے، جن میں چودہ سو بچے بھی شامل تھے۔2017 میں شام میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تینتیس ہزار رہی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی جنگ سے تباہ حال اس ریاست میں سب سے زیادہ ہلاکتیں دو ہزار چودہ میں ہوئی تھیں، جن کی تعداد 76 ہزار سے زائد بنتی تھی۔سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ شام میں گزشتہ7 برسوں سے جاری خونریز تنازعے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 3 لاکھ 60ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ شامی رضاکاروں نے رقہ شہر میں اجتماعی قبر سے 5 سو سے زائد لاشیں برآمد کرلیں۔ لاشیں انتہائی تیزی سے بوسیدہ ہورہی ہے۔واضح رہے کہ ایک سال قبل امریکی اتحادیوں کے فضائی اور زمینی حملے نے داعش کو رقہ سے انخلا پر مجبور کردیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک امدادی رضاکار رقہ اور اس کے اطراف میں اجتماعی قبروں کی تلاش کررہے ہیں۔اب تک9 اجتماعی قبریں رقہ اور اطراف کے علاقوں میں برآمد ہوچکی ہیں جس میں فضائی کارروائی سے مرنے والے داعش کے جنگجووں اور شہریوں دونوں کی لاشیں شامل ہیں۔ رضا کاروں نے بتایا اب تک داعش کے جنگجووں اور شہریوں سمیت 516 افراد کی لاشیں نکالی جاچکی ہیں۔شام میں جاری خوں ریز ی لاکھوں انسانی جانوں کو نگل چکی ہے۔2011 ء میں شام کی آبادی تقریباً چھ کروڑ تھی۔
کِشت و خون کے ساڑھے چار سال بعد منظر یہ ہے کہ ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد ٦٧ لاکھ کے لگ بھگ ہے، جبکہ چالیس لاکھ سے زیادہ شامی باشندے اپنی سرزمین چھوڑ کر جاچکے ہیں۔شام میں جاری جنگ کے نتیجے میں پناہ گزینوں کا مسئلہ آج پیدا نہیں ہوا، مگر تین سالہ ایلان کْردی کی ساحل پر بہہ کر آنے والی ننھی معصوم لاش نے سماجی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں ہلچل مچا دی تھی۔ ”دی انڈی پینڈنٹ” نے صفحہ اول پر ایلان کردی کی تصویر لگا کر نیچے یہ الفاظ درج کیے: ”یہ کسی کا بچہ ہے، ٣ سالہ ایلان کردی اْن بدقسمت لوگوں میں سے تھا جو ہجرت کی کوشش کے دوران میں بحیرہ روم کا شکار ہوگئے۔ مگر وہ ان خوش قسمت لوگوں میں سے بھی تھا جو شام کے مقتل سے بچ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ شام میں محصور ابھی بھی موجود لاکھوں ایلان کردوں کو کون بچائے گا؟ وہاں اب تک مارے جانے والے ہزاروں بچوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟۔حقیقت یہ ہے کہ شام میں خونریز لڑائی کے آغاز کے بعد جب لوگوں نے ہجرت شروع کی تو ان میں سے اکثر کی منزل پڑوسی ممالک تھے۔
چار سال تک اور آج بھی شامی پناہ گزینوں کا زیادہ تر بوجھ چار مسلم ممالک اٹھائے ہوئے ہیں۔ شامی مہاجرین کا ٥٩ فیصد صرف پانچ ممالک (ترکی، لبنان، اردن، عراق، مصر) میں پناہ گزین ہے۔ ترکی میں ٨٣ء ٩١ فیصد، لبنان میں ٤ء ١١، اردن میں ٣ئ٦، عراق میں ٤٣ئ٢، اور مصر میں ٨٣ء ١، لاکھ شامی مہاجرین موجود ہیں۔ پچھلے چار سال میں اقوام متحدہ نے غربت، وسائل کی کمی، ذاتی مسائل اور عدم استحکام کے باوجود نہایت کثیر تعداد میں شامی باشندوں کو پناہ دینے پر ان ممالک کی توصیف کی ہے، اور وہ مسلسل پوری دنیا سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق2014 ء تک پورے یورپ میں ڈیڑھ لاکھ شامی مہاجرین پناہ لے چکے تھے، جن میں سب سے زیادہ جرمنی اس کے بعد سوئیڈن میںقیام پذیر تھے۔ دراصل یورپ کے لیے مسئلہ مہاجرین میں سنگینی اس وقت پیدا ہوئی جب یورپی یونین کے ممالک بالخصوص یونان، اٹلی اور ہنگری پر مہاجرین کا دبائو بڑھنا شروع ہوا۔اس جنگ کے اثرات دیگر ہمسائے ممالک لبنان، ترکی اور اردن میں بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں جہاں پر بڑی تعداد میں شامی مہاجرین نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ کئی ایک یورپ جانے کی کوشش میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس خانہ جنگی نے ایک انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 70 فیصد آبادی کے پاس پینے کے پانی تک کی سہولت موجود نہیں، ہر تین میں سے ایک فرد اپنی بنیادی خوراک کی ضرور ت پوری کرنے سے قاصر ہے اور ہر چوتھا شامی اس وقت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
دوسری طرف قابل علاج بیماریوں کا علاج بروقت نہ ملنے کی وجہ سے اموات میں تیزی آرہی ہے۔ اس انسانی المیے سے نپٹنے کے لئے نام نہاد عالمی برادری کے پاس ‘وسائل’ تک موجود نہیں لیکن اسی عالمی برادری کے پاس شا م کی تباہی اور جنگ و جدل کے لئے وسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ شامی سنٹر برائے پالیسی ریسرچ اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شام کی ازسر نو تعمیر کے لئے 48 ارب ڈالر درکار ہیں۔ اس کا آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ شام کو تقریباً 25 سال صرف جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں ہونے والی بربادیوں کی ازسر نو تعمیرکے لئے درکار ہیں۔ عالمی بینک نے واضح کیا کہ 59 ارب ڈالر سالانہ کا نقصان سالانہ معاشی سرگرمیاں بند یا محدود ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
شامی حکومت کی طرف سے خانہ جنگی کے خاتمے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن مکمل طور پر خانہ جنگی ختم ہونے میں بھی کئی برس لگ سکتے ہیں۔ بشارالاسد بالفرض مخصوص حالات میں بڑے علاقے پر دوبارہ کنٹرول بھی حاصل کر لیتا ہے تو عدم استحکام، دہشت گردی اور انتشار کئی سالوں تک جاری رہے گا۔سوشل میڈیا پر مہلوک اور زخمی بچوں کی دل دہلا دینے والی تصویریں لگاتار وائرل ہورہی ہیں، لیکن پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، بین الاقوامی برادری شام کی ظالم اور سفاک حکومت کو ان مظالم سے باز رکھنے میں پوری طرح ناکام ہے، اگرچہ زبانی مذمت کا سلسلہ جاری ہے، مگر عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا جارہا ہے، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بڑے بے بس نظر آرہے ہیں، وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جنگ زدہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچایا جاسکے، زخمیوں کی مرہم پٹی ہو، اور مہلوکین کی صحیح تعداد معلوم ہو جائے۔
یہاں مہذب دنیا سے سوال ہے کہ آخر بشار الاسد کو کب تک چھوٹ ملتی رہے گی؟، کیا روس اس وقت تک حملے کرتا رہے گا جب تک بشار الاسد کا ایک بھی مخالف سنی مسلمان ملک میں موجود ہے، امریکہ جو سپر پاور بنا پھرتا ہے روسی حملے روکنے میں ابھی تک ناکام کیوں ہے، کیا اس ناکامی سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ بشار الاسد کے اقتدار کی بقا اسرائیل کے حق میں ہے، اسی لئے امریکہ نہیں چاہتا کہ بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ ہو، جنگ کی حقیقی صورت حال یہ بتلاتی ہے کہ دونوں بڑی طاقتوں کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ سرزمینِ شام میں نصیریوں کا اقتدار سلامت رہے، سنی مسلمان یا تو ملک سے باہر نکل جائیں، یا ہلاک ہوجائیں یا دب کر رہیں، اسی میں ان کی بھلائی ہے، یہ صورت حال تمام مسلمان ملکوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، شام سے نمٹ کر ان کا رخ ان ملکوں کی طرف ہوگا جن سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہے۔