تحریر : صادق مصطفوی انبیاء کی سر زمین ملک شام سے اُجڑے ہوئے گھر ، خون کے آنسو روتی آنکھیں، بکھرے انسانی اعضاء، زندہ لاش بنی مائیں، ٹوٹتے جسم میں سسکتے باپ، چیختی چلاتی بہنیں، تڑپتے بے بس بھائی امت مسلمہ کی مجرمانہ خاموشی پرسراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پردل دہلانے والے معصوم بچوں کی روتے ہوئے حالت زار بیان کرتے ہوئے ویڈیوز مسلمانوں کو جھنجھوڑنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔
ملک شام کے اپریل 1946 میں فرانسیسی سامراج سے نام نہاد آزادی حاصل ہونے کے بعد بھی اس ملک کے معاملات کئی سال تک اسی سامراج کی نگرانی میں رہے۔ حافظ الاسد 1964 میں شام کی فضائیہ کے کمانڈر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1967ء میں خانہ جنگی کے دوران وزیر دفاع منتخب ہوئے ۔ 1970ء میں حافظ الاسد نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی ، اور ریفرینڈم کے ذریعے شام کے صدر کے عہدے پر پہنچ گئے۔ شام پر 21سال تک حکومت میں رہنے کے بعد جون 2000 ء میں ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے تو ان کے بیٹے بشار الاسد کو 10 جولائی 2000 کو ملک کے نئے صدر بنے،2007 میں دوسری بار صدر اور 3جون 2014 کو تیسری بار صدر منتخب ہوئے ۔ ملک شام میں شروع سے ہی طاقت کی دوڑ رہی ہے۔ جب ایران نے 2006 میں شام کے ساتھ سفارتی روابط کو بڑھانا شروع کیا۔ تو کئی دوسرے ممالک نے بھی دلچسپی لینا شروع کر دی جس میں امریکہ، روس، سعودی عرب، قطرقابل ذکر ہیں۔
اسرائیل تو پہلے سے دخل اندازی کر تا آ رہا تھا۔ ان ممالک نے اپنے اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے شام میں سرگرم مختلف باغی اور دہشت گرد گروپس جن میں داعش، کردوں کا گروپ، جمہوریت کے حامی باغی گروپ کو مزید ہوا دینا شروع کر دیا۔19مئی 2011 کو امریکی صدر بارک ابامہ نے شام میں ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں حکومت مخالف مظاہرے اور خانہ جنگی شروع ہوئی جس کو صدر بشارالاسد نے حکمت عملی کی بجائے فوجی طاقت سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ۔کچھ مسلمان ممالک اور عالمی طاقتوں کی مداخلت کی صورت میں ابھی تک شام اندرونی انتشار کا شکار ہے۔
شام میں 5 لاکھ کے قریب لوگ شہید ہو چکے ہیں، 10لاکھ کے قریب زخمی ہیں، 48لاکھ افراد ہجرت کر کے لبنان، ترکی، اردن اور کچھ دیگر ملکوں میں ہجرت کر چکے ہیں۔70لاکھ کے قریب اندرون ملک بے گھر ہیں۔ 10لاکھ کے قریب لوگوں یورپ کے ممالک میں پناہ کیلئے درخواست دے چکے ہیں ۔ شام میں انسانیت کی تذلیل پر اقوام متحدہ اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
بمباری کا شکار ہونے والے لوگوں کی طبی اور غذائی امداد کی فوری ضرورت ہے ۔ اگر ہم شام میں ویلفیئر کے جذبے سے امداد کی صورت حال دیکھیں تو اقوام متحدہ اور منہاج ویلفیئر فاؤنڈئشن کے علاوہ کسی تنظیم یا ملک کی طرف سے کوئی اقدام نظر نہیں آتا۔ سال 2011میں بھی اقوام متحدہ اور منہاج ویلفیئر کی طرف سے شام کے لوگوں کی امداد کی گئی اور اب فروری 2018 میں ہونے والی حالیہ دارلحکومت دمشق کے قریبی علاقہ غوطہ میں ہونے والی بمباری کی صورت حال میںیورپی ممالک اور منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے شام میں فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بے گھر اور متاثرہ لوگوں تک امدادی سامان پہنچایا جا سکے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے حکم پر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی طرف سے ابتدائی ٹیم امدادی سامان لے کر شام کی متاثرہ عوام کیلئے پہنچ چکی ہے۔
پاکستان کو اپنا سفارتی کردار ادا کرتے ہوئے شام کے مسلمانوں کی اس بد حالی میں امداد کو یقینی بنانا ہو گا۔ شام میں دخل اندازی کرنے والے ممالک سے پاکستان کو ملکی سطح پر بات کرنی چاہیے اور اس خانہ جنگی میں عوام کی حفاظت کو ہر صورت یقینی بنانے پر زور دینا ہو گا۔ انسانیت کے اس قتل عام کو بند کرانے کیلئے زور دینا ہو گا۔ شامی مسلمانوں کی میڈیکل اور غذائی امداد کیلئے پاکستان کو ملک بھر کی ویلفیئر تنظیموں کے تعاون سے اور حکومتی سطح پر شامی مسلمانوں کے ریلیف کیلئے قابل ذکر اقدام کرنے چاہیں۔