دمشق (جیوڈیسک) شامی صدر بشارالاسد نے یورپی یونین کی بعض شامی شخصیات پر پابندیوں کے بعد جوابی وار کیا ہے اور انھوں نے بیروت اور دمشق کے درمیان آئے دن سفر کرنے والے یورپی یونین کے سفارت کاروں اور دوسرے حکام کے خصوصی ویزے منسوخ کردیے ہیں۔ان کے اس اقدام سے چندے قبل ہی یورپی یونین نے گیارہ شامی شخصیات اور پانچ اداروں پر پابندیاں عاید کردی ہیں۔
تین یورپی سفارت کاروں نے شامی حکومت کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے جنگ زدہ ملک کے متاثرہ افراد میں امدادی سامان کی تقسیم کے لیے کوششیں پیچیدگی کا شکار ہوجائیں گی۔ ایک یورپی سفارت کار کا کہنا ہے کہ ’’ شامی حکومت کے اقدام سے یورپی یونین کی انسانی امداد کے لیے سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔اس سے یورپی حکومتوں اور یورپی یونین کے اداروں کے سفارت کاروں اور عملہ کے لیے مسائل پیدا ہوجائیں گے‘‘۔
شام میں 2011ء میں بحران کے آغاز کے بعد سے یورپی یونین نے پڑوسی ملک لبنان کے دارالحکومت بیروت کو اپنا سفارتی مستقر بنا رکھا ہے جبکہ دمشق میں یورپی یونین کے بیشتر رکن ممالک نے بشارالاسد کی حکومت کے پُرامن مظاہرین کے خلاف سفاکانہ کریک ڈاؤن کے بعد احتجاج کے طور پر اپنے سفارت خانے بند کردیے تھے اور سفارتی عملہ کو واپس بلا لیا تھا یا بیروت منتقل کردیا تھا۔
یورپی یونین کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے ان سفارت کاروں کے دمشق میں داخلے کے لیے خصوصی اجازت نامے منسوخ کردیے ہیں اور اس کا کوئی جواز بھی پیش نہیں کیا ہے۔اب انھیں ہر مرتبہ شام آنے کے لیے سنگل انٹری ویز ے کے حصول کے لیے درخواست دینا پڑے گی۔
ان یورپی سفارت کاروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ شامی حکومت اس طرح یورپی حکومتوں اور یونین کو دمشق میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے کے لیے مجبور کرنا چاہتی ہے۔واضح رہے کہ شامی فوج کے روس اور ایران کی فوجی مدد کے بعد ملک کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول کے بعد سے بعض عرب ممالک نے دمشق میں اپنے سفارت خانے دوبارہ کھول لیے ہیں۔
یاد رہے کہ یورپی کمیشن نے شام میں گذشتہ آٹھ سال سے جاری تباہ کن جنگ کے دوران میں قریباً 80 کروڑ یورو ( 90 کروڑ 94 لاکھ ڈالر) اندرون ملک بے گھر ہونے والے شامیوں کو خوراک ، ادویہ اور شیلٹر مہیا کرنے کے لیے امداد کے طور پر دیے ہیں۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوا کہ شامی حکومت کی جانب سے کثیر- ویزا ( ملٹی ویزا) پابندی کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔تاہم کمیشن کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’بلاک اس اقدام کے شام کے اندر یورپی یونین کی انسانی امداد کی بہم رسانی پر اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کررہا ہے‘‘۔