شام کا بحران، متاثرہ بچوں کی تعداد 55 لاکھ ہو گئی

Syria Children

Syria Children

نیویارک (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے بتایا ہے کہ شام میں مسلح تنازع سے جہاں عام انسانی زندگی انتہائی متاثر ہے وہاں کسمپرسی کے مارے بچوں کی تعداد 5.5 ملین کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس ادارے کے مطابق شام کی مسلح خانہ جنگی کی وجہ سے متاثرہ بچوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں دوگنا ہو گئی ہے۔

ادارے کے مطابق خانہ جنگی سے متاثرہ بچوں کی تعداد اب پچپن لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تعداد شام کے کل بچوں کی تعداد کا نصف ہے۔ یونیسیف کے مطابق اس صورت حال کے باعث بچوں کی ایک پوری نسل صحت اور تعلیم کی سہولیات کو ترس رہی ہے اور یہ نسل نفسیاتی امراض کے ساتھ اب بڑی ہو رہی ہے۔ شام میں اب مسلح خانہ جنگی چوتھے سال میں داخل ہو گئی ہے۔

اس کی وجہ سے شام کے طول و عرض میں پھیلی معاشرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ مالی و معاشی نقصان کا براہ راست اثر بچوں پر پڑا ہے جو کم غذا، عدم توجہ، غیر معیاری صحت کی سہولیات، تعلیم سے دوری، بے سکونی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ بے گھر بھی ہیں۔ یونیسیف کا مزید کہنا ہے کہ متاثرہ بچوں کو غیر معیاری خوراک سے پیدا ہونے والے امراض کا بھی سامنا ہے اور ان بچوں کا تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بری طرح تباہ ہو کر رہ گیا ہے اور متاثرہ بچے حقیقت میں اب دوستی اور کھیل کود کی بنیادی ضروریات کے متلاشی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق تین برسوں کی خانہ جنگی نے شام کے بچوں کو دنیا کے سب سے خطرناک خطے میں لاکھڑا کیا ہے۔ فریقین کی جانب سے بارودی مواد کے بے دریغ استعمال سے ہزاروں بچوں کو زندگی سے محرومی کے علاوہ معذوری کا سامنا ہے۔

اس دوران ان بچوں سے ان کے اسکول، خاندان، بہن بھائی، پیار کرنے والے بزرگ، استاد اور دوست چھن کر رہ گئے ہیں۔ اس طرح لاکھوں بچوں کو امن و قانون کی عملداری کے ختم ہو جانے کے بعد کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں اور اس خانہ جنگی میں ایک پوری نسل ضائع ہو کر رہ گئی ہے۔

یونیسیف کے مطابق جب سے شام میں مسلح تنازع کا آغاز ہوا تب سے پرتشدد واقعات میں کم از کم دس ہزار بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہی پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں کے علاوہ ہزاروں دیگر زخمی ہیں اور کئی معذور ہو چکے ہیں۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق شام کے متاثرہ کم سے کم دو لاکھ بچوں کو نفسیاتی علاج کی اشد ضرورت ہے اور اسی علاج کے بعد ہی وہ کسی حد تک نارمل زندگی کی طرف لوٹنے کے قابل ہوں گے۔ تین لاکھ سے زائد بچے شام کے اندر بے گھر ہیں۔ بارہ لاکھ بچے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔