واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی وزیر خارجہ جان کیری خالی ہاتھ گھر لوٹ رہے ہیں؛ ایسے میں جب وہ شام میں جنگ بندی کے معاملے پر اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے لیے سفارت کاری کی سخت کوششوں کے باوجود ناکام رہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان ’’تکنیکی معاملات‘‘ اب بھی حل طلب ہیں۔ محکمہٴ خارجہ نے پیر کے روز کہا ہے کہ امریکی اور روسی مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت اِس ہفتے بھی جاری رہے گی۔
چین کے شہر ہینگڈو میں جی 20 سربراہ اجلاس کے احاطے سے باہر امریکہ اور روس کے صدرو نے شام پر گفتگو کی، جس کے بارے میں براک اوباما نے گفتگو کو ’’کاروباری نوعیت‘‘ کی اور ’’تعمیری لیکن نامکمل‘‘ قرار دیا ہے۔
جی 20 سربراہ اجلاس کی تکمیل پر، امریکی صدر نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’اعتماد کی کمی کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل مذاکرات تھے اور ابھی تک ہم اس پر حاوی نہیں پا سکے، جہاں ہم یہ خیال کرسکیں کہ اب یہ چل پڑے ہیں۔‘‘
اوباما نے مزید کہا کہ اُنھوں نے کیری کو ہدایات دی ہیں جب کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے وزیر خارجہ، سرگئی لاوروف کے بتا دیا ہے کہ وہ ’’اگلے چند روز تک، اِس پر کام کرتے رہیں‘‘، ان توقعات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ شام کے تنازع میں ملوث تمام فریق کے ساتھ براہ راست بالواسطہ سمجھوتا ہونے پر ’’اس مسئلے کے سیاسی حل کے لیے سنجیدہ گفتگو ہوسکے گی‘‘۔
پیوٹن نے ایک علیحدہ اخباری کانفرنس میں نمائندوں کو بتایا کہ شام سے متعلق امریکہ اور ترکی کے درمیان بات چیت جاری ہے اور اس ضمن میں مذاکرات کاروں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔
گذشتہ 10 دِنوں کے دوران، مستعدی سے کام کرنے والے وزیر خارجہ نے جنیوا اور ہینگڈو میں روسی وزیر خارجہ لاوروف سے بالمشافہ اور ٹیلی فون پر رابطہ جاری رکھا؛ جب چوٹی کے امریکی ایلچی بنگلہ دیش اور بھارت کے دورے پر تھے۔
کیری اور سینئر مشیروں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے وہ صرف اعلان کی خاطر کسی سرسری سمجھوتے کی کوشش میں نہیں ہیں. لیکن، اِس بات کے خواہاں ہیں کہ امریکہ اور روس کسی حقیقی معاہدے پر رضامند ہوں تاکہ شام میں مخاصمانہ کارروائیاں دیرپہ طور پر بند ہو سکیں۔
تاہم، کچھ اعلیٰ امریکی حکام کی نظروں میں یہ تصور بڑھ رہا ہے کہ روسی مذاکرات میں امریکیوں کو جھانسہ دینا چاہتے ہیں۔
نجی طور پر، امریکی سفارت کار کہتے ہیں کہ روسی ہم منصبوں کے ساتھ مذاکرات اس بات کو ثابت کرے گا آیا روس معاہدہ طے کرنے میں سنجیدہ ہے یا پھر وہ محض وقت حاصل کرنا چاہتا ہے جس سے وہ اوباما اور کیری کو ناکام مذاکرات کار دکھانا چاہتا ہے۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہل کار نے ہفتے کے روز اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ شعبوں پر روسی بھاگ کھڑے ہوئے، جب کہ ہم سمجھتے تھے کہ اِن پر ہم میں اتفاق ہے‘‘۔
طویل مدت سے روس شام کا حامی رہا ہے، اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس بات کا خواہاں ہے کہ دمشق میں صدر بشار الاسد اقتدار سے چمٹے رہیں، تاکہ خطے میں روس کا اثر و رسوخ برقرار رہے۔
سفارت کاروں کو کوئی ابہام نہیں کہ پانچ برس سے جاری لڑائی کے خاتمے سے شام کے عوام کو لاحق شدید مشکلات ختم ہوں گی۔ وہ لڑائی کو پیچیدہ معاملہ قرار دیتے ہیں، جہاں جنگ میں ملوث متعدد میلشیاؤں کے درمیان بدلتے ہوئے اتحادوں کے نتیجے میں صورت حال مزید مشکل ہو چکی ہے۔