شام (جیوڈیسک) شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے ملک میں پچھلے چھ سال سے جاری قتل عام اور خانہ جنگی کو مغرب اور روس کے درمیان محاذ آرائی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترک فوج کی شام میں مداخلت جارحیت اور عالمی قوانین کے منافی ہے۔
ایک روسی اخبار ’’کومسو مولسکایا برافدا‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں صدر بشار الاسد نے کہا کہ روسی فوج کی موجودگی شامی عوام کے تحفظ کے لیے ہے۔ ان کے انداز بیان سے ایسے لگ رہا تھا گویا وہ شام میں قتل عام کا حکم دیتے ہیں اور نہ ہی اپنی فوج کو نہتے شہریوں پر بمباری کرنے اور ان پر بیرل بموں سے حملوں کی اجازت دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں شام میں ہونے والے قتل عام کی تمام تر ذمہ داری ان دہشت گردوں پر ہے جو اسد رجیم کا تختہ الٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شام میں جاری لڑائی دراصل روس اور مغرب کے درمیان محاذ آرائی ہے اور دنیا کو اس جنگ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
صدر بشار الاسد نے کہا کہ پچھلے چند ماہ کے دوران ہم نے مغرب اور روس کے درمیان سرد جنگ میں شدت آتے دیکھی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اسے کیا نام دوں مگر میں یہ مانتا ہوں کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مغرب بالخصوص امریکا نے سرد جنگ روک دی تھی۔
شام میں ترک فوج کی موجودگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر اسد کا کہنا تھا کہ ترکی شام کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا مرتکب رہا ہے اور اس نے اپنی فوجیں بھی شام میں اتار دی ہیں۔ ہم نے حلب میں آپریشن شروع کیا ہے تاکہ دہشت گردی کو ترکی کی طرف دھکیل دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترک فوج کی کارروائی شام میں جارحیت، عالمی قوانین کے منافی اقدام اور شام کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔
خیال رہے کہ شامی صدر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حلب جیسا اہم شہر بدترین تباہی اور بربادی کے ساتھ بھیانک انسانی المیے کا منظر پیش کررہا ہے۔ روسی فوج اور بشارالاسد کے دیگر حامی عناصر نہتے شہریوں پر بمباری کر رہے ہیں۔
امریکا نے بھی متبادل آپشن اختیار کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں بشارالاسد اور ان کے حلیفوں کی تنصیبات پر فضائی حملوں کی تجویز بھی شامل ہے۔