تحریر : علی عمران شاہین انبیائے کرامoکی ایک سرزمین شام عرصہ 6 سال سے لہولہان ہے۔صرف اورصرف اقتدار میں رہنے کی خواہش کے ساتھ بشارالاسد نے اپنے ہی عوام پر ظلم کی تمام حدود کو پامال کرتے ہوئے فرعون و ہامان اور ہلاکو وچنگیز کو بھی مات دے دی ہے۔ بشارالاسد کے اس ظلم وستم کے نتیجے میں ایک کروڑ سے زائد شامی شہری اپنے ملک سے فرارہوکر دنیابھرمیں دھکے کھارہے ہیں۔ سمندروں میں غرق ہورہے ہیں’ان کے بچے فروخت اورعفت مآب خواتین کی عزتیں نیلام ہورہی ہیں۔6لاکھ سے زائد کو اپنے ہی حکمران نے بدترین طریقے سے موت کے گھاٹ اتارڈالاہے۔دسیوں لاکھ ملک کے اندر بے گھروخوار ہیں توملک کااکثر وبیشتر حصہ بلکہ دیہات تک مکمل طورپر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ساری دنیااس اندھے ظلم وستم کو ایک تماشائی کی صورت میں صرف اس لیے دیکھ رہی ہے کہ مرنے اور لٹنے پٹنے والے صرف مسلمان ہیں’ وگرنہ اسرائیل میں مرنے والے ایک یہودی یایورپی و مغربی دنیامیں مرنے والے چند لوگوں پرکس قدر کہرام بپا ہوتاہے’ سب کے سامنے ہے۔
فرعونِ زمانہ بشارالاسد کی اپنی فوج کابڑاحصہ جنگ میں ہلاک یاپھرفرار ہوچکاہے لیکن چونکہ اسے روس’ یورپی ممالک بلکہ امریکہ تک کی کہیں کھلی توکہیں درپردہ حمایت حاصل ہے’اس لیے بشارالاسد کو کسی کی پروا نہیں۔ اپنے ہی شہریوں کومارنے کے لیے دنیاکے خطرناک ترین ہتھیاروں بشمول بیرل بموں’کلسٹربموں بلکہ زہریلے حیاتیاتی وکیمیائی ہتھیاروں کااستعمال بے دریغ کیاجارہا ہےشام کے ہزاروں بچے ان ہتھیاروں کے استعمال سے عمارتوں کے ملبے میں دب کر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ہیں۔ بے شمار زخموں سے چورچور ہوکر’لہولہان حالت میں ملبے کے ڈھیروں سے باہرنکلتے ہیں۔ کوئی زہریلی گیسوں اور کیمیائی ہتھیاروں کا نشانہ بن کر تڑپ تڑپ کر مرتے ہیں لیکن کسی کادل نہیں پسیجتا۔ایک ملالہ پرچلنے والی مبینہ گولی پر توپورا عالم یوں گلوگیر تھاجیسے اب اس دنیاکی تباہی یقینی ہو چکی ہے لیکن شام میں کتنی ملالائیں کٹتی مرتی ہیں’ کسی پر کوئی اثرنہیں۔
18اگست کواس حلب شہرکی ایک رہائشی سامعہ نامی 4سالہ بچی کے بارے میں میڈیانے رپورٹ دی کہ وہ دیگربہت سے بچوں کی طرح کیمیائی کلورین گیس حملے کا شکار ہوکر ہسپتال پہنچی تھی’اسے آکسیجن دی گئی ‘اس کی جان بچ گئی ۔پھروہ واپس اپنے تباہ حال گھرپہنچی جہاں اس کی حالت اب بھی پوری طرح تسلی بخش نہیں لیکن اس کے اہل خانہ نے حلب چھوڑنے سے انکارکردیاہے۔ماہ جولائی 2016ء میں بشارالاسد کی فوجوں نے اعلان کیاتھاکہ انہوں نے حلب کی مرکزی سپلائی لائن کاٹ دی ہے جس کے بعد اب حلب میں پھنسے ہوئے ہزاروں حکومت مخالف جنگجوبے بس ہوگئے ہیں۔اس کے بعد شامی اورروسی جنگی طیاروں سے مسلسل اشتہارات گرائے جاتے رہے کہ حلب کے رہائشیوں کے علاقے سے نکلنے کے لیے 3راستے بنائے گئے ہیں’لہٰذا وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے باہرنکل جائیں’وگرنہ ان پر بے تحاشا بمباری میں کہیں زیادہ اضافہ ہوسکتاہے۔
Aleppo Peoples
حلب کے لاکھوں شہری جو سالہا سال سے بدترین حالات میں یہیں جینے اور مرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں’ان میں سے گنے چنے چند لوگوں کے علاوہ کسی نے شہرنہ چھوڑا۔ اس کے بعد مسلسل بے پناہ بمباری اورگولہ باری ہوئی۔بچاکھچاشہربھی بربادہوا۔ بھوک وافلاس کے ساتھ پانی کی بوند تک لینامشکل ہوئی لیکن یہ لوگ یہیں موجود رہے حتّٰی کہ 3اگست2016ء کے روز بشارالاسدکے ظلم واستبداد سے نجات کے لیے لڑنے والی مقامی تنظیموں کے نوجوانوں نے انتہائی جرأت و بہادری اور بے مثال جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے حلب کا محاصرہ توڑ دیا۔ بشار الاسدکی فوج اوراس کے ملکی وغیرملکی حامی سینکڑوں فوجی اور افسران یہاں ہلاک ہوئے جن میں بشارالاسدکاایک میجرجنرل بھی شامل تھاتوانہیں یہاں سے بھاگناپڑاجس کے بعد حلب کے باسیوں نے خوشی سے نہال ہوکر آزادی پسند نوجوانوں کااستقبال کیااور دنیاکوکھل کر بتایا کہ وہ سب کے سب مرتوسکتے ہیں لیکن بشارالاسد کی حکومت کوبرداشت نہیں کر سکتے۔
حلب کے محاصرے کو توڑنے کے لیے ان حریت پسند نوجوانوں نے لمبی لمبی سرنگیں کھود کر محاصرہ کے لیے آئے فوجیوں کے کیمپوں کے نیچے جاکر دھماکے بھی کیے تھے جس سے دشمن کی کمرٹوٹ گئی۔یوں معرکۂ حلب نے ایمان و جرأت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔کمال تماشہ دیکھئے کہ جیسے ہی حلب کایہ محاصرہ ٹوٹااور شہریوں نے بے پناہ خوشی کااظہار کیا’فوری طورپر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں نے واویلاشروع کردیاکہ حلب میں 20لاکھ لوگوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں اوردنیاکو ان لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے آگے آنا ہو گا۔حالانکہ سالہاسال کی جنگ اور ظلم ومحاصرے کے باوجود اقوام متحدہ چین کی نیند سورہی ہے۔18اگست کوعالمی میڈیا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے اسلام دشمن اداروں کی وساطت سے بھی خبردی کہ شام کی جیلوں میں بشارالاسد حکومت نے اپنے 18ہزار مخالفین کوانتہائی برے طریقے سے ظلم وتشدد کانشانہ بناکر مار ڈالاہے۔
اس قتل عام میں سال2016ء کی شہادتیں شامل نہیں ہیں۔بتایاگیا کہ اکثرقیدیوں کو جیلوں کے محافظوں کی جانب سے ظلم وتشددکاسامناہوتاہے جس کا نام ”استقبالیہ پارٹی” رکھا گیاہے۔ اس کے بعد قیدیوں کی تلاشی کاعمل شروع ہوتا ہے اورپھربشارالاسد کے فوجی جوان خواتین قیدیوں کو جنسی تشدد کانشانہ بھی بناتے ہیں۔ یہاں موجود ثمرنامی قیدی نے ادارے کو بتایاکہ ہمارے ساتھ یہاں اب جو غیرانسانی سلوک ہوتاہے ‘یہ بتانا توکجا’سوچنا بھی محال ہے۔میں نے یہاں قیدیوں کا خون یوں بہتے دیکھاجیسے دریاہو۔یہاں کسی کو کبھی بھی کہیں بھی مارنے میں کہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ایک اور قیدی نے بتایا کہ ہمارے ایک سیل میں 7قیدی دم گھٹنے سے ہلاک ہوئے۔ بعدمیں ہمیں محافظ اس لیے بری طرح مارتے تھے کہ وہ دیکھ سکیں کہ ہم میں سے کون مرگیااورکون زندہ رہ گیا ہے۔ ادارے نے بتایا کہ بشارالاسد حکومت کی فورسز مخالفین کو ختم کرنے کے لیے بدترین تشدد کااستعمال کررہی ہیں۔
Human Rights Watch
16اگست 2016ء کو تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے شام میں روسی فوج اورصدر بشارالاسد کی وفادار فورس کی جانب سے حلب اور ادلب میں نہتے شہریوں پرممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی شدید مذمت کی۔تنظیم کاکہنا تھا کہ انتہائی مہلک ‘تباہ کن اور جلاکر راکھ کردینے والااسلحہ بے دریغ استعمال کر رہی ہیں جس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر شہریوں کاجانی نقصان ہو رہاہے۔شہری آبادیوں پرگرائے گئے آتش گیر بم بڑے پیمانے پرتباہی پھیلاتے اور آگ لگادیتے ہیں۔ان سے نکلنے والی خطرناک گیسیں شہریوں کی ہڈیوں اور نظام تنفس کو بھی بری طرح متاثرکرتی ہیں۔ شہریوں کے خلاف عالمی سطح پر ممنوعہ اسلحے کے استعمال پر پابندی کے باوجود شام میں سرعام اس طرح کے ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔اس سے قبل ویتنام کی جنگ میں بھی ممنوعہ مہلک ہتھیار استعمال کیے گئے تھے مگر بعد میں آگ لگانے والے ہتھیاروں کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیاتھا لیکن شام میں جو جیسے چاہے مسلمانوں کو قتل کرے’ کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔
بشارالاسد’روس اور ان کے دیگرحامیوںکی فوجیں عام شہریوںہی کو نہیں’ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹروں و مریضوں تک کوگولہ باری کرکے قتل کررہی ہیں۔ 10 اگست کو شامی شہرحلب میں بچ جانے والے ڈاکٹروں نے امریکی صدر باراک اوباماسے درخواست کی کہ وہ وہاں پھنسے ہوئے ڈھائی لاکھ شہریوں کی مدد کریں۔ 29 ڈاکٹروں نے ایک خط میں خبردارکیا کہ اگر ہسپتالوں پرایسے ہی حملے ہوتے رہے تو ایک ماہ کے دوران یہاں کوئی نہیں بچے گا۔ انہوں نے امریکی صدر سے کہا کہ وہ حلب کونوفلائی زون قراردیں تاکہ وہاں ہونے والے فضائی حملے رک سکیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں امریکہ یاباقی دنیاکے آنسوؤں یا ہمدردی کی ضرورت نہیں۔ہمیں ایسی جگہ کی ضرورت ہے جہاں بمباری نہ ہو’ محاصرہ نہ ہو اورہم علاج کرسکیں۔7اگست 2016ء کوعالمی میڈیا پرعمران دانش نامی ایک معصوم بچے کی تصویرنے بے پناہ توجہ حاصل کی جو کئی دن بعد تباہ حال عمارت کے ملبے سے نکالاگیاہے۔ وہ خاک وخون میں لت پت ایمبولینس میں بیٹھااپنے ماتھے سے خون صاف کرتااورہاتھ سیٹ پرپونچھتا ہے۔جب اس تصویر کو معصوم عیلان کردی کی ساحل سمندر پرپڑی لاش کی طرح توجہ ملی توروس نے چند گھنٹے جنگ بندی کااعلان کیا کہ وہ حلب کے شہریوں کے لیے اب کچھ رعایت دے گا۔
مسلمانوں کے قتل میں عالمی طاقتیں کس طرح متحد و منظم ہیں ؟یہ دیکھناہوتوحلب اور شام اس کی کھلی مثال ہے جہاں اب روس کے ساتھ امریکہ نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ بھی حلب میں روسیوں کے ساتھ مل کر ایک ساتھ بمباری کریں گے اور اپنے مشترکہ اہداف کونشانہ بنائیں گے۔اس سبکے باوجود بھی یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ اس کی پھیلنے کی رفتارمیں کمی نہیں’ اضافہ ہی ہوا ہے۔اسلام دشمن طاقتوں کے پاس ساری دنیاکے بے پناہ وسائل ہیں ‘بے پناہ طاقت ہے جبکہ ان کے مقابل مسلمانوں کے پاس توبمشکل کنکر’پتھر ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی بقا اورسلامتی کی فکر کسے لاحق ہے؟ وہ سارا عالم جانتا ہے ۔ ضرورت تواس امرکی ہے کہ امت مسلمہ اپنا رشتہ اپنے رب اور اپنے ماضی سے جوڑکر اپنی ہر سطح پراصلاح کرتے ہوئے میدان میںاترنے والی بن جائے’ فتوحات اس کی منتظر ہیں۔ معرکہ حلب اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔